- 1,405وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
اولیاء خیر اور اولیاء شر کون ہوتے ہیں ؟
اللہ نے انسانوں اور جنات کی اکثریت کو جہنم کے لیے بنایا ہے۔اب اگر ایسے لوگ نیچے زمین پر آ جائیں اور کسی نبی یا ولی کی تبلیغ سے اچھے کاموں میں لگ جائیں تو پھر ایک نیا مسئلہ اللہ کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے کہ اللہ نے بنایا انہیں جہنم کے لیے ہے اور کام وہ سارے اچھے کرنے لگ جائیں تو پھر اللہ کے پاس ان کو جہنم میں بھیجنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا اور انہیں بنایا بھی جہنم کے لیے ہے۔ لہذا اللہ نے شیطان اور شیطان کی قوم کو بنایا کہ یہ انہیں جہنم کے کاموں کے جانب گھسیٹیں اورلگائیں اور وہ لگاتے ہیں ۔اور جو لوگ صحیح ہوتے ہیں ان لوگوں کو شیطان راستے سے ہٹا نہیں سکتا۔ابلیس نے یہ خود کہا ہے اوریہ قرآن میں بھی موجود ہے کہ
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
سورۃ ص آیت نمبر 82 اور 83
ترجمہ : اے اللہ تیری عزت کی قسم میں جمعیت انسان کو اپنے قبضے میں کر لونگا، سوائے تیرے بندوں کےجو مخلص بن گئے ہیں ۔
اس آیت کے معنی تو بہت گہرے ہیں لیکن ہم انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں ، اس دنیا میں انسان جو بھی برے کام کرتا ہے فرشتے ان برے کاموں کو لکھ لیتے ہیں ، حضورﷺ نے فرمایا ایک سیاہ دھبہ بھی دل پر لگا دیتا ہےاور اس آدمی کو برے کاموں کی عادت ہو جاتی ہے اور نفس خراب ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو شیطان اپنا فیض دینے کے لیے چن لیتا ہے ، قرآن مجید میں دوقسم کے اولیاء کا ذکر آیا ہے ایک تو اولیاء خیراور ایک اولیاء شر۔
اولیاء خیر وہ ہیں جو منجانب اللہ ہیں اور اللہ کی طرف لے جاتے ہیں اور اولیاء شر وہ ہیں جو من دون اللہ یعنی اللہ سے دور لے جاتے ہیں ۔
“اولیا ء شر میں تمام عالم ، مولوی، جھوٹے پیر، بے شرع فقیر ، دھوکہ باز درویش اور کتاب پڑھنے والے صوفی آتے ہیں جو بلند و بانگ دعوے کر کے عام انسانوں کو بیعت کر لیتے ہیں، نہ انکے اپنے سینے میں نور ہے نہ وہ کسی کے سینے میں نور ڈال سکتے ہیں لہذا وہ معصوم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اللہ سے دور کرتے ہیں یہ بھی اولیاء شر کے زمرے میں آتے ہیں لیکن جو حقیقی طور پر با مقصد اولیاء شر ہیں ان کا چناؤ ابلیس کرتا ہے”
وہ دیکھتا ہے کہ کوئی آدمی بہت ہی زیادہ مذہبی بھی ہے، پڑھا لکھا بھی ہے اور دلیل بھی دے سکتا ہے، بحث بھی کر سکتا ہے اور ہے بھی جہنمی تو پھر ابلیس کسی طریقے سے اس کے نفس کو اِغوا کر لیتا ہے اور مقام اسفل میں لے جاتا ہے جہاں اس نفس کی باقاعدہ ٹرینگ کرتا ہے اور ٹرینگ مکمل ہوجانے کے بعد دوبارہ اس بندے میں ڈال دیتا ہے۔ اب اس بندے کے پاس شیطانی طاقت آجاتی اور اسے قرآن مجید کی تفاسیر اور قرآن مجید کے مفہوم میں بگاڑ پیدا کرنے کا فن آجاتا ہے ، قرآن مجید کی آیات سے کھیلنے کا فن آ جاتا ہے۔ حدیثوں کے غلط مفہوم بیان کرنے کا فن آ جاتا ہے، اللہ کی کتاب سے اللہ کے گھر میں ، اللہ کے رسول کی حدیثوں کے ذریعے بگاڑ پیدا کر کے وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے لیکن اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف انہی کو گمراہ کرتا ہے جن کا اللہ سےتعلق نہیں ہے جو اللہ والے نہیں ہیں جہنمی ہیں ۔ابلیس کا طرز تخاطب ملاحظہ فرمائیے۔
ابلیس کتنی خوبصورتی سے کہتا ہےقَالَ فَبِعِزَّتِكَ ۔۔۔ تیری عزت کی قسم ۔۔ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ۔۔۔۔ میں سب کو اغوا کر لونگا، اپنے قبضے میں کر لونگا ۔ لوگوں نے اس کا ترجمہ گمراہ کیا ہے میں اس سے متفق نہیں ہوں ، کہیں نہیں لکھا گمراہ کر دونگا ، یہ گمراہی سے بڑی کہانی ہے، صرف یہ نہیں کہ وہ خود گمراہ ہو گا ، انسانیت کے ایک بڑے حصے کو لے کر ڈوبے گا ۔ یعنی اے اللہ! تیری عزت کی قسم میں جمعیت انسان کو اپنے قبضے میں کر لونگا، پھر کہا إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ۔۔۔۔۔۔ سوائے تیرے بندوں کے۔مخلوق تو ساری اللہ نے بنائی ہے تو پھر بندے سارے اللہ کے ہی ہوئے ،لیکن یہاں پر کسی کا ہوجانا استعاری معنوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، کسی کا غلام یا وفا دار ہوجائیں یا کسی سے پیار یا محبت کرنے لگ جائیں تو کہتے ہیں کہ میں تو ان کا ہوں ۔جیسے غالب نے کہا
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
جو لوگ درجہ اخلاص پر فائز ہیں انہیں ابلیس اِغوا نہیں کر سکتا :
شیطان نے کہا سوائے اُن بندوں کے جو تیرے ہو گئے اور وہ کون ہیں جو مخلص بن گئے ہیں ۔مخلص کسے کہتے ہیں ؟ انگریزی میں مخلص sincere کو کہتے ہیں لیکن قرآن کی زبان میں مخلص کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اب اللہ سے کوئی sincere ہوگا تو اسکا کیا مطلب ہے۔مخلص وہ ہے جس میں اخلاص ہے۔ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ اللَّـهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ۔ اس سورۃکو ہم سورۃ اخلاص کہتے ہیں ، کیونکہ اس میں اللہ نے اپنی وحدانیت کا ذکر فرمایا ہے اور اس کے عملی معنی یہ ہیں کہ
“وحدانیت اپنے اندر جگانی ہے ، تیرے قلب و قالب سے ہر قسم کا غیر اللہ خارج ہو جائے اور تیرے قلب و قالب میں فقط اللہ آ جائےتو اب یہ وحدانیت پوری ہو گئی، اخلاص اسی کو کہتے ہیں کہ تیرے وجود سے تیرے قلب و قالب سے ہر غیر اللہ نکل جائے اور صرف اللہ کا نور، اللہ کا نام اور اللہ کی ذات آ جائے ۔ جب یہ ہو جائے گا تو پھر تجھے کہیں گے کہ یہ مخلص ہے، تجھے اخلاص عطا ہو گیا ہے۔ابلیس اور شیطان کے نرغے میں وہ لوگ نہیں آسکتے کہ جنہوں نے غیر اللہ کو اپنے اندر سے نکال دیا ہے اب شیطان گمراہ کرنے کے لیے اندر داخل ہو ہی نہیں سکتا تو آپ محفوظ ہو جائیں گے “
جن کے سینوں میں غیر اللہ ہے، شیطان ہے ،دنیا ہے ، نار ہے نفس ہے ،اُن کو وہ اِغوا یعنی اپنے قبضے میں کر لے گا ، لیکن جنہوں نے اپنے وجود سے ،قلب و قالب سے غیر اللہ کو نکال لیا اور اب نس نس میں خون کے ہر قطرے میں اللہ کا نام ، اللہ کا ذکر اللہ کا نور دوڑ رہا ہے تو ایسی صورت میں تو شیطان آپ کے وجود میں داخل نہیں ہو سکتا لہذا اس نے کہا إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ۔۔۔۔ کہ تیرے جو بندے درجہ اخلاص پر پہنچ گئے جنہوں نے اپنے قلب و قالب سے غیر اللہ کو نکال لیا ہے اور اب ان کے قلب و قالب اور روح میں صرف اللہ رہ گیا ہے انکو میں کچھ نہیں کر سکتا۔تو اللہ نے شیطان کو یہ ڈیوٹی دی ہے کہ جن کے اندر غیر اللہ ہے جو جہنمی ہیں اُن کو بس اُدھر ہی لگا کر رکھے ہمارے پاس نہ آنے دے، اسی کام کے لیے شیطان کو پیدا کیا ہے۔
کیسے پتا چلے گا کہ کوئی جہنمی ہے؟
جو جہنمی ہوتے ہیں ان انسانوں کی فطرت میں شیطان کی فطرت ہوتی ہے، بلا وجہ کا لوگوں سے بغض اور حسد رکھنا ، بلا وجہ شر پھیلانا ، کسی کو خوش نہ دیکھنا، خلق خدا کو آزار پہنچا کر ، نقصان پہنچا کر خوش ہونا۔خاص طور پر جہنمیوں کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہجن انسانوں کو اللہ نے کوئی مقام کوئی مرتبہ ، کوئی عشق و محبت کا درجہ دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے ان سے بیر رکھنا جہنمیوں کی بڑی نشانی ہے، یہ جہنمی ان ولیوں نبیوں ، فقیروں سے بلا وجہ دشمنی رکھ لیں گے، جیسا کہ یہ وہابی فرقہ ہے۔اللہ نے ایک چیز اور کہہ دی من عادى لي ولياً فقد آذنته بالحرب جس نے میرے ولی سے دشمنی رکھی ، یا عداوت کی یہ ایک ہی چیز دو مختلف حدیثوں میں آئی ہے ایک حدیث میں عداوت لکھا ہے اور دوسری میں اذیت پہنچائی لکھا ہے ، بات تو ایک ہی ہو گئے۔حدیث قدسی ہے کہ جس نے میرے دوست سے ، ولی سے دشمنی کی یا اذیت وتکلیف پہنچائی تو میں اس بندے کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں ۔
اللہ کا اعلان جنگ کرنا کیا ہے؟
جب اللہ جنگ کرتا ہے تو کیا کرتا ہے لوگ یہ سمجھ نہیں پائے، اللہ کی جنگ توپوں میزائیلوں سے نہیں ہوتی۔سیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں اللہ کا جنگ کرنا گردن کاٹنا ، مار ڈالنا یا جیل میں ڈالنا نہیں ہے، بلکہ اُس کے ایمان کی گردن پر اللہ کے قہر کی تلوار چلتی ہے، اللہ کا قہر اُسکے دل پر مستقل نازل ہوتا رہتا ہے۔جس طرح اللہ کی تجلی کا نور دل پر گرتا ہے اُس نور کو نظر رحمت بولتے ہیں اور جب کسی پراللہ لعنت بھیجتا ہے تو اُس لعنت کی نار اس انسان پر گرناشروع ہو جاتی ہے۔ایک دفعہ اللہ اگر کسی پر لعنت بھیجے تو چالیس سال تک اُس لعنت کا اثر رہتا ہے اگر وہ بندہ مر جائے تو اللہ اس کی قبر پر لعنت بھیجنا شروع ہو جاتا ہے۔جس طرح قرآن مجید میں آیا کہ
اِ نَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
سورۃ الا احزاب آیت نمبر 57
ترجمہ : جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ، جب تک وہ دنیا میں ہے لعنت کی زد میں ہے اور آخرت میں بھی اس پر لعنت ہو گی۔
اور جو ولیوں کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ، اللہ روز ان کے ایمان کی گردن کاٹے گا ، ان پر قہر نازل ہو گا، کوئی نبی کوئی ولی ان کی مدد نہیں کر سکے گا کیونکہ انکو دور سے نظر آ جائے گا ان پر اللہ کا قہر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا شخص اللہ کی رحمت سے باہر، اللہ کے رسول کی رحمت سے بھی باہر ہے کوئی اس کا مدد گار نہیں ہوسکتا۔اللہ اپنے دوستوں کابڑاخیال کرتا ہے اور جو اللہ کے دوستوں کو اذیت پہنچاتے یا ان کے خلاف بولتے ہیں ، یا ان کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی تحقیر آمیز زبان استعمال کرتے ہیں تو اللہ اُن کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتا ہے اور اللہ کا اعلان جنگ کرنا کیا ہے؟ اللہ تعالی کا قہر ان کے دلوں پر گولہ بارود کی طرح گرتا رہتا ہے اور ان کے سینوں میں آگ لگی رہتی ہے، چین نہیں آتا اِسی میں لگے رہتے ہیں ، اور اللہ کے غضب کی آگ جو سینوں میں لگ جائے تو وہ آگ بڑی پھیلنے ہوتی ہے ۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کہا کہ ” منافقین کی صحبت میں نہ بیٹھو کہیں ان کے نفاق کی آگ ان کے سینوں سےتمہارے سینوں تک نہ پہنچ جائے” ۔جو اللہ کے دوستوں ،اللہ کے رسولوں کے بارگاہ میں گستاخیاں کرتے ہیں ان لوگوں سے یاری دوستی نہیں رکھنی چاہیے اُن کے قریب نہیں جانا چاہیے کیونکہ وہ اللہ کے غضب کی زد میں ہیں ۔اللہ کی جنگ کیا ہے؟ اللہ ان پر اپنا قہر نازل کرتا ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 27 اگست 2017 کی یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔