کیٹیگری: مضامین

تمام مسائل کا حل قرآن مجید میں موجود نہیں ہے:

بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کا تذکرہ قرآن شریف میں نہیں ہے ۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے وہ علم نازل فرمایا جو علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے لئے تجویز کیا اور اُن واقعات کا ذکر فرمایا، ماضی کے، کہ جن واقعات کے بار ے میں اُس وقت کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ابہام پایا جاتا تھایا اُن کے عقائد بدل چکے تھے۔ بہت سے ایسے یہودی تھے جو آکے پوچھتے کیونکہ اُن کا یہ ماننا تھا کہ نبی کریم ﷺ کو پہچاننے کے لئے کہ یہ واقعی نبی ہیں یا نہیں تو ہم پچھلے انبیاء کے واقعات پوچھتے ہیں جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام سے سنے ہوئے تھےیا اُن کے ذریعے اُن تک پہنچ گیا لہٰذا وہ آکر کے پوچھتےحضور سے کہ عیسی ٰ علیہ السلام کے بارے میں بتائیں، مریم علیہ السلام کے بارے میں بتائیں، ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بتائیں، موسیٰ کے بارے میں بتائیں، تو پھر جو ہے نبی کریم ﷺ کے اوپر اُس موضوع پر وحی نازل ہوتی تھی تو جیسے جیسے ضرورت پڑتی تھی ویسے ہی اللہ کی طرف سے وحی آتی تھی ۔ تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مسائل ہیں اُن کا حل آپ کو قرآنِ مجید میں مل جائے گا۔ آپ یہ یاد رکھیں ہمیشہ کہ قرآنِ مجید اللہ کا کلام ہے اور جو قرآنِ مجید سے پہلے آسمانی کتب نازل ہوئی تھیں وہ بھی اللہ ہی کا کلام تھا اگر سب کچھ قرآن میں ہے تو پھر باقی جو کتابیں آئی ہیں اُن میں کیا تھا۔وہ بھی تو اللہ کا کلام ہے ۔ اگر ہر مذہب والا یہی کہے کہ ہماری کتاب میں ہر چیز موجود ہے تو پھر چار کتابیں کیوں آئیں ایک ہی کتاب کافی تھی۔ بھئی ہر مذہب والا اگر یہی کہے کہ ہماری کتاب بھر پور ہے ہماری کتاب میں سب کچھ ہے۔ تو یہ بات جو ہے وہ ماننے والی نہیں ہے اس لئے کہ اُس کتاب کے بعد ایک اور کتاب آگئی۔ اگر سب کچھ اُسی میں تھا تو یہ نئی کتاب کیوں آئی۔ آدم صفی اللہ کی ران سے بچے پیدا ہوتے تھے اِس کا ذکر سرکار امام مہدی گوہر شاہی نے اپنی کتاب میں فرمایا اور اُس کتاب کے پہلے صفحےپر یعنی سرِ ورق پر یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ اللہ کے پوشید ہ راز ہیں۔ آپ دنیا پر نظر ڈالیں تاریخ ِ انسانی پر نظر ڈالیں تو اُس کے بعد پھر آپ قرآنِ مجید میں اُس علم کو ٹٹولیں۔ اب میں کتاب مقدس دین الہی سےایک اقتباس پڑھتا ہوں تاکہ آپ کو کچھ آگاہی ہوجائے ۔ سیدناامام مہدی سرکار گوہر شاہی فرماتے ہیں:

کتاب مقدس دین الہی سے اقتباس:

سوچ تو ذرا تو کس آدم کی اولاد سے ہے۔ کچھ الہامی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس دنیا میں چودہ ہزار آدم آچکے ہیں اور کسی نے کہا ہے کہ آدم صفی اللہ چودھواں اور آخری آدم ہے۔ اس دنیا میں واقعی بہت سے آدم ہوئے ۔ جب آدم صفی اللہ کو مٹی سے بنایا جا رہا تھا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ بھی دنیا میں جا کر دنگا فساد کرے گایعنی فرشتے پہلے والے آدموں کے حالات سے باخبر تھے ورنہ انہیں کیا خبر کہ اللہ کیا بنا رہا ہے اور یہ جا کر کیا کرےگا۔ لوحِ محفوظ میں مختلف زبانیں ، مختلف کلمے، مختلف جنتر منتر، مختلف اللہ کے نام، مختلف صورتیں حتیٰ کہ جادو کا عمل بھی درج ہے جو کہ ہاروت ماروت دو فرشتوں نے لوگوں کو سکھایا تھا۔ اور بطورِ سزا وہ دونوں فرشتے مصر کے ایک شہر بابل کے کنویں میں اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہر آدم کو کوئی زبان سکھائی پھر اُن کی قوم میں نبیوں کو ہدایت کے لئے بھیجا۔ تب ہی کہتے ہیں کہ دنیا میں سوا لاکھ نبی آئے۔ جب کہ آدم صفی اللہ کو آئے ہوئے چھ ہزار سال ہوئے ہیں اگر ہر سال ایک نبی آتا تو چھ ہزار ہی ہوتے۔ کچھ عرصہ بعد اِن اقوام کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے تباہ کیا جیسا کہ آثارِ قدیمہ کے شہروں کا بعد میں نمودار ہونا اور وہاں کی لکھی ہوئی زبانوں کو کسی کا بھی نہ سمجھنا اور کسی قوم کو پانی کے ذریعے غرق کیا۔ اور ان میں سے نوح طوفان کی طرح کچھ افراد اُن خطوں میں بچ بھی گئے۔ آخر میں صفی اللہ کو اُن سب سے بہتر بنا کر عرب میں بھیجاگیا اور بڑے بڑے نبی بھی اس آدم کی اولاد سے پیدا ہوئے۔ مختلف آدموں کی مختلف زبانیں اُن کی بچی ہوئی قوموں میں رہیں۔ جب آخری آدم آئے تو اُن کو سریانی زبان سکھائی گئی جب آپ کی اولاد نے دُور دراز کی سیاحت کی تو پہلے والی قوموں سے بھی ملاقات ہوئی اور کسی نے اچھی جگہ یا سبزہ دیکھ کر اُن کے ساتھ ہی بود و باش اختیار کر لی۔ عرب میں سریانی ہی بولی جاتی تھی۔ پھر یہ اقوام کے میل جول سے عربی ، فارسی ، لاطینی ، سنسکرت وغیرہ سے ہوتی ہوئی انگریزی سے جا ملی۔ مختلف جزیروں میں مختلف آدموں کی اولاد مقیم تھی۔ ان میں سے ایک خانہ بدوش بھی آدم تھا جس کی اولاد آج بھی موجود ہے اور جس کے ذریعے مختلف قومیں دریافت ہوئیں۔ سمندر پار کے جزیروں والی قومیں ایک دوسرے سے بے خبر تھیں۔ اتنے دور دراز سمندری سفر نہ تو گھوڑوں سے کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی چپو والی کشتیاں وہاں پہنچا سکتی تھیں۔کولمبس مشینی سمندری جہاز بنانے میں کامیاب ہوا ، جس کے ذریعے وہ پہلا شخص تھا جو امریکہ کے خطے کو پہنچا۔ کنارے پر لوگوں کو دیکھا جو سرخ تھے اُس نے سمجھا اور کہا شاید انڈیا آگیا ہے اور وہ انڈین ہیں۔ تب ہی اس قوم کو ریڈ انڈین کہتے ہیں جو نارتھ ڈیکوٹا کی ریاست میں اب بھی موجود ہیں۔ ریڈ انڈین کے ایک قبیلے کے سردار سے پوچھا کہ آپ کا آدم کون ہے اس نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب کے مطابق ہمارا آدم ایشیا میں ہے جس کی بیوی کا نام حوا ہے لیکن ہماری تاریخ کے مطابق ہمارا آدم ساؤتھ ڈیکوٹا کی ایک پہاڑی سے آیا تھا۔ اُس پہاڑی کی نشاندہی اب بھی موجود ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انگریز اور امریکن ٹھنڈے موسم کی وجہ سے گورے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کسی کالے آدم کی نسل بھی ان خطوں میں قدیمی موجود ہے اور وہ آج تک گورے نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے رنگ ،حلیے مزاج، دماغ ،زبانیں ، خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ آدم صفی اللہ کی اولاد کا سلسلہ وسط ایشیا تک ہی رہا یہی وجہ ہے کہ وسط ایشیا والوں کے حلیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آدم صفی اللہ جن کو شنکر جی بھی کہا جاتا ہے سری لنکا میں اُترے پھر وہاں سے عرب پہنچے اور اُس کے بعد آپ عرب میں ہی رہے اور سرزمینِ عرب میں ہی آپ کی قبر موجود ہے۔ تو پھر سری لنکا میں آپ کے اُترنے اور قدموں کی نشاندہی کس نے کی جو ابھی تک محفوظ ہے ۔ اس کا مطلب آپ سے پہلے ہی وہاں کوئی قبیلہ آباد تھا۔ جو قومیں ختم کردی گئی ہیں اُن پر نبوت اور ولایت بھی ختم ہوگئیں اور باقی ماندہ لوگ ان ہستیوں سے محروم ہو کر کچھ عرصہ بعد بھٹک گئے جوں جوں یہ خطے دریافت ہوتے گئے ایشیا سے ولی پہنچتے گئے اور اپنے اپنے مذاہب کی تعلیم دیتے رہے اور آج سب خطوں میں ایشائی دین پھیل گیا۔ عیسیٰ یروشلم ، موسیٰ بیت المقدس، حضور پاکﷺ مکہ جبکہ نوح اور ابراہیم کا تعلق بھی عرب ہی سے تھا۔ کچھ نسلیں عذابوں سے تباہ ہوئیں کچھ کی شکلیں ریچھ بندروں کی طرح ہوئیں ، کچھ رہے سہمے لوگ خوفزدہ ہو کر رب کی طرف مائل ہوئے اور کچھ رب کو قہار سمجھ کر اس سے متنفر ہوگئے اور اُس کے کسی بھی قسم کے حکم کی نافرمانی کی اور کہنے لگے کہ رب وغیرہ کچھ بھی نہیں۔ انسان ایک کیڑا ہے دوزخ بہشت بنی بنائی باتیں ہیں۔ موسیٰ کے زمانے میں بھی جو قوم بندربن گئی تھی اُنہوں نے یورپ کا رُخ کیا تھا اس وقت کی حاملہ ماؤں نے بعد میں بندریہ ہونے کی صورت میں جنم انسانی دیا تھا وہ قوم اب بھی موجود ہے وہ خود کہتے ہیں کہ ہم بندر کی اولاد میں سے ہیں۔ جو قوم ریچھ کی شکل میں تبدیل ہوگئی تھی انہوں نے افریقہ کے جنگلوں کی طرف رُخ کر لیا تھا اس وقت کی حاملہ ماؤں کے پیٹ میں تو انسانی بچے تھے جن کے ذریعے بعد میں جو نسل چلی اُس کو مم کہتے ہیں۔ جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں اور مادہ زیادہ ہوتی ہیں انسانوں کو اُٹھا کر لے بھی جاتی ہیں ۔ ان پر مذہب کا رنگ نہیں چڑھتا لیکن آدمیت کی وجہ سے شرمگاہوں کو پتوں کے ذریعے چھپایا ہوا ہوتا ہے۔ کسی اور آدم کو کسی غلطی کی وجہ سے ایک ہزار سال کی سزا ملی تھی اُس سانپ کی شکل میں تبدیل کردیا گیا تھا اب اس کی بچی ہوئی قوم جو کہ ایک خاص قسم کے سانپ کی شکل میں موجود ہے جنم کے ہزار سال بعد انسان بھی بن جاتی ہے اسے روحا کہتے ہیں۔ تاریخ میں ہے کہ ایک دن سکندرِ اعظم شکار کے لئے کسی جنگل سے گزرا دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت رو رہی ہے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں چین کی شہزادی ہوں اپنے شوہر کے ہمراہ شکار کو نکلے تھے لیکن شوہر کو شیر کھا گیا لیکن میں اب تنہا رہ گئی ہوں سکندر نے کہا میرے ساتھ آؤمیں تمہیں واپس چین بھجوا دونگاعورت نے کہا شوہر تو مرگیا میں اب واپس جا کر کیا منہ دکھاؤں گی ۔ سکندر اسے گھر لے آیا اور اس سے شادی کرلی۔ کچھ مہینوں بعد سکندر کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا ۔ ہر قسم کا علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا ۔ درد بڑھتا گیا حکیم عاجز آگئے۔ ایک سپیرا بھی سکندر کے علاج کے لئے آیا۔ اس نے سکندر کو علیحدہ بلوا کر کہا میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں لیکن میری کچھ شرطیں ہیں اگر چند ہی دنوں میں میرے علاج سے شفا نہ ہوئی تو بیشک مجھے قتل کرادینا آج کی رات کھچڑی پکواؤ ، نمک ذرا زیادہ ہو ۔ دونوں میاں بیوی پیٹ بھر کے کھاؤ۔ کمرے کو اندر سے تالا لگاؤ کہ دونوں میں سے کوئی باہر نہ جاسکے۔ تم کو سونا نہیں لیکن بیوی کو ایسا ہی لگے کہ تم سو رہے ہو ۔ پانی کا قطرہ بھی اندر موجود نہ ہو۔ سکندر نے ایسا ہی کیا ۔ رات کے کسی وقت بیوی کو پیاس لگی۔ دیکھا پانی کا برتن خالی ہے ۔ پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی دیکھا کہ تالا ہے۔ پھر شوہر کو دیکھا محسوس کیا بے خبر سورہا ہے۔ پھر سپنی بن کے نالی کے سوراخ سے باہر نکل گئی۔ پانی پی کے سپنی کی صورت میں داخل ہوکے عورت بن گئی۔ سکندرِ اعظم یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ صبح سپیرے کو بتایا سب کچھ بتایا۔ اُس نے کہا تیری بیوی ناگن ہے۔ جو ہزار سال روپ بدلتا ہے اس کا زہر پیٹ کے درد کا باعث بنا۔ پھر اس عورت کو سیر کے بہانے سمندر میں لے گئے اور جس جگہ پھینکا وہ نشان آج بھی موجود ہے اس سے سدِ سکندری کہتے ہیں ۔ اس کی نسل بھی اب دنیا میں موجود ہے۔ عام سانپوں کے کان نہیں ہوتے لیکن اس نسل والے سانپ کے کان ہوتے ہیں پتہ نہیں کس آدم کا قبیلہ چین کے پہاڑوں میں بند ہے۔ اُن کے اس خطے میں داخلے کو روکنے کے لئے ذوالقرنین نے پتھروں کی دیوار بنائی تھی اُن کے لمبے لمبے کان ہیں ایک کو بچھا لیتے ہیں اور دوسرے کو اوڑھ لیتے ہیں انہیں یاجوج ماجوج کہتے ہیں ۔ سائنس نے کافی خطے دریافت کرلئے ہیں تلاش کرلئے ہیں لیکن ابھی بھی کافی خطے دریافت کرنا باقی ہیں۔ ہمالیہ کے پیچھے بھی برفانی انسان موجود ہیں ۔ بہت سے انسان جنگلوں میں بھی موجود ہیں۔ ان کی زبان اُن کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ بھی اپنے آدم کے طریقے پر عبادت کرتے ہیں اور ضابطہ حیات کے لئے ان کا بھی سرداری نظام قائم ہے۔ ان براعظموں کے علاوہ اور بھی زمینیں ہیں جیسا کہ چاند ،سورج، مشتری، مریخ وغیرہ وہاں بھی آدم آئے لیکن وہاں قیامتیں آچکی ہیں۔ کہیں آکسیجن کو روک کر اور کہیں زمین کو تہس نہس کردیا گیا۔ مریخ میں انسانی زندگی ابھی بھی موجود ہے جبکہ سورج میں بھی آتشی مخلوق آباد ہے۔ کہتے ہیں ایک خلاباز جب چاند میں اُترا اُس نے اوپر کے سیاروں کی تحقیق کرنا چاہی تو اُسے اذان کی آواز بھی سنائی دی جس سے وہ متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا تھا وہ مریخ کی دنیا تھی جہاں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں ہمارے سائنسدان ابھی مریخ پر پہنچ نہیں پائے جبکہ وہ لوگ کئی بار اس دنیا میں آچکے ہیں اور بطور تجربہ یہاں کے انسانوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کی سائنس اور ایجادیں ہم سے بہت آگے ہیں ہمارے سیارے یا سائنسدان اگر وہاں پہنچ بھی گئے تو ان کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکیں گے ۔ ایک آدم کو اللہ نے بہت علم دیا تھا اور اس کی اولاد علم کے ذریعے بیت المعمور پر جا پہنچی تھی لیکن جو حکم اللہ فرشتوں کو دیتا نیچے وہ سن لیتے ۔ ایک دن فرشتوں نے کہا کہ اے اللہ!یہ قوم ہمارے معاملے میں مداخلت بن گئی ہے ۔ ہم جب دنیا میں کوئی کام کرنے جاتے ہیں تو یہ پہلے سے اُس کا توڑ کرچکے ہوتے ہیں۔ اللہ نے جبریل سے کہا کہ جاؤان کا امتحان لو۔ ایک بارہ سال کا بچہ بکریاں چرا رہا تھا جبریل نے اُس سے پوچھا کیا تم بھی کوئی علم رکھتے ہو ؟ اُس نے کہا: پوچھو!جبریل نے کہا بتاؤ اس وقت جبریل کدھر ہے۔ اُس نے آنکھیں بند کیں اور کہا آسمانوں پر تو نہیں ہے ۔ پھر کدھر ہے ۔ اُس نے کہا زمین پر بھی نہیں ہے۔ جبریل نے کہا پھر کدھر ہے اُس نے آنکھیں کھول دیں اور کہا میں چودہ طبقوں میں دیکھا وہ کہیں بھی نہیں ہے ۔ یا میں جبریل ہوں یا تم۔ پھر اللہ نے فرشتوں کو کہا اس قوم کو سیلاب کے ذریعے غرق کیا جائے۔ انہوں نے یہ فرمان سُن لیا۔ لوہے اور شیشے کے مکانات بنانا شروع کردئیے۔ پھر زلزلے کے ذریعے اس قوم کو غرق کیا گیا۔ اس وقت اس خطے کو کالدا اور اب یونان بولتے ہیں۔ انہوں نے روحانی علم کے ذریعے اور اب ہمارے سائنسدان سائنسی علم کے ذریعے رب کے کاموں میں مداخلت کررہے ہیں انہیں ڈرانے کے لئے چھوٹی موٹی تباہی اور مکمل تباہی کے لئے ایک سیارے کو زمین کی طرف بھیج دیا گیا ہے جس کا گرنا بیس پچیس سال تک متوقع ہے اور وہ دنیا کا آخری دن ہوگا۔ اُس کا ایک ٹکڑا گزشتہ دو برسوں میں مشتری پر گر چکا ہے۔ سائنسدانوں کو بھی اس کا علم ہوچکا ہے۔ اور یہ اس کے گرنے سے پہلے چاند پر یا کسی اور سیارے پر رہائش پذیر ہونا چاہتے ہیں جبکہ چاند پر پلاٹوں کی بکنگ بھی ہوچکی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاند میں انسانی زندگی کے آثار یعنی ہوا ، پانی اور سبزہ نہیں ہے پھر تگ و دو کا مقصد کیا ہے۔ رہا سوال تحقیق کا چاند مشتری پر پہنچ کر بھی انسانیت کا کیا فائدہ ہوا کیا کوئی ایسا دوا یا نسخہ درازیِ عمر یا موت کی شفا کا ملا۔ اگر مریخ کی مخلوق تک پہنچ بھی گئے تو وہاں کی آکسیجن اور یہاں کی آکسیجن کی وجہ سے ایک دوسری جگہ رہنا محال ہے۔ بس بیکار دولت ضائع کی جارہی ہے۔ اگر وہی دولت روس اور امریکہ غریبوں پر خرچ کردے تو سب خوشحال ہوجائینگے ۔ آدمیت کے فرق کی وجہ سے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم بھی بنائے جارہے ہیں جبکہ بموں کے بغیر ہی دنیا کو تباہ ہوہی جانا ہے۔

آدم صفی اللہ کی مثال پر عیسی کی پیدائش ہوئی:

اس کتاب میں سیدنا گوہر شاہی نے اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ راز بیان کئے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ سمجھنے کے لئے تو بہت آسانیاں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں۔اور اگر آپ نہ سمجھنا چاہیں اور انکار پر مائل ہوں تو پھر آپ کو کوئی سمجھا بھی نہیں سکتا۔ عیسیٰ علیہ السلام کی جو پیدائش ہے وہ بغیر کسی مرد کے ہوئی یعنی بی بی مریم کو کسی مرد نے نہیں چھوااُس کے باوجود بھی وہ حاملہ ہوگئیں۔ لیکن اس طرح کے واقعات کہاں ملتے ہیں دنیا میں! تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے آئے؟ یہ بات نہیں سمجھ میں آئی لوگوں کوتبھی لوگوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہہ دیا۔ جب بات سمجھ میں نہ آئے تو انسان اس کا جواب اپنے قیاس سے تلاش کرتا ہے۔آج اگر آپ عیسائیوں کو برا کہتے ہیں اس بات پر کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کیوں کہہ رہے ہیں تو اُس میں تھوڑی سی نرمی لے آئیں جب اُن کو راز پتہ نہیں چلا کہ عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے آئے تو اُنہوں نے اپنے قیاس کے اوپر اس کو حقیقت سمجھ لیا کہ بھئی بغیر باپ کے تو بیٹا ہو نہیں سکتا ہے اور کسی مرد نے ان کو چھوا نہیں تو لا محالہ اُن کا یہ قیاس ہوگیا کہ یہ پھر اللہ کے بیٹےہیں۔اچھا اب اگر وہ یہ کہیں کہ یہ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں اپنے آپ کو انہوں نے کوئی جواب بھی تو دینا ہے کہ ہمارا جو نبی ہے اُس کا کوئی باپ نہیں ہے تو پھر وہ آیا کہاں سے۔ کچھ تو انہوں نے اپنے ایمان کی تسکین کے لئے مفروضہ تو قائم کرنا ہے ، تو اب انہوں نے اپنے اٹکل پچو سے جو کچھ اُن کے پاس تھیں تو اُس کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے یہ سوچا کہ بھئی کسی مرد نے تو چھوا نہیں تو لا محالہ یہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ بعد میں چھ سو سال جب گزر گئے ، چھ سو سال کے گزرنے کے بعد قرآنِ مجید میں اللہ نے یہ راز کھولا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم نے بی بی مریم کو جو حاملہ ہوئی تھیں وہ امرِ کُن کے ذریعے کیا اللہ نے کہا ہو جا تو وہ حاملہ ہو گئیں ۔ اب یہ تو اللہ کی طاقت ہے ناں ۔ لیکن مجھے یہ بتائیے آپ کہ یہ کیا ہے کہ جس کا نبی ہے وہ راز اُن کو نہیں بتایا۔ اور قرآنِ مجید میں چھ سوسال کے بعد یہ راز بتا دیا۔ اگر یہ راز آپ عیسائیوں کو بتا دیتے تو وہ عیسیٰ علیہ السلام کو آپ کا بیٹا نہ کہتے۔ سوچنے کی بات ہے یہ ۔ اب اگر آپ مجھ پر کفر کا فتویٰ لگانا چاہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے فتوؤں سے کیا ہوتا ہے۔ لیکن دماغ میں یہ بات آتی ہے بھئی آپ پانی کے لئے ترستے رہیں اور کوئی گندی چیز پانی سمجھ کے پی لیں اور میں بعد میں اُس کوپانی پلانے چلا جاؤں جس کو پانی کی پیاس ہی نہیں ہے۔ تو کوئی تُک نہیں بنتا ناں۔ جس وقت عیسیٰ علیہ السلام موجود تھے اگر اُسی وقت عیسیٰ علیہ السلام کے اوپر یہ وحی آجاتی کہ بھئی کہہ دو کہ آپ کی جو پیدائش ہے وہ معجزاتی تھی اور وہ معجزہ کیسے معرضِ وجود میں آیا وہ بھی بتا دیں تاکہ لوگوں کے ایمان مضبوط ہوجائیں لیکن اب یہ اللہ کے راز ہیں ۔ اللہ کی مرضی ہوتی ہے کہ جس قوم کو راز کی ضرورت ہوتی ہے اُس کو بتائے یا نہ بتائے۔ اب مسلمانوں کو تو پتہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کیسے ہوئی لیکن عیسیٰ علیہ السلام جس قوم کے نبی ہیں اُن کو نہیں پتہ جبکہ پتہ اُن کوہونا چاہئے تھا۔ قرآنِ مجید میں تو یہ بھی آیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بھئی عیسیٰ علیہ السلام کی مثال جو ہے پیدائش کی وہ ایسی ہی ہے جیسے آدم صفی اللہ کی ہے ۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
سورة آل عمران آیت نمبر 59
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ہو بہو آدم علیہ السلام کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! پس وه ہو گیا۔

آدم صفی اللہ کے تو ماں اور باپ دونوں نہیں تھے ، عیسیٰ علیہ السلام کے تو صرف والد صاحب نہیں تھے تو آدم صفی اللہ کی تو ماں بھی نہیں تھی۔ میں نے عرض کیا کہ سمجھنا چاہیں اگر آپ تو سمجھا جاسکتا ہے اور اگر نہ سمجھنا چاہیں تو نہ سمجھیں۔ اچھا اب پھر ایک اشکال یہ پیدا ہوجاتا ہےکہ آدم صفی اللہ اور مائی حوا اُن سے انسانی نسل نکلی تو پھر یہ آپس میں شادیاں کیوں ہوئیں آپس میں بہن بھائی تو شادی نہیں کرسکتے ناں ، کیوں بھئی؟ آپس میں بہن بھائی تو شادی نہیں کرسکتےہیں لیکن وہ شادیاں ہوئیں تبھی تو نسل آگے بڑھی۔ مولوی صاحبان جو ہیں اس کی اپنی من گھڑت یعنی توجیح پیش کرتے ہیں لیکن وہ کارگر نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی منطق نظر نہیں آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم صفی اللہ کے ران سے بچے پیدا کئے۔ اب کیسے ہوئے اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ کیوں نہیں کرسکتا اللہ۔ ایک سرکار گوہر شاہی کے پاس دم کرانے کے لئے کوٹری شریف میں اندرونِ سندھ سے ایک شخص آیا تو اُس کو بیماری یہ تھی کہ اُس کی ران سے ہر تھوڑے عرصے بعد وہ کیڑے نکلتے تھے۔ بنتا تھا اندر ران میں کیڑا اور پھر نکل جاتا تھا تو موقعے پر سرکار نے فرمایا کہ اس طرح کے واقعات دنیا میں اللہ تعالیٰ اس لئے کرتا ہے تاکہ لوگوں کے ذہن میں مثالیں رہیں۔ کہ بھئی ایسا اب ہورہا ہے تو پہلے بھی ہوا ہوگا۔ تو اللہ اگر کسی انسان کی ران سے کیڑا پیدا کرسکتا ہے۔تو اللہ تعالیٰ پھر انسان بھی پیدا کرسکتا ہے ناں۔ آپ کو سمجھنا اس لئے دشوار ہورہا ہے کہ آپ نے اپنی عقل کو ایک جگہ محدود کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی جو صفتِ قادریت ہے اُس کے اوپر آپ کا ایمان کامل نہیں ہے اگر آپ اپنا ایمان وسیع کرلیں اور اس بات پر جو ہے قائل ہوجائیں کہ کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے اللہ کرسکتا ہے تو پھر آپ کو سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ حالانکہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے کہ ان اللہ علی کل شیئ قدیر

آدم صفی اللہ کی دو طرح کی اولاد تھی:

آدم صفی اللہ کی دو قسم کی اولاد تھی اللہ نے ان کو آج سے ساڑھے چھ ہزار سال پہلے سری لنکا میں اتارا تھا اس وقت ہوائی جہاز نہیں تھے نہ جانے کس طرح اور کتنے مہینوں میں سفر کر کے آدم صفی اللہ عرب پہنچے تھے ، مائی حوا کو اللہ نے جدہ میں اتارا تھا ، آبا و اجداد سے ہی “جد” نکلا ہے ،اس جگہ کو جدہ بھی مائی حوا کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ نے ان کو وہاں اتارا تھا لیکن اس سے پہلے کیا تھا؟ جب اللہ نے آدم صفی اللہ کو سری لنکا میں اتارا تھا تو آدم صفی اللہ سے اولاد کا سلسلہ سری لنکا میں ہی بغیر حوا کے شروع ہو گیا تھا ۔ آدم صفی اللہ کی ران سے بچے نکلتے تھے اور جب مائی حوا سے ملاقات ہو گئی تو ان سے بھی اولاد کا سلسلہ شروع ہوا تو کچھ آدم علیہ السلام کے بچے صرف آدم صفی اللہ کی ران سے نکلے تھے ان کی کوئی ماں نہیں تھی۔(غور کریں کہ ہم سب آدم صفی اللہ کی آولاد ہیں تو پھر تو ہم سب بہن بھائی ہیں تو بہن بھائی آپس میں شادی کیوں کررہے ہیں ؟ مولویوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے، ایک اور بات کہ کچھ لوگ خود کو سادات کہتے ہیں ارے بھائی بھنگی بھی نبی کی اولاد ہے ، آدم صفی اللہ نبی تھے ان سے نسل چلی تو ہر انسان نبی کی اولاد ہے۔ عربیوں کو یہ کہنے کا بڑا شوق ہے کہ ہم افضل ہیں کیونکہ ہم عربی ہیں ،عجمی ہم سے نیچے ہیں تو پھر آدم صفی اللہ بھی تو سری لنکا سےعرب آئے تھے ،اگر اللہ نے مائی حوا کو جدہ میں اتارا تھا تو آدم صفی اللہ کو بھی جدہ میں ہی اتار دیتے ان کو سری لنکا میں اگر اتارا ہے تو کوئی تو راز اس میں ہو گا

“آدم صفی اللہ کی دو طرح کی اولاد تھی ایک وہ جو ران سے نکلی اور ایک وہ جو مائی ہوا کے بطن سے نکلی ، ران سے نکلی ہوئی اولاد کا بی بی حوا سے کوئی تعلق نہیں تھا لہذا وہ ان کی کوئی عزت بھی نہیں کرتے تھے”

پوری دنیا میں آجکل یہ رواج عام ہے کے مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں ،فیڈر سے دودھ پلا دیتی ہیں تاکہ انکا حسن خراب نہ ہو۔ سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا پہلے جب مائیں بچوں کو اپنی چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی تھیں تو ماں کی محبت بھی بچے میں منتقل ہوتی تھی آج کل کے بچے ماں باپ کو کچھ نہیں سمجھتے تو ہم سارا قصور بچوں پر ڈال دیتے ہیں ، آپ نے تو اپنی اولاد کو اُس وقت ہی نظر انداز کر دیا تھا جب وہ پیدا ہوا تھا، اپنے حسن کو بچانے کے لیے آپ نے اولاد کو خود سے دور رکھا اور فیڈر لگا دیا، بلکل اسی طرح آدم صفی اللہ کی وہ اولاد جو ان کی ران سے نکلی تھی ان کی ماں نہیں تھی اس لیے مائی حوا کی محبت ان میں نہیں تھی اس لیے وہ ان کو تنگ کرتے تھے۔ اس وقت آدم علیہ السلام نے اپنے ان بچوں کو کہا تھا کہ ماں کی عزت کیا کرو اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ آدم صفی اللہ کا قول ہے جو اب تک چلا آ رہا ہے۔

آدم کی اولاد کی آپس میں شادیاں کیسے ہوئیں؟

آدم صفی اللہ اور مائی حوا اُن سے انسانی نسل نکلی تو پھر یہ آپس میں شادیاں کیوں ہوئیں آپس میں بہن بھائی تو شادی نہیں کرسکتے۔ مولویوں کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے لیکن سیدنا گوھر شاہی نے اس راز پر سے پردہ اُٹھایا کہ جو اولاد آدم صفی اللہ کی ران سے نکلی تھی اس کی شادی ان سے کروائی جو مائی حوا کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی کیونکہ ران سی نکلی ہوئی اولاد میں مائی حوا کا خون نہیں تھا اس لیے یہ فرق آ گیا تھا ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 9 اپریل 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس