- 1,345وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَآیت نمبر 1 تا 10
مومنوں کی اقسام:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 1 تا 2
ترجمہ : یقین جانو کہ مومنین کامیاب ہوگئے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو وہ حالتِ خاشعون میں چلے جاتے ہیں۔
ایک تو مومن وہ ہے جس کیلئے قرآن کہتا ہے کہالَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ (سورة آل عمران ) ایک تو یہ مومن ہے لیکن یہاں جس مومن کا ذکر ہے اس کی تشریح سورة المومنوں کی آیت نمبر 2 میں ہے۔یہ کوئی اور مومن ہے۔ خاشعون طریقت میں تیسرے درجے کا علم ہےجس میں آپ کے جُثّے نکل جاتے ہیں۔الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ کہ میں ان مومنوں کی بات کر رہا ہوں کہ جب وہ نماز میں جاتے ہیں تو ان کے اندر کی مخلوقیں یعنی ارواح رب کے پاس آجاتی ہیں۔ اب جو مفسرین اکرام ہیں انہوں نے جو لفظ لَهُو ہے اس کے حوالے سے کہا ہے کہ بیکار جیسے کوئی کھیل ہوتا ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو اور بے مقصد وقت ضائع کرنا یا ایسے کام کرنا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو ۔لیکن یہ تو بچے کھیلتے ہیں ۔اگر خاص مومنین کے بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے توپھر وہ مومن اپنا وقت کھیل میں ضائع نہیں کرتے ہیں۔اور اتنی خاص بات نہیں ہے کہ ان کو اعلٰی درجے کے مومن کی نشانی بنا دیا جائے۔ اور پھر قرآن مجید میں کہا کہ
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 3
کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایسی عبادت نہیں کرتے جو عبادت انہیں رب تک نہ لے جائے۔ہر بیکار عبادت سےوہ اعراض اور کنارہ رکھتے ہیں۔کبھی رب کا نام بے مقصد نہیں لیتےجب رب کا نام لیں گے تو رب تک جائے گا اور اس کا جواب آئے گا۔ تم تو تسبیح پکڑ کے آرام سے بیٹھ گئے کہ نماز پڑھی بوجھ اتارا اور چلے گئے۔تم کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ قبول بھی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اور اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے یا نہیں۔جیسے کہ مولا علی نے فرمایاکہ میں جب سجدے میں جاتا ہوں تو اُس وقت تک سجدے سے سر نہیں اُٹھاتا جب تک کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جواب نہیں آجاتا کہ لبیک یا عبدی۔ان کے بارے میں قرآن مجید نے یہ کہا ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتےکہ جس کا نتیجہ برآمد نہ ہو۔اور پھر اس کے بعد مزید آیت میں ارشاد فرمایا کہ
وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 4
زکوٰة کے دو لغوی معنٰی ہیں۔ایک تو ہے ترقی کرنا ۔اور دوسرا ہے پاک کرنا وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ کہ وہ اپنے اعمال کے ذریعے لوگوں کو پاک کرتے ہیں۔ اور پھر فرمایا
شرم گاہ کی حفاطت سے کیا مراد ہے ؟
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 5
اب ایک عربی زبان کا قائدہ سمجھ لیجئے کہ جب کسی چیز کو خاص بنانا ہو تو اس کے شروع میں اللہ لَا لگادیتا ہے۔جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا کہوَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ تو اصل لفظ لَفِي نہیں ہے بلکہ اصل لفظ عربی میں ہےفی۔ جس طرح ایک عام عملی عربی جو آج کل بولی جاتی ہے اس میں اگر کوئی پوچھے کہما عینک یا مااَنتَ کہ تم کہاں ہواور وہ کہے داخل فی مکان کہ گھر پر ہوں تو وہاں پر وہ فی استعمال کرتا ہے۔یہ تو نہیں کہتے کہ داخل لَفِي مکانبلکہ کہہ دیں گے کہ انا داخل فی مکان کہ میں گھر پر ہوں۔لیکن وہاں اللہ نے اس چیز کو خاص بنانے کیلئے لَا لگا دیا۔اسی طرح یہاں پر لگایا ہے کہ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَاب اگر اس کے عام معنٰی لیے جائیں تو یہ ہوں گے کہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں۔ اب اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ آدمی کوئی ڈبہ بنا لے اور اپنا سامان اس میں ڈال کر تالا لگاکر گھومے اور لوگ پوچھیں کہ کیا کررہے ہو کہلِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ میں اپنے سامان کی حفاظت کررہا ہوں وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ اب یہاں شرم گاہوں کو خاص بنا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی خاص حفاظت کرتے ہیں۔ آپ میری اس تشریح سے پہلے شرم گاہ کی حفاظت یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی بیوی کے ساتھ ہی انسان کو ہمبستری کرنی چاہئے۔لیکن قرآن مجید میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ مومنین مومنات سے شادی کریں، ذاکرین ذاکرات سے شادی کریں ،قانتین قانتات سے شادی کریں ۔ مسلمانوں کو یہ نہیں پتہ کہ قانتین اور قانتات کون ہیں۔حفاظت میں ایک چیز یہ بھی آتی ہے کہ اگر وہ مومن ہے اور اس کو شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی مومنہ نہیں ہے تو وہ اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا یعنی اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی ولی اللہ نے اپنی کنیزیں بنائیں ہیں ۔اگر ان کے اندر نور نہیں ہوگا تو وہ اسے ہاتھ نہیں لگائے گا یہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت ہے۔ باوجود اس کے کہ ان پر اس ولی کا حق ہے لیکن وہ انہیں ہاتھ نہیں لگائے گا۔
جس طرح کسی انسان کے خون میں گرمی کم ہوتی ہے اور کسی کے زیادہ ہوتی ہے۔ تو اگر مرد کے خون میں بھی گرمی ہو اور اس کی بیگم کے خون میں بھی گرمی ہو تو پھر اُس گرم خون کے ملاپ سے مزید بیماریاں ہوتی ہیں۔اگر یہ دیکھا ہوا ہو کہ اس کے خون کی تاثیر ٹھنڈی ہے اور اس کی گرم ہے تو وہ منفی جمع چل جاتا ہے۔اور اگر اس چیز کا دھیان نہ رکھا جائے تو پھر اس سے نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ابتدائی دنوں میں بہت سی خواتین ذاکرِ قلب بن گئیں اور پھر ان کے والدین نے ان کی شادی غیر ذاکرین میں کروادیں جو مومن نہیں تھے اور ان میں نور نہیں تھا۔تو اس سے یہ نقصان ہوا کہ ذاکرِ قلبی خواتین کا سارا نور ضائع ہو گیا۔ یہ بھی شرم گاہ کی حفاظت کرنے میں آتا ہے۔جن کامیاب مومنین کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے تو ان کے بارے میں چھوٹی سی بات تو نہیں آئے گی کہ وہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کا یہ مطلب لیا جائے جو ہم عام طور پر سمجھتے ہیں۔ایسے کام کی اُمید آپ کو ولیوں سے نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی عورت پر ناجائز نظر رکھیں ۔وہ یہ نہیں کریں گے اور اس بات کو اللہ تعالٰی نے ان کی خاصیت بیان کیا۔ اور پھر قرآن میں آیا کہ
إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 6
سوائے ان کی ازواج کے یا پھر ان عورتوں کے جو اُن کے دائیں بازو کی ملکیت ہیں ان کے اوپر ان کو کوئی ملال نہیں ہے۔ یہاں پر غَيْرُ مَلُومِينَ کا مطلب ہے کہ ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب الزام نہیں ہے کیونکہ اگر آپ بیوی کے ساتھ ہمبستری کریں تو آپ پر کوئی الزام نہیں لگائے گا تو پھر اللہ ایسی باتیں کیوں بولے گا۔لیکن جنہوں نے ترجمہ کیا ہے یقیناً انہوں نے غلط ترجمہ کیا ہے۔ غَيْرُ مَلُومِينَکا مطلب ہے ملال نہ ہوناکہ اگر وہ اپنی ازواج اور جو اِن کے دائیں بازو کی ملکیت ہیں ان کے اوپر حفاظت کا بند نہ باندھیں۔ حفاظت کا بند نہ باندھنا یہ ہے کہ انہوں نے جنسی عمل تسکین کیلئے اُن کے ساتھ کرنا ہے جن میں نور ہو۔ لیکن اگر بیوی یا دائیں کی ملکیت میں کوئی ہے اور اس میں نور نہیں ہے تو اگر ان کے ساتھ وہ جنسی عمل کرتے ہیں تو ان کو ملال نہیں ہوتا کہ ان کانور ضائع ہوگا بلکہ ان بیویوں کا مقدر سنور جائے گا اور ان کو فیض ہوگا۔ اور پھر قرآن میں فرمایا
فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 7
اگر کوئی شخص جو ہم نے بیان کردیا اس سے زیادہ کا طلبگار ہے تو وہ حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اور وہ ان میں نہیں ہو سکتے۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 8
یہ وہ مومنین ہیں کہ جو ان کے پاس امانت ہے اُس کا پاس کریں گے اور جو انہوں نے وعدہ کیا ہے اس کو نبھائیں گے۔ اب جو دائیں ہاتھ والی مملکت ہے یہ اللہ تعالٰی نے ان کو امانتاً دیا ہے تو اس امانت کو نبھائیں گے۔ اور جو اللہ سے وعدے کئے ہیں کہ تمہاری مخلوق کیلئے ہم ان کی خدمت کریں گے تو اس کو بھی نبھائیں گے۔
نمازوں کی حفاظت سے کیا مرادہے؟
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 9
ترجمہ:اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔
دل میں ایک تو ذکرِ اللہ کا نور ہوتا ہے اور جب پھر اُس کی نمازیں شروع ہو جاتی ہیں تو وہ نماز اور ذکر کا نور مکس نہیں کرتا۔ جو دل میں نماز کا نور ہے وہ ایسے ہے جیسے سود کی رقم اور ذکر کا نور ایسا ہے جیسے سود۔نماز کی حفاظت یہ ہے کہ جو نماز کا نور قلب کے اندر اُتر گیا وہ نور کہیں خرچ نہیں کرنا۔ اب جو ولی ، کنیز یا لونڈی آگئی ہے تو ان کو اتنی دیر ہی نظر یا صحبت میں رکھنا ہے کہ جس میں تجلی یا ذکر کا ہی نور جائے۔ایسا نہ ہو کہ جو نماز کا نور ہے وہ نکلنا شروع ہو جائے۔ اسلئیے ان کو اس سے زیادہ دیر نہیں بٹھاتے ۔ جو لطیفہ قلب کا جثّہ ہو تا ہے قلبِ سلیم اس میں صرف ذکر کا نور ہوتا ہے۔پھر جب نماز بھی ہو جاتی ہے تو ذکر دل کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور نماز کا نور اس کو محفوظ کرلیتا ہے۔ذکر کا نور ایسا ہے جیسے آپ نے کاروبار کیا ہے اور نماز کا نور مقررہ امانت ہے جو آپ نے بینک میں ڈال دی ہے اور اس کو ہاتھ نہیں لگارہے۔جو نمازیں آپ نے پڑھی ہیں وہ چوری نہیں ہورہیں اور نمازوں کی حفاظت یہ ہوگی کہ جو نماز کا نور بنا ہے اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شیطان سے حفاظت کرنی ہے بلکہ جو آپ کے مریدین،دوست،بیویاں اور کنیزیں ہیں ان کے اوپر اتنی ہی نظر کرنی ہے اور اُن کو اتنی ہی صحبت دینی ہے کہ تجلی اور ذکر کا نور ہی ان تک جائے۔ اور نمازوں کا نور ان تک پہنچنے سے پہلے اُن سے جدا ہو جائیں ۔قرآن مجید میں اللہ نےمزید فرمایاکہ
سورة المومنون میں وارث کون لوگ ہیں ؟
أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ
سورة المؤمنون آیت نمبر 10
یہ لوگ ہیں جو دنیا کے وارث ہیں۔
جو اردو میں لفظ وارث استعمال ہوتا ہے وہ وارث ہی ہے۔اور وارث کو انگریزی میں (Inheritor)کہتے ہیں ۔ وراثت تو وہ ہوتی ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد ہوتے ہیں آپ کیلئے کوئی چیز چھوڑ کے چلے گئے اب آپ اُس کے مالک ہیں۔ تو اُن مومنین کو وراثت کس نے دی ہے اور وراثت میں کیا ہے؟ جب آپ کے آباؤ اجداد دنیا سے جائیں تو آپ کو وراثت ملتی ہے جس میں جو کچھ بھی اُن کی ملکیت ہو اس سب میں آپ کا حق ہے۔ اگر اللہ کسی کو وراثت میں شامل کرے گا تو اس کا حق اللہ کی پوری مخلوق پر ہوگا۔ ایک تو سورة النور کی آیت نمبر 35ہے کہاللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یہ آیت شریعت اور طریقت کے ابتدائی مراحل والوں کیلئےہے۔اس کا آپ یہ ہی مطلب سمجھتے ہیں کہ زمین اور آسمان میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا نور ہے۔ اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِکہ جن کے دلوں میں اللہ کا نور ہے زمین اور آسمان میں جو کچھ بھی ہے اس کا ایک حصہ ان کو بھی وراثت میں ملے گا۔ اُس کے بعد کہاکہ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (سورة الجمعة ) یہ وہ لوگ ہیں جو طریقت کی انتہاء پر ہیں۔زمین اور آسمان پر جو کچھ بھی ہے ان کا بھی حصہ ہے۔ پھر کہا کہ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (سورة الحج)۔اُس کے بعد کہا هُوَ الَّذِي (سورة البقرة)۔ آخر میں هُوآگیا۔یہاں پر جن کو وارث کہا گیا ہےیہ ان لوگوں کیلئے ہے۔وراثت کیا ہوتی ہے؟ کامل شریعت کا مریدوں پر شریعت کے حساب سے حق ہوتا ہے۔طریقت والے ولیوں کا طریقت کے قوانین کے مطابق اپنے مریدوں پر کچھ حق ہوتا ہے۔شریعت کے مطابق اس کے مال اور جان پر حق ہوتا ہے۔طریقت کے مطابق اس کی ہر چیز پر حق ہوتا ہے۔ ایک حقیقت والے ہوتے ہیں جن کےوراثت کا دا ئرہ کار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔
ایک محمد الرسول اللہ ہیں اور ایک امام مہدی سیدنا گوھر شاہی یہ دو ہستیاں ایسی ہیں کہ پوری کائنات پر جتنا جتنااللہ کا حق ہے اتنا اتنا مہدیؑ و محمد ﷺکا حق ہے
اب جیسے سیدنا غوثِ اعظم ؓ کے جو والدِ محترم تھے وہ بھی ایک متقی پارسا انسان تھے۔ وہ کہیں سے گزرہے تھے اور راستے میں ایک نہر میں سیب گرا ہوا نظر آیا ۔سیب کو دیکھ کر ان کی بھوک چمک گئی۔انہوں نے اس سیب کا مالک تلاش کرنا چاہا کہ اس مالک سے اجازت لے کر سیب کھا لوں لیکن کوئی نظر نہیں آیا تو انہوں نے کھا لیا۔کھانے کے بعد انہوں نے سیب کے مالک ڈھونڈنا شروع کیا ۔اُس زمانے میں لوگ بہت خیال رکھتے تھے کہ لقمہ حرام جسم میں نہ چلا جائے۔ جب اس سیب کے مالک کا پتہ چلا کہ اس مالک کے باغ سے سیب نہر میں گیا تو وہ اس مالک کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے مالک سے کہا کہ میں نےآپ کا سیب کھا لیا ہےاور اس کی قیمت ادا کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ گنہگار نہ ہو جائے۔ مالک نے کہا ٹھیک ہے تم کام پر لگ جاؤ۔ وہ کئی سال تک مالک کا کام کرتے رہے ۔کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ بارہ سال تک کیا۔ جب بارہ سال بعد انہوں نے پوچھا کہ اگر آپ کو اپنی قیمت مل گئی ہے تو میں اب رخصت چاہوں۔ باغ کے مالک نے کہا کہ ابھی قیمت کی ادائیگی میں ایک اور شرط باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ مالک نے کہا کہ میری ایک بیٹی ہے جو آنکھوں سے اندھی ہے ،زبان سے گونگی ہے، کانوں سے بہری ہے، پاؤں سے لنگڑی ہے، ہاتھوں سے لولی ہے ۔اگر تم میری بیٹی سے شادی کرلو تو قیمت ادا ہو جائے گی۔ اس نے کہا کہ مجھے منظور ہے۔ شادی ہوگئی اور شادی ہونے کے بعد جب بیوی کو دیکھا تو بہت حسین نہ اندھی نہ لولی لنگڑی تھی۔ تو وہ بہت حیران تھے اور بیوی سے کہا کہ آپ کے والد تو ولی صفت انسان ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ آپ بہری،لولی،لنگڑی اور اندھی ہیں۔ اس خاتون نے کہا کہ میرے والد نے ان تمام چیزوں کا جو ذکر کیا وہ مثالیں دے کر کیاکہ میں لنگڑی اس لیے ہوں کہ کبھی غلط راستے پر نہیں چلی ۔اندھی اس لیے ہوں کہ کبھی غیر مرد کو نہیں دیکھا۔ گونگی اس لیے ہوں کہ کبھی غلط بات نہیں کہی۔ بہری اس لئے ہوں کہ کبھی غلط بات نہیں سنی۔وہ خاتون سیدنا غوثِ اعظم کی والدہ ماجدہ تھی۔ اور پھر سرکارسیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ انہوں نے کسی کے باغ کا پھل کھالیا تو اس کی قیمت ان کو ادا کرنا پڑی۔ پھر کہا کہ اللہ قسم اگر امام مہدیؑ پوری کائنات میں سے کوئی چیز اُٹھا کے کھالے تو اس کا سب پر حق ہے کسی کو قیمت نہیں دینی۔ اس کا پوری کائنات پر حق ہے۔امام مہدی ؑ اور محمدالر سول اللہ ﷺکا پوری کائنات پر حق ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 جنوری 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ، اس گفتگو کا بقیہ حصّہ ہمارے اگلے آرٹیکل میں ملاحظہ کریں۔