کیٹیگری: مضامین

محمؐد کا عمل بہترین تفسیر قرآن ہے:

قرآن مجید کو اگر اس کےسیاق و سباق کے ساتھ نہ پڑھا جائے تو گمراہی ہی گمراہی ہے ۔پاکستان میں تین طرح کا طبقہ ہے ایک تو ٹھیلے لگانے والے، دھابے پر کام کرنے والے،محنت مزدوری کرنے والےیعنی معاشی طور پر زیادہ خوشحال طبقہ نہ ہو اُن میں یہ رجحان دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ عورت کی پٹائی کرتے ہیں ۔اس سے جو تھوڑا بہتر طبقہ ہے جس کو متوسط طبقہ کہتے ہیں اُن میں سفید پوشی ہے اس لئے اُن میں بیوی کو مارنے کا رجحان نسبتاً کم ہے ۔ ایک اور پڑھا لکھا طبقہ ہے اُس پڑھے لکھے طبقے میں بھی دو گروپ ہیں ایک وہ جو پڑھا لکھا طبقہ ،مذہبی ہے اور ایک وہ طبقہ ہے جو مذہبی نہیں ہے۔جو مذہبی ہیں اگر انہوں نے PHD بھی کی ہو پھر بھی وہ بیوی کو مارتے ہیں اور جو مذہبی نہیں ہیں اُن لوگوں کے یہاں یہ تصور ہے کہ عورت پر ہاتھ اُٹھانا مردانہ شان نہیں ہے ۔
جو مذہبی طبقہ ہے انہوں نے جو قرآن مجید کو پڑھا ہے تو انہوں نے قرآن مجید کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے کیونکہ کسی بھی چیز کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ نہ پڑھا جائے ، نہ سمجھا جائے کہ پیچھے کونسا مضمون چل رہا ہے اور کہاں پر آ کر بات جڑی ہے تو پھر بڑی زیادتی کی بات ہو گی ۔بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن کی سب سے بہترین جو تفسیر ہے وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے ۔تفسیر جلالین ، تفسیر ابن کسیر ، تفسیر ابن تیمیہ یہ سب اپنی جگہ لیکن جو عملی طور پر محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ہر نبی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ آسمانی کتاب کو ماڈل کر کے دکھاتا ہے تاکہ امت اس کی پیروی کر سکے۔ یہی وجہ تھی حضور نبی کریم نے بہت سے کام ایسے کیے جو نہ بھی کرتے تو کیا فرق پڑتا ۔جب آپؐ نے یہ فرما دیا کہ میں اس دنیا میں آنے سےپہلے بھی نبی تھا ، اگر آپؐ ذکر نہ بھی کرتے ، روزے نہ بھی رکھتے ، نماز نہ بھی پڑھتے تو کوئی فرق نہیں پڑھتا کیونکہ یہ تمام چیزیں اُمتوں کے لئے ہیں انبیا کے لئے نہیں ہیں لیکن اگر حضوؐروہ عمل نہ کرتے قرآن ماڈل کیسے ہوتا!! محمد الرسول اللہ نے قرآن مجید کو اپنے عمل سے مفسر کیا لہذا سب سے بہترین جو تفسیر قرآن ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے ۔
بہت سے چیزیں ایسی ہیں جو بعد میں آنے والے علما گزرے ہیں انہوں نے قرآن کی تفسیر میں لکھی ہے لیکن حضوؐرکے عمل سے وہ بلکل ثابت نہیں ہوتی ۔ جیسے سورة النسا کی آیت نمبر 34 میں بیوی کو مارنے والی بات ہے لیکن حضوؐرنے اپنی کسی بیوی کو نہیں مارا ۔حالانکہ ایسے ایسے واقعات ہوئے کہ اگر حضوؐرکی جگہ کوئی اور ہوتا تو کھال اُتار دیتا ۔ایک بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ قرآن میں تو بیوی کو مارنے کا حکم ہے لیکن حضوؐرکو اللہ نے اعلیٰ کرادر پر فائز کیا ہے لہذا اس لئے بیوی کو نہیں مارا لیکن عام آدمی تو مار سکتا ہے کیونکہ اس کا اخلاق تو ایسا نہیں ہوتا ۔پھر دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ اس آیت پر تو حضوؐرنے عمل کر کے نہیں دکھایا تھا۔اگر اللہ کی طرف سے حکم ہے تو کوئی خفیف سا تھپڑ ہی لگا دیتے لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو مارنا اللہ کی طرف سے حکم نہیں ہے ۔

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
سورة النساءآیت نمبر 34
محمدجونا گڑھی کاترجمہ : مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں، پس نیک فرمانبردار عورتین خاوند کی عدم موجودگی میں با حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وه تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والاہے

کیابیوی کو مارنا غیر اسلامی ہے؟ :

یہ مولوی بہت جاہل ہوتے ہیں کیونکہ ان کا دماغ اُلٹی سمت میں چلتا ہے ، ان کو کچھ علم تو ہے نہیں پھر یہ کیا اسلام کی ہدایت دیں گے ۔اگر آپ قرآن مجید کی اس آیت کو دیکھیں تو اس آیت میں جس طریقے سے اللہ تعالی نے کہا ہے وہ توجہ طلب بات ہے ۔ اس آیت میں حکم نہیں ہے بلکہ نصیحت ہے کہ جن عورتوں کی نافرمانی کا تمھیں خدشہ ہو یعنی آپ کی چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اس کے کرتوت صحیح نہیں ہیں اس میں بڑی اکڑ ہے تو انہیں سمجھاؤ۔لہذا اس آیت کی روشنی میں پہلا اقدام سمجھانا ہو گیا ۔اور اگر باتوں سے سمجھ نہ آئے تو بستر الگ کر دو یعنی اس کے ساتھ عمل مباشرت روک دیا جائےاور یہ کام کرنے کے باوجود بھی اگر اُن میں اکڑ رہے اور اُس غلط کام میں لگی رہیں تو آخری کام نصیحت کے طور پر بتا یا ہے کہ اُن کو ضرب لگاؤ۔ تشدد کا نہیں فرمایا ہے اللہ نے ، ضرب کا مطلب ہلکا پھلکا تھپڑ مار دیں ۔ اب یہ قرآن مجید کی آیت ہے لیکن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ، اعمال و افعال اور سنت سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ آپؐ نے کبھی عورت کو مارا ہو ۔لیکن مولوی اس بات کو اسطرح پیش کرتے ہیں کہ اگر عورت بات نہ مانے تو اُسے مارو یہ اللہ کا حکم ہے اور اکثر لوگ تو عورتوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہیں ۔یہ بات قرآن مجید میں اس طرح سے بیان نہیں ہوئی ہےدرجہ بہ درجہ اقدام بتائے ہیں اور نصیحت کی ہے حکم نہیں دیا ہے کہ مارو۔جب حکم دیا جائےگا تو وہ ہر حال میں کرنا ہے اور اگر نصیحت کی جائے گی تو آپ کی مرضی پر منحصر ہے لیکن نہ کرنے پر گناہ کا احتمال نہیں ہے ۔

“میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن مجید کی سب سے بہترین تفسیر حضوؐرکا عمل ہے اگر بیوی کو مارنا اللہ کا حکم ہوتا تو محمد الرسول اللہ ، اللہ کی حکم عدولی نہ کرتے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ آپ بیوی کو ماریں ۔ اب چونکہ حضوؐرکے عمل سے ثابت نہیں ہے لہذا میں اسی کو تفسیر قرآن سمجھتا ہوں اور بیوی کو مارنا غیر اسلامی ہے “

قرآن کے مطابق بیوی سے بستر الگ کرنے کی باطنی وجوہات:

اگر صورت حال یہ ہو کہ شادی شدہ لڑکیاں اور عورتیں شوہر کے ساتھ خوش ہونے کے باوجود اگر کسی اور کے ساتھ تعلقات بنائیں اور جسمانی تعلق رکھیں اور شوہر کو یہ بات پتہ چل جائے اور وہ غصے میں آ کر تھپڑ مار دے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔آپ اس بات کو اسلام کی رو سے دیکھنے کے بجائے انسان کی اُس وقت کی جذباتی کیفیت کی روشنی میں دیکھیں کہ کسی کی بیوی ہونے کے باوجود کسی دوسرے کے پاس چلی گئی اور اس سے جسمانی تعلق بنا لیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کے رد عمل میں اگر شوہر نے جذباتی کیفیت میں تھپڑ مار دیا تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے ۔لیکن جو لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بیوی کو مارنا شروع کر دیں یہ غلط ہے ۔ قرآن میں پہلے سمجھانے کا آیا ہے پھر بستر الگ کرنے کا کہا گیا ہے اور بستر الگ کرنے کا حکم اس لئے آیا ہے کہ آپ اور آپکی بیوی مومن ہے اگر بیوی کسی اور کے ساتھ جا کر سو جاتی ہے تو وہ دوسرا شخص پتہ نہیں کون ہے ، حرام ہو گیا اورعورت کے جسم میں نار داخل ہو گئی ۔ اگر مومن مرد ایسی عورت کے ساتھ سوئے گا تو اُس کے جسم میں بھی نار چلی جائے گی اور اسکے ایمان پر بھی اثرات رونما ہوں گے اسی لئے قرآن میں آیا کہ بستر الگ کر دو۔جب تک وہ توبہ تائب نہ ہو جائے بستر الگ رکھو اور اگر توبہ تائب ہو جائے تو کچھ نہ کہو، بھول جاؤ۔پہلے مرحلے میں قرآن میں اللہ نے کہا کہ سمجھاؤ، پھر بستر الگ کرو اور پھر بھی باز نہ آئے تو نصیحت کے طور پر ضرب بھی لگا سکتے ہیں ۔
اگر ہم انصاف کی عینک لگا کر اپنے معاشرے کو دیکھیں تو تقریباً ہر مرد غیر اعلانیہ طور پر خود دوسری عورتوں سے تعلقات بنا رہا ہے اور بیوی سے وفاداری کی توقع ہے ۔جس سے مردوں نے تعلق رکھا ہوا ہے اُن کو الگ گھر بھی لے کر دیا ہوا ہے اور ماہانہ خرچہ بھی دیتے تھے ۔ داڑھی بھی رکھی ہوئی ہے ، مسجد کی کمیٹی کے ممبر بھی ہیں ، حاجی بھی ہیں اور پھر رکھیل بھی رکھتے ہیں ۔کیا غیر اعلانیہ طور پر پاکستانی مرد ایسا نہیں کر رہا ہے ؟ اگر روحانیت کی بات اس کے سمجھ میں نہ آئے تو فتوی فوراً دے دیتا ہے ، روزہ کھولتا ہے رکھیل کی ٹانگوں میں ، نماز بھی پڑھتا ہے، رکھیل بھی رکھتا ہے ، قرآن کا چلیپا بھی کرتا ہے ، اسلام کا تمسخر بھی اُڑاتا ہے اور اگر قرآن کا مغز بتایا جائے تو اُس پر کفر اور واجب القتل کے فتوے بھی صادر کرتا ہے ۔اگر کوئی مسلمان مرد اپنی بیوی کی بدچلنی پر اسے تھپڑ مارنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنی پارسائی کا ثبوت دینا ہو گا۔

بیوی کو مارنا حکم الہی ہےتو حضوؐرنے ایسا کیوں نہیں کیا؟

اگر کوئی بیوی کو مارنے کے حوالے سے نصیحت چاہتا ہے تو وہ پہلے حضوؐرکی حیات طیبہ پر نظر دوڑائے کہ کیا نبی کریم نے ایسا کیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اپنی بیویوں کو نہیں مارا۔آپؐ کی گیارہ بیویاں تھیں اور تھوڑا تھوڑا وقت سب کو دیتے تھے ایک بیوی ایسی تھی کہ جب انہوں نے یہ جانا حضوؐرکو شہدبہت پسند ہے تو انہوں نے دوردراز سے شہدمنگوا لیا اور جب حضوؐرد ن میں اس کے پاس آئیں تو جانے کے وقت شہد دے دے جس کی وجہ سے حضوؐردوبارہ بیٹھ جائیں اور زیادہ وقت گزاریں ۔ جب اسی طرح تین چار روز گزر گئے باقی بیویوں کو بڑی تشویش ہوئی کہ حضوؐروہاں پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں ، ایسا کیوں ہو رہا ہے تو بی بی عائشہ نے بتایا کہ شہد کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے کہ نبی کریم وہاں زیادہ وقت بیٹھ جاتے ہیں ۔پھر بی بی عائشہ نے اسکا حل یہ نکالا کہ سب کو کہہ دیا کہ جب کل حضوؐرتمھارے پاس آئیں تو کہنا( معاذاللہ )آپ کے منہ سے بدبو آ رہی ہے ۔اب ساری بیویوں نے ایکا کر لیا اور جب حضوؐراُن کے پاس آئے تو سب نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ نے کیا کھایا ہے آپ کے منہ سے تو بدبو آ رہی ہے تو آپ نے اُن کی دل جوئی کے لئے کہہ دیا کہ آج سے میں اپنے اوپر شہدحرام کرتا ہوں ۔ فوراً ہی آیت نازل ہوگئی اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ یا رسول اللہ تم اپنی بیویوں کی وجہ سے وہ چیز جو ہم نے تم پر حلال کی ہے کیوں اپنے اوپر حرام کر رہے ہو۔حضوؐرکو علم تھا یہ کس کی شرارت ہے ۔ ایک حضوؐرکی بیوی کا نام صفیہ تھا ساری ازواج مطہرات میں سب سے بہتر کھانا وہی بنانا جانتی تھیں ۔ وہ جب کھانا بناتی تھیں تو حضوؐراُن کے پاس بڑے شوق سے کھانا کھانے جاتے تھے ۔ ایک دن آپؐ اُن کے پاس تشریف فرماہیں اور کھانا تناول فرما رہے ہیں ، ام سلمہ اور دیگر قریبی اصحاب بھی بیٹھے ہیں تو بی بی عائشہ آ گئیں اور اُن کے ہاتھ میں لکڑی کی بیٹھنے والی کوئی چیز تھی وہ انہوں نے ڈش کے اوپر دے مارا جس کے وجہ سے ڈش کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔ آپؐ نے انہی ٹوٹے ہوئے برتن میں کھایا ہے اور اسی ٹوٹے ہوئے برتن میں صحابہ کو بھی دیا اور کہا کہ یہ تمھاری ماں حسد میں مبتلا ہے اور کو ئی ایسی بات نہیں ہے تم کھانا کھاؤ۔اگر حضرت عائشہ کے صرف اس عمل کو دیکھیں تو وہاں وہ صحابہ بیٹھے تھے جو حضوؐرکے قدموں میں اپنا سر رکھتے تھے ، کتنی عزت و تعظیم کرتے تھے ۔ حضوؐرکی بارگاہ کے ادب کے حوالے سے قرآن میں آیا ہے کہ ؛

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
سورة الحجرات آیت نمبر 2
ترجمہ : اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال غارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو

لیکن حضرت عائشہ کا یہ عمل کہ لکڑی کا وہ ٹکڑا اُٹھا کر کھانے کے اوپر پھینک دیا۔حضوؐرکو غصہ تو آنا چاہیے تھا لیکن آپؐ نے بڑی خندہ پیشانی سے اسے نظر انداز کر دیا ۔ایسے ایسے واقعات گزرے ہیں کہ اگر حضوؐرکی جگہ کوئی عام انسان ہوتا تو تھپڑ مار دیتالیکن حضوؐرنے ایسا نہیں کیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضوؐرنے اس لئے نہیں کیا کہ آپ عظیم کردار کے مالک تھے؟ ہاں عظیم کردار کے مالک تو ہیں لیکن اگر قرآن میں بیوی کو مارنے کا حکم ہوتا تو پھر کرنا پڑتا، اس نقطے کو آپ سمجھیں کہ قرآن میں یہ نصیحت ہے حکم نہیں ہے اگر حکم ہوتا تو ممکن نہیں ہے کہ حضوؐرنہ مارتے۔لہذا بیوی کو مارنا غیر اسلامی ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 17 نومبر 2017 کو ایک مصنف کےبذریعہ ای میل کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس