کیٹیگری: مضامین

اسلام میں پیدا ہوئے اشکال اور باطنی علم سے محرومی:

کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے اور جو کچھ قصے بیان کئے جاتے رہیں ہیں وہ اتنے ذیادہ درست نہیں ہیں خاص طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہے، اور حضوؐرنبی کریم کی پیدائش کا جو پس منظر ہے وہ بہت اہم ہے ۔چونکہ حقیقت سے واقفیت نہ ہونے کی بنا پر شریعت مصطفی میں بہت سے علما نے ایسے مسائل پیدا کرئیے ہیں جس کی وجہ سے خطرناک قسم کے عقائد مسلمانوں کے اذہان میں جگہ کر گئے ہیں ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو حضوؐرکے حوالے سے جو کچھ بھی کہا جائے وہ آنکھ بند کر کے مان لیتے ہیں لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ جب سے مذہبی دہشت گردی عام ہوئی ہے اُس وقت سے غیر مسلم افراد نے اسلام پر اور حضوؐرکی حیات طیبہ پرانٹرنیٹ پر بہت کچھ تلاش کیا ہے اور جاننا چاہا ہے کہ اسلام کیا ہے ؟ اور پھر حضوؐرکی ذات کو بھی اقوام عالم میں معاذ اللہ متنازعہ بنا رکھا ہے اور ہمارے جو علماکرام کا گفتار و کردار اور جو جوش خطابت ہےوہ ہمارے ہی ممالک کی مساجد تک محدود ہے ۔ آج کاغیر مسلم جس کو اسلام کا تعارف دہشت گردی کے پس منظر میں ہوا ، اسلام اور حضوؐرکی ذات کے حوالے سے اس کے ذہن میں کیاتخیلات اور تصوات بپا رہتے ہیں ، ہمارے عالم کو اُس کی پرواہ نہیں ہے ۔
بہت سے مسئلے ہیں جیسے حضوؐرکی جو ولادتِ سعادت ہوئی وہ حضرت عبداللہ کے انتقال کے دو سال بعد ہوئی ۔ میڈیکل کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں دو سال تک رہے لیکن ہمارے مولویوں کو حقیقت کا علم نہیں ہے لہذا پنی طرف سے باتیں گھڑ لیتے ہیں ، اس کو شریعت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اسی سے مسائل نکال دیتے ہیں اس لئے غیر مسلم طعنے دیتے ہیں ۔یہ بات حقیقت ہے کہ آپؐ کی جو ولادت ہوئی وہ حضرت عبداللہ کے انتقال کے دو سال بعد ہوئی اور اسی غلط العام تصور کو لے کر شریعت کا مسئلہ بھی بنا ہوا ہے کہ اگر کسی خاتون کے یہاں شوہر کے مر جانے کے دو سال بعد بھی بچہ ہوتا ہے تو وہ اسی کا تصور کیا جائے گا۔ شریعت میں یہ کتنا بڑا اشکال اور گمراہی پیدا ہوگئی ہے اور اسکی وجہ لا علمی ہی ہے ۔باطنی علم وہ علم ہے جو کتابوں میں موجود نہیں ہے ، کوئی عاشق مصطفی ، کوئی طاہر القادری ، کوئی شیخ الاسلام کتابیں تو کھنگال کر علم بیان کر سکتا ہے لیکن اصل عالم وہ ہے جو آنکھیں بند کر کے حضوؐرکو دیکھ لے اور پوچھے یا رسول اللہ آپ کی ولادت کیسے ہوئی تھی ، اس کو باطنی علم کہتے ہیں ۔ باطنی علم سے محروم ہے اُمت صرف لعن و طعن کرنا جانتے ہیں ، فرقہ واریت کو فروغ دینا جانتے ہیں ۔ عرصے سے حضوؐرنبی کریم کی ولادت حضرت عبداللہ کے انتقال کے دو سال بعد ہوئی ایک معمہ بنی ہوئی ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ گورے یہ کہتے ہیں کہ معاذا للہ تمھارے نبی نے تو چھوٹی بچیوں سے شادی کی ہے،معاذ اللہ کوئی کہتا ہے Pedophile ہیں۔ نقل کفر کفر نہ با شد اُن کا حوالہ دے کر کہہ رہا ہوں کہ اسطرح کا بہتان وہ لوگ لگاتے ہیں ۔ پھر گیارہ شادیوں پر بھی انگلی اُٹھاتےہیں لیکن جو گیارہ شادیاں کی ہیں اُن میں سے ایک شادی ایسی بھی ہے کہ وہ عورت ماریہ قبطیہ یہودی تھی اور اس نے اسلام قبول بھی نہیں کیا تھا۔ آج کے علما کہتے ہیں کہ یہودی ہمارے دشمن ہیں جبکہ حضوؐرنے یہودی عورت سے شادی بھی کی ہے اور اسے مسلمان بھی نہیں کیا ۔یہ جو مسائل ہیں ان کا کتابوں میں ذکر کیسے ہو سکتا ہے ۔ کونسا عالم ایسا ہے جس کے پاس یہ علم ہو کہ بیان کرے ، اور بیان کرے بھی تو کیا کرے، آج کا عالم تو فتنہ پھیلانا جانتا ہے ، وہ تو فرقے بنانا جانتا ہے ان کے پاس حقیقت کہاں ہے۔اب جب ISIS مشہور ہوئی اور وہ کیا کرتے ہیں جب اُن کی باتیں عام ہوئیں تو اُن باتوں میں کچھ باتیں ایسی تھیں جن کو انہوں نے شریعت سے جوڑا اور مسلمانوں کو وہاں سے حوالے دئیے کہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ سنت رسول ہے لہذا مسلمانوں نے اُن کی اس بات کو تسلیم کر لیا اور انھیں مجاہد کہنے لگےجبکہ وہ کام حضوؐر نے کیا ہی نہیں تھا۔(ISIS) نے یہ کیا کہ سریا کے مختلف علاقوں اور گردو نواح میں ایک قوم ایسی تھی جس کا نام یزیدی قوم تھا ، اُن کی عورتوں کو اُٹھا کر جنسی ضرورت کے لئے استعمال کرتے رہےاور اس بات کو شریعت سے جوڑا کہ جب حضوؐرکفا ر کے ساتھ جنگ کرتے تھے اور اُن کو شکست فاش دیتے تھے ، اس کے بعد اُن کی جو عورتیں ہوتی تھیں اُن کو لونڈیاں بناتے تھے اور اُن کے ساتھ ہم بستری کرنا جائز قرار دیا جاتاتھا ۔اُس سے آج کی اس بات کو ملایا جو کہ غلط ہے ۔ ایک علاقے میں غیر مذہب کے لوگ موجود ہیں وہاں جا کر ان کی خواتین کو اُٹھا لائیں اور آپس میں جنسی مزے کے لئے بانٹ لیں اور اس کو شریعت سے جوڑ دیں تو اس بات سے اقوام عالم کو یہ پیغام گیا کہ یہ ہے اسلام ۔ آج اقوام عالم میں اسلام کے خلاف نفرت کی جو لہر دوڑ رہی ہے اُس کے ذمہ دار یہ نہیں ہیں بلکہ اس کے ذمہ دار یہ لعل مسجد کے مولوی عبدالعزیز ہیں ،مولانا فضل الرحمان ، مولانا سمیع الحق جیسے مولوی اور جماعت اسلام کے سراج الحق جیسے مولوی ہیں جنھوں نے شریعت کا جنازہ نکال دیا ہے اور ان دہشت گردوں کے ظلم و ابداد کو شریعت کا لباس دے دیا ۔ انہوں نے پانچ پانچ سال کی بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور اس کو شریعت سے جوڑ دیا کہ یہ لونڈی تھی ہم وہاں سے اُٹھا کر لائے تھے ۔سریا میں ایسے ایسے ہولناک واقعات ہوئے ہیں کہ جہاں یہ مسلمانوں کے گھر میں داخل ہوئے جو ان کے عقیدے کے نہیں تھے وہاں باپ کے سامنے ان کی بیٹیوں سے زنا کیا جس کی وجہ سے تیس ہزار سے زائد بچیوں نے خود کشی کر لی جو کہ میڈیا پر مشتہر نہیں ہوا ہے ۔ان کی ماؤوں کے سامنے اسلام کے ان درندوں نے جو شریعت کی دھجیاں بکھیری ہیں اور حرمت مصطفی پر جو داغ لگایا ہے وہ کسی قدر یزیدیت سے کم نہیں ہے ، اور پھر حوالے بھی دئیے کہ بی بی عائشہ کی عمر بھی تو سات سال تھی۔

حضوؐرپر حضرت عائشہ کے حوالے سے بہتان کی وضاحت:

اعلان نبوت سے پہلےکے ابو بکر صدیق نبی کریم کے پرانے دوست تھے اور جتنا وقت آپؐ کے ساتھ انہوں نے گزارا ہے جب اُن کو پتہ بھی نہیں تھا کہ چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمائیں گے ، جتنا بھی وقت گزارہ وہ حضوؐر کی شخصیت اور کردار سے گرویدہ ہو گئے ، ابو بکر صدیق بہت وفادار دوست تھے ۔ نبی کریمؐ نے جو پہلی شادی کی وہ 25 سال کی عمر میں کی۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدیجتہ الکبری ایک امیر عورت تھیں تو معاذ اللہ حضوؐرنے پیسے کے لئے شادی کی ، آپ کو کیا معلوم کہ وہ شادی حضوؐرنے اپنی مرضی سے کی یا پھر اللہ نے کروائی۔جبرائیل امین کے زریعے پیغام بھیجا کہ خدیجتہ الکبری سے شادی کر لو تاکہ مالی طور پر مضبوط ہو جائیں ۔ خدیجتہ الکبری کی عمر آپؐ سے پندرہ سال زیادہ تھی یعنی چالیس سال، جس کی وجہ سے شہوت کا عنصر شامل نہیں ہو سکتا تھا اور پھر اس شادی میں پہل آپ نے نہیں کی تھی ۔ آپؐ اُن کے پاس کام کرتے تھے اُن کے جو تجارتی قافلے ہوتے تھے وہ مکہ سے شام لے کر جایا کرتے تھے ، اس سے پہلے خدیجتہ الکبری کا اتنا منافع بخش کام نہیں تھا لیکن جب سے اُس کی باگ ڈور حضوؐرنے سنبھالی تو بڑا منافع ہوا اور پھر جو دیگر تاجر تھے انہوں نے تعریف بھی کی اور آپ کی شان میں کہا کہ آپ ؐ کا کردار لا مثل ہےاور تجارت کا جو طریقہ ہے وہ بہت اعلی ، ایمان و سچائی پر مبنی ہے ۔ جب خدیجتہ الکبری کو یہ ساری چیزیں معلوم ہوئیں تو وہ بہت متاثر ہوئیں اور اپنے کاروبار کی بقا کے لئے نبی کریم کو رشتہ بھیج دیا تاکہ اُن کا کاروبار مزید ترقی کرے ۔خدیجتہ الکبری نے اپنی سہیلی کے زریعے رشتہ بھیجا کہ جاؤ اور یہ کہو کہ میں ان سے نکاح کرنا چاہتی ہوں، یہ پہل خدیجتہ الکبر ی کی طرف سے ہوئی ہے نبی کریمؐ نے نہیں کہا کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔اس بات سے پتہ چلتا کہ اس شادی میں نبی کریمؐ کا کوئی مقصد نہیں تھا بلکہ اللہ کے حکم پر شادی کی تھی ۔بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ اس شادی پر خدیجتہ الکبری کے والد خوش نہیں تھے اور اُنکی ثقافت کے مطابق رضا مندی بھی ضروری تھی۔ لہذا یہ ہوا کہ شادی کی ساری تیاریاں ہو گئیں اور جب رضا مندی کی بات آنے لگی تو انہوں نے پہلے سے ہی اپنی سہیلی کو کہہ دیا کہ والد کو شراب کے دو چار کپ پلا دینا تاکہ ہوش میں نہ ہوں ۔ تواُن کے سہیلی نے خدیجتہ الکبری کے والد کو دو چار کپ شراب پلا دی جس کے بعد جب اُن سے رضا لی گئی تو انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور شادی ہو گئی ۔ حضوؐرنے خدیجتہ الکبری سے بڑی محبت کی اور جب اُن کا انتقال ہوا تو آپؐ بہت مغموم تھےاور اسے عام الحضن کا سال قرار دے دیا ۔۔ و وہ واحد خاتون ہیں جن سے آپؐ کی اولاد ہوئی ، بی بی فاطمہ خدیجتہ الکبری کی ہی اولاد ہیں ۔ماریہ قبطیہ سے بھی ابراہیم پیدا ہوئے لیکن ان کا انتقال ہو گیا ۔خدیجتہ الکبری کے بعد جتنی بھی شادیاں آپؐ نے کی ہیں وہ اُمت کو متحد رکھنے کے لئے کی ہیں جن میں بیوہ عورتیں بھی شامل ہیں ۔امہ سلمہ بھی امہات میں شامل تھیں اوراُن کی عمر بھی زیادہ تھی۔ ایک اور بات کی طرف میں یہاں توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ خدیجتہ الکبری کا ایک غلام زید بن حارث بھی تھا جس کو حضوؐرنے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھااور پھر اپنی کزن حفصہ کی شادی اس سے کر دی لیکن آپؐ کی کزن حفصہ آپؐ سے پیار کرتی تھیں لہذا شادی کے بعد زید بن حارث سے بنی نہیں اور جھگڑے ہوتے رہتے۔ جب بھی بات زیادہ بڑھتی تو حضوؐردونوں کو بیٹھا کر سمجھاتے لیکن ایک دفعہ بات اتنی بڑھی کے وہ چھوڑ کر آ گئیں اور زید بن حار ث سے طلاق لے لی اور حضوؐرکے پاس آ کر بیٹھ گئیں کہ مجھے آپ سے شادی کرنی ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ تم تو منہ بولے بیٹے کی منکوحہ تھی اس لئے تم سے شادی نہیں ہو سکتی ہے ۔ جب یہ بات حضوؐرنے کہی تو جبرائیل امین وحی لے کر آ گئے کہ منہ بولے رشتوں کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے بیٹا وہی ہوتا ہے جو خون سے ہولہذا آپ نے شادی کرنی ہے تو کر لیں، اس وحی کے بعدپھر حفصہ سے شادی ہوئی۔تو اس طرح گیارہ میں سے نو شادیاں مصلحت کے تحت ہوئی ہیں جن میں حضوؐرکی اپنی خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔جب ابوبکر صدیق ؓ یہ دیکھتے کہ جو امہات المومنین ہیں ان میں کوئی بھی ایسی نہیں ہے جو آپؐ کی دلجوئی کرنے والی ہو لہذا ان کو یہ خیال آیا کہ اُن کی بھی ایک بیٹی ہے لہذا اس کو لائیں اور آپؐ کی بارگاہ میں پیش کردیں کہ اس سے شادی کرلیں۔اس وقت عائشہ کی عمر سات سال تھی تو آپؐ نے انکار کر دیا لیکن ابو بکر صدیق نے اتنا اسرار کیا کہ پھر آپؐ سے منع نہیں ہوا اور فرمایا کہ یہاں چھوڑ دو اور وہ وہاں کھیلتی رہتی تھیں۔ جب عائشہ کی عمر گیارہ سال ہوئی تو پھر آپؐ نے حق زوجیت ادا فرمایا۔ اب یہاں ایک نکتہ اور بھی غور طلب ہے کہ اُس وقت عرب کی عورتوں کے گیارہ سال اور یہاں کی عورتوں کے گیارہ سال میں بہت فرق ہے ، اس میں غذاؤں اور آب و ہوا کا بھی عنصر شامل ہے۔آپ نے ایسی بھی بچیاں دیکھی ہوں گی کہ جن کی عمر اٹھارہ سال ہے لیکن دیکھنے میں نو سال کی لگتی ہیں اور ایسی بھی لڑکیاں دیکھی ہوں گی جن کی عمر گیارہ بارہ سال کی ہے لیکن اگر جسامت دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہےجیسے اکیس یا بائیس سال ہو۔ عرب میں لوگ گرم گرم غذائیں کھاتے ہیں اور ہر کھانے میں ڈرائی فروٹ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے خون میں حدت ہو جاتی ہے اور جسم جلدی پھلنے پھولن لگتا ہے کیونکہ روح نباتی کی نشوونما بڑھ جاتی ہے ۔ لہذا اس دور میں دس ، گیارہ سال کی جو لڑکی ہوتی تھی وہ ایسے ہی ہوتی تھی جیسے اس دور میں بیس بائیس سال کی لڑکی ہو۔ جس دور میں نبی کریم ؐ نے حقِ زوجیت ادا فرمایا اس وقت اُن کی عمر گیارہ سال تھی اور وہ بالغ تھیں۔قدرت کے قانون کے مطابق جب بچی کو ماہواری آنے لگ جائے تو وہ بالغ ہو جاتی ہےاور میڈیکل کی رو سے بھی اگر ماہواری آنی شروع ہو جائے تو پھر وہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ماہواری آنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ سنِ بلوغت کو پہنچ گئی ہے۔

حضوؐر کی ولادت با سعادت اور لڑکپن کے حالات :

لوگ یہ کہتے ہیں کہ نورِ نبوت بذریعہ خون مختلف نسلوں میں چلتا ہوا آیا ہے لیکن نور نبوت نسلوں میں بذریعہ خون کیسے چل سکتا ہے !! اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ نورِ نبوت خون میں تھا تو پھر ابو طالب کے بارے میں کیوں کہا جاتا ہے کہ مسلمان نہیں تھے، اگر نور نبوت خون میں چل رہا تھا تو پھر ابو جہل کو کافر کیوں کہتے ہو ، اگر نورِ نبوت خون میں چلتا ہوا آرہا تھا تواہلِ قریش کافر کیوں تھے؟ نورنبوت خون میں نہیں چلتا ہے بلکہ اللہ تعالی روحانی طور پرعطا کرتا ہے ۔ حضوؐر کی جو ذات والا ہے وہ عالم اسلام میں گزشتہ کئی صدیوں سے مختلف فرقوں کے درمیان متنازعہ بنائی گئی ہے ۔ایک فرقہ کہتا ہے کہ آپؐ جب چلتے تھے تو آپ کا سایہ نہیں تھا دوسرا فرقہ یہ کہتا ہے کہ آپ کا سایہ تھا۔ایک فرقہ کہتا ہے کہ حضوؐربشر تھے اور امعاذ اللہ ُن کی صرف اتنی عزت کرو جتنی بڑے بھائی کی کرتے ہو جبکہ دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ آپؐ بشر نہیں بلکہ نور تھے ۔ایک فرقہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم میں اور نبی کریم میں صرف فرق اتنا ہے کہ اُن پر وحی آتی تھی اور ہم پر وحی نہیں آتی ہےدوسرا فرقہ کہتا ہے کہ جو کچھ اللہ سے مانگنا ہے وہ اللہ کے رسول سے مانگ لو ۔ اب یہ نور اور بشر کا ، حاضرو موجود کا فلسفہ جو اس اُمت کا شیرازہ بکھیرتا رہا ہے ، اس جہالت کا سدباب کب ہو گا ۔مسلمانوں میں نظریاتی یکجہتی پہلے آنی چاہیئے۔ اگر تمھیں اسلام کا نظریہ پڑھایا جاتا تو تمھارے سینوں میں سب سے پہلے اللہ کا اسم اُتارا جاتا ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کا مسلمان وہابی ، بریلوی ، دیوبندی ، سنی اور شیعہ نہ بنے بلکہ نظریاتی مسلمان بنے۔نظریہ اسلام کیا ہے یہ ڈھونڈنا ہو گا۔نظریہ اسلام اللہ کا نور ہے

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ
سورة الزمر آیت نمبر 22
ترجمہ: وہ شخص جس کا سینہ اسم ذات اللہ سے کھل گیا تو اللہ کا نور اس کو میسر آئے گا۔

نبی کریمؐ نے خود بھی کہا کہ انا من نوراللہ والمومنین من نوری۔۔ کہ میں اللہ کا نور ہوں اور مومنین میرے نور سے بنے ہیں ۔ جب اللہ نے حضوؐرکے لئے فرما دیا ہے کہ وہ اللہ کے نور ہیں تو پھر آپ کی کیا مجال کہ آپ کہیں کے وہ نور نہیں ہیں ، یا پھر اپنا گمان حضوؐرکے فرمان کے مدمقابل لے کر آئیں ۔ جو الفاظ لب ہائے مصطفے سے ادا ہو گئے وہ قرآن کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ہے کہ

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ
سورة النجم آیت نمبر 3

کہ آپ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے ہیں ۔ آپ صرف وحی ارشاد فرماتے ہیں جو اللہ کا ارشاد ہوتا ہے ۔ایک اور جگہ قرآن میں ارشاد ہوا کہ

قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
سورة المائدة آیت نمبر 15
ترجمہ : ہم نے تمھاری طرف اللہ کا نور بھیجا ہے اور کتاب مبین بھی ساتھ آئی ہے۔

عربی میں قد کسی چیز پر زوریا تاکید کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہاں جو “و” استعمال ہوا ہے وہ دو چیزوں کو الگ کرتا ہے ۔یہاں لوگوں نے یہ بھی اشکال پیدا کیاہے کہ اس آیت میں نور سے مراد قرآن ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ اسی آیت کے دوسرے حصے میں قرآن کا ذکر کر دیا ہے۔ یہاں ا س آیت میں نور حضورنبی کریم ص کی ذات کی طرف اشارہ ہے ۔ لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حضوؐراللہ کے نور ہیں لیکن وہ آمنہ اور عبداللہ کے بیٹے ہیں تو تم اللہ کا نور کیوں کہہ رہے ہو ۔اس بات سے پردہ سیدنا گوھر شاہی نے اُٹھایا ہے ۔ عیسیٰ مرتبے میں نبی کریمؐ سے کم ہیں لیکن اُن کی پیدائش جو ہوئی ہے وہ کتنی معجزاتی ہے کہ کسی مرد نے بی بی مریم کو ہاتھ نہیں لگایا ۔پھر لوگوں نے بھی پوچھا کہ تمھیں تو کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا پھر یہ بچہ کہا ں سے آیا ؟ بی بی مریم نے جواب دیا اسی بچے سے پوچھ لو ۔لوگوں نے جب بچے سے پوچھا تو وہ بول اُٹھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں ۔ اب دوسرے طرف نبی کریمؐ کی ذات والا ہے اور ہم سب مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ آپؐ افضل ترین پیغمبر ہیں ، امام الانبیا ہیں ، آپ سے بڑا نہ کوئی پیغمبر آیا ہے اور نہ آئے گا اور آپ پر نبوت ختم ہو گئی ہے۔

حضوؐرکی پیدائش معجزاتی تھی اور آپ سراپا نور ہیں:

آپ کی پیدائش سے دو سال پہلے والد عبداللہ کا انتقال ہو گیا ، کچھ عرصہ والدہ کے ساتھ گزارنے کو جو ملنا تھا وہ اس لئے نہیں ملا کہ اُس وقت ثقافت کا حصہ یہ تھا کہ دائی کے پاس بھیج دیتے تھے کہ وہ اس کو دودھ پلائے گی اور اس کی تربیت کرے گی اور عربوں میں آج تک یہ رواج عام ہے ۔آپؐ کو دائی حلیمہ کے پاس بھیج دیا گیا، دائی حلیمہ کے بعدپھر واپس بی بی آمنہ کی کفالت میں آ گئے۔ جب بی بی آمنہ کا انتقال ہو گیا تو آپ دادا عبدالمطلب کی کفالت میں چلے گئے اور کچھ عرصے بعد اُن کا بھی انتقال ہو گیا۔اب حضوؐرکا جو دور گزرا ہے جس میں بچپن اور لڑکپن کا زمانہ ہے اس میں آپ کے ساتھ ماں باپ کی سرپرستی نہیں رہی، تو ظاہری طور پر اگر دیکھیں تو آپ کے اس دور میں کوئی کرامت نظر نہیں آرہی ہےبلکہ کفالت میں بھی مسائل ہی مسائل ہیں اور جب آپؐ نے نبوت کا اعلان کر دیا تو پھر لوگوں نے عظمت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ظاہری طور پر اگر دیکھیں تو جو شان و شوکت امام الانبیا کی ہونی چاہیےوہ مسلمانوں نے کہاں دیا ہے ۔ایک عام مسلمان آپ کو آ کر تنگ کر دیتا ہے ،نہ رات کا وقت دیکھتے ہیں اورنہ دن کا آپ کے حجرے کے باہر چیخ چیخ کر پکارتے ہیں “یا محمدا، یا محمدا” ۔اللہ بار بار جبرائیل امین کو بھیجتا ہے اور کہتا ہے کہ جاؤ اور لوگوں کو آداب مصطفی سکھاؤ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
سورة الحجرات آیت نمبر 2
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال ہی غارت ہو جائیں اور تمہیں شعور تک بھی نہ ہو۔

اور کہیں اللہ یہ کہتا ہے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
سورة البقرة آیت نمبر 104

اے مومنو جب تو حضور کی بارگاہ میں بیٹھے ہو تو یہ لفظ “راعنا” نہ استعمال کیا کرو۔یہاں اللہ آداب مصطفی بھی سکھا رہا ہے کہ یہ لفظ استعمال کرو اور یہ نہ کیا کرو۔ تو ایسا دور نبی کریمؐ کا گزرا ہے اور پھر آپؐ کی بیٹی گھر میں داخل ہونے سے منع کرتی ہے کہ بابا جان میر ے تن پر مناسب کپڑے نہیں ہیں غربت کی وجہ سے کہ میں آپ کو اندر مدعو کروں ، پھر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں پھر آپؐ اپنی کالی کملی پھینکتے ہیں جس سے وہ جسم کو ڈھانپتی ہیں اور پھر دروازہ کھولتی ہیں ۔یہ تو بیٹی کا حال ہے آپ کا حال یہ ہے کہ خود پیٹ پر تین تین پتھر باندھے ہوئے ہیں ۔ حضوؐرتسلسل اور تواتر کے ساتھ روزہ رکھتے تھے چار دن روزے میں گزر گئے اور تین دن فاقوں میں تو پھر ہفتہ میں کھایا کیا آپ نے !! آپ کو کلمہ بکروں اور مرغوں پر پڑھ کر خوب کھا رہے ہیں اور جب نبی کریم کا عید میلاالنبی آتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو شرک اور بدعت ہے، وہ فاقے کرنا بھی تو سنت تھی اس پر عمل کیوں نہیں کررہے ہیں ۔ آپؐ تو امام الانبیا ہیں لیکن عظمت کہاں نظر آ رہی ہے، عظمت یہاں ہے کہ ایک دن جبرائیل بی بی آمنہ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کے یہاں اللہ کے محبوب کی ولادت ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے ، جبرائیل نے کہا کہ اللہ کرتا ہے جو کچھ بھی وہ چاہتا ہے ۔جبرائیل امین سفید رنگ کا مشروب اپنے ساتھ لائے اور اُس میں شجرة النور کا ایک بیج ڈلا ہو ا تھا۔

“قرآن مجید میں آپ نے سدرة المنتہی کا نام سنا ہو گا ، یہ ایک درخت کا نام ہے جو بارڈر پر ہے اس درخت کی جامنی رنگ کی پتیاں ہیں ، ہر پتی پر محمد ،حامد، احمد اور محمود لکھا ہوا ہے ۔یہی وہ نور تھا جو آدم صفی اللہ کو عرش پر نظر آیا تھا۔ اُس درخت سے ایک نوری بیج توڑا اور اس سفید مشروب میں ملا کر جبرائیل امین نے بی بی آمنہ کو پلا دیا جس کی وجہ سے آپ حاملہ ہوئیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مسعود میں عبداللہ کا نطفہ نہیں تھا ۔ حضوؐرکی فطرت نور پر مبنی ہےلیکن جو مشروب پلایا اس میں شجرة النور کا بیج تو تھا لیکن پھر بھی بی بی آمنہ کا خون تو اس میں شامل ہوا ، اُس خون کی وجہ سے جب حضوؐرچلتے تھے تو سایہ بنتا تھاکیونکہ نور تو تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بی بی آمنہ کا خون بھی شامل ہوا تھاجس کی وجہ سے سایہ پڑتا تھالیکن معراج سے آنے کے بعد نور قدیم کی وجہ سے وہ سایہ بھی ختم ہو گیا”

اللہ کے نور کے لئے دو لفظ استعمال کئے جاتے ہیں ایک نورِ قدیم ہے اور ایک نورِ حادث ہے ۔ جب اللہ نے ذات سے صفات میں اظہار کیا تو اس اظہار کو حادث کہتے ہیں ، اور جو اظہار سے پہلے ہے وہ قدیم ہے ۔جس کی بھی رسائی اللہ کی صفات تک ہوئی ہے وہ نورِ حادث تک پہنچا ہے ، نورِ قدیم تک پہنچنے کے لئے اُس کو ذات تک جانا پڑے گا۔ جتنے بھی انبیا آئے اُن کو صفاتی اسم عطا ہوا جس کی وجہ سے وہ انبیااور اُن کی امتیں نورِ حادث تک پہنچ پائیں اللہ کی ذات تک کوئی نہیں پہنچا۔ حضوؐرکو اللہ نے اسم ذات “اللہ” عطا کیا جس کے طفیل آپ کی رسائی ذات تک ہو گئی اور نورِ قدیم حاصل ہوا ۔ جب آپؐ معراج پر تشریف لے گئے عالم احدیت کے سامنے ، اور جسم پر نورِ قدیم کی شعاعیں پڑیں تو وہ جو بی بی آمنہ کے حصے کا خون تھا وہ بھی جل گیا ۔ پھر ظاہراً باطناً، قلباً قالباًحضوؐرسراپا نور ہو گئے ۔ معراج شریف سے تشریف لانے کے بعد سایہ نہیں تھاکیونکہ اللہ کے نورِ قدیم کا آمنا سامنا ہو گیا اور اس کی شعاعیں نبی کریم کے وجود مبارک کے آرپار ہو گئیں اور اللہ ہی رہ گیا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 24 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس