کیٹیگری: مضامین

رب المشرقین ورب المغربین سےکیا مراد ہے؟

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ

رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ
سورۃ الرحمن آیت نمبر17

رب کےدووسعت ہیں رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ۔ انسانوں کودوعلم بتائےگئےابوہریرہ سےروایت بھی ہےکہ حضورپاکؐ سےمجھےدو طرح کےعلم حاصل ہوئے، ایک تمہیں بتادیا (علمِ شریعت) اور دوسرا علم (علمِ طریقت) بتاؤں توتم مجھے قتل کردو۔ وہ دونوں علم ایک ہی وسعت کےتھے۔ایک ہی وسعت کاجب دوسراعلم بتایا گیاتووہ علم واجب القتل کہلایا حالانکہ وہ علم عطاکرنےوالی ذات محمد الرسول اللہ تھے۔ اب وہ جودوسرا وسعت ہے وہ کدھرہے اوراس کاانکاربھی نہیں کرسکتے۔ وہ مشرق کابھی رب ہےاورمغرب کابھی رب ہے کیونکہ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ دوطرح کی مخلوقیں بھی ہونگی۔ مَشْرِقَيْنِ ہے تومشرق بھی بہت سارے ہیں اورمَغْرِبَيْنِ ہے تومغرب بھی بہت سارے ہیں۔ بہت سارے مغرب ہونگے جہاں مخلوق ہوگی۔ مخلوق ہے تب ہی تووہ اُن کا پالنے والا ہے۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ کہ مشرقوں میں جوہیں اُن کاپالنےوالابھی اللہ ہے اور جو مغربوں میں ہیں اُن کاپالنے والابھی اللہ ہی ہے۔ اگرتم یہ سمجھتےہوکہ یہ دنیاکی بات ہورہی ہےتو دنیا میں توایک ہی مشرق اورایک ہی مغرب ہے۔ وہ کونسے مشرق اور مغرب ہیں جن کاوہ رب ہے!

مشرقین و مغربین میں موجودہستیاں اوران کےواقعات:

یہ جوفقرہےیہ تمہارا مشرق ہے۔ مشرق والے اتنے ٹیڑھے تھے کہ اُن کوہدایت دینے کیلئے حضور پاکؐ اورسات سلطان بنا کرمشرق میں رکھے کہ سب مل کران کوہدایت دینا۔ جودوسری طرف مغرب تھا اُس طرف صرف ایک ہی رُخ رکھا،ایک ہی جلوہ رکھا اوروہ جلوہ امام مہدیؑ میں رکھا۔ امام مہدیؑ کا تعلق نہ سلطانوں سے ہے، نہ عاشقوں سے ہے، نہ نبیوں سے ہے اورنہ ولیوں سے ہے۔ امام مہدیؑ کا تعلق کسی سے نہیں ہے کیونکہ وہ مغرب والے ہیں۔ پھرحضورپاک نے آخرمیں یہ آ کرکہا کہ

لا تقوم الساعتہ حتى تطلع الشمس من مغربھا

راوی البخاری 4635 ومسلم 157
ترجمہ: ایک زمانہ آئے گا کہ سورج مغرب سے نکلےگا۔

لوگ انتظار کررہے ہیں کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس سورج کےطلوع ہونےکی بات نہیں ہورہی ہے۔ ایک حدیث شریف میں یہ بھی لکھا ہے کہ

اُس وقت تک امام مہدی کا ظہور نہیں ہوگا جب تک سورج کےساتھ اُن کی کوئی نشانی ظاہر نہ ہوجائے۔

سورج کے ساتھ جونشانی ظاہی ہوئی وہ سرکار گوھر شاہی کاایک جثہ مبارک تھا۔ پاکستان کے شہرملتان میں بہت گرمی پڑتی تھی۔ جب سرکارگوھرشاہی کا وجودِ مبارک زمین پرآیا ہے تواُس کی وجہ سے اُس کی کاٹ ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے ہرسال گرمیوں میں ملتان کے اندر بہت لوگ مرتے تھے۔ سرکارگوھر شاہی کاایک وجودِ مبارک سورج پرہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ امام مہدی کی نشانی بتاؤاورحدیث میں لکھا ہے کہ امام مہدیؑ اُس وقت تک اظہارہی نہیں کریں گے کہ جب تک وہ جوسورج کےاوپراُن کاچہرہ مقیم ہے وہ زمین پرمشتہر نہ ہوجائے۔ یہ طلوع کا ذکرسرکارگوھرشاہی کےچہرہ مبارک سے جڑا ہواہے کیونکہ جوحدیث شریف کے الفاظ ہیں کہ تطلع یعنی نشانی طلوع ہوگی لیکن یہ نہیں لکھا کہ ظاہرہوگی۔ امام جعفر صادق نے بھی جوچاند پرامام مہدیؑ کے حوالے سے بات کی ہے اُس میں بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے

قال: وجہ یطلع فیی القمر، وید بارزۃ
کتاب الغیبۃ ص347

امام مہدیؑ کاجو چہرہ ہوگا وہ چاند میں طلوع ہوگا۔ چاند طلوع نہیں ہوگا بلکہ چہرہ طلوع ہوگا۔ جس کو ہم چاند سمجھ رہے ہیں وہ چاند نہیں چہرہ ہے۔
مغرب کےاندراللہ نےایک سلسلہ چلایا ہواتھا۔ وہ سلسلہ یہ تھا کہ تاکہ میرے مغرب کومشرق والے بھول نہ جائیں۔ اُس میں تھوڑاتھوڑا وہ زکوٰۃ وخیرات نکال کربانٹتا اورایسےلوگوں کوچُنتاجن کوبراہِ راست، بغیرمذہب، بلاوسیلہ اوربلاواسطہ اپناعشق عطا کرتا جیسے اللہ کےولی سرمد تھے،جیسے سچل سائیں تھے، جیسےجھولےلال تھے۔ یہ مغرب والےہیں۔ ان کوجب مولویوں نے کہاکہ نمازپڑھو توانہوں نےکہا نہیں بلکہ یارہی سب کچھ ہے۔ ایک دفعہ سیدنا امام مہدی گوھرشاہی داتا صاحب کی مسجدمیں نماز پڑھنے کیلئےگئے۔ اب پہلےہی سےمسجد بھری ہوئی تھی توسرکارگوھر شاہی آخری صف میں کھڑے ہوئے اورسرکارگوھرشاہی کےآنےسےپہلےہی ایک بندہ وہاں جوتیاں ڈھونڈ رہاتھا۔ جب سرکارگوھرشاہی نمازپڑھ کرفارغ ہوگئے تودیکھا کہ وہ بندہ جوتیاں دیکھ رہا تھا اورجوتیاں سیدھی کررہا تھا توسرکار گوھرشاہی نے اُس کوکہا کہ تم کوجوتیاں سیدھی کرکے کیاملےگا اورتم نےنماز بھی چھوڑدی تواُس نےکہاکہ نماز کیا ہے بس یارکی ادامل جائے کافی ہے۔ وہ غوثِ اعظم کاپوتا حیات الامیر تھا۔ عام آدمی کوکیاپتہ کہ آج جوتی سیدھی کرنی چاہیئے۔ عام آدمی کوکیاپتہ کہ آج وہ یہاں آرہاہے آج جوتی سیدھی کرلو۔ اُس کوجوتی سیدھی کرنےکاایک موقع ملا اوروہ کتنا خوش قسمت ہے۔ مجھے تعداد یاد نہیں لیکن میں اندازہ کروں تومعلوم ہوگا کہ کم ازکم ایک ہزارمرتبہ میں نے سرکارکی جوتیاں اُٹھائی ہیں، سینے سے بھی لگائی ہیں، آنکھوں سے بھی لگائی ہیں اورپھرسرکار گوھر شاہی کوپہنائی بھی ہیں۔ ہم لوگوں پرکتناکرم ہوگیا اوریہ تومیرااپناواقعہ ہے تومیں اس میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ ہزاروں لوگ ہیں جن کوسرکار گوھرشاہی کی جوتیاں سیدھی کرنے کاموقع ملا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔
جو دہلی میں نظام الدین اولیاء ہیں ان کے ایک مرید نے کہا کہ حضرت صاحب آپ کی چپل ٹوٹی ہوئی ہے میں گندواکرلےآتا ہوں توآپ نےکہاکہ لےآؤ۔ جب وہ مرید وہاں سے روانہ ہوا تواُس نے وہ جوتیاں سرپررکھ لیں اوروہ سرپرجوتیاں رکھ کرجارہا ہے۔ جب راستے میں لوگوں نے دیکھا تو انہوں نےکہا کہ ایسا تونہیں ہوتا کہ کوئی جوتیاں سر پررکھ کرجائے۔ پھرلوگوں نےاُس مرید کوپوچھاکہ یہ کس کی جوتیاں ہیں تواُس نے کہاکہ یہ جوتیاں اللہ کی ہیں اورجوبھی پوچھے کہ یہ جوتیاں کس کی ہیں تو وہ کہے کہ یہ اللہ کی جوتیاں ہیں اسی لئے توسرپررکھی ہیں۔ جب وہ موچی کے پاس آگیا توجب موچی نے یہ ماجرہ دیکھا تو موچی نے سوچاکہ یہ بھوکا ہے اسی لئے ایسی بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔ موچی نےکھانا منگوایا اورٹھنڈا پینے کیلئے منگوایا۔ جب مرید نے کھانا کھالیا تو پھرموچی نے توقف کےساتھ پوچھا کہ یہ کس کی جوتیاں ہیں تواُس نےکہا کہ یہ اللہ کی جوتیاں ہیں۔ موچی پریشان ہوگیا اوروہ دورقاضیوں کا تھا اورقاضی وہ ہوتا ہے جوسزامقررکرتا ہے۔ موچی نےقاضی کوبلالیا۔ قاضی نے بھی اُسے پیار سےپوچھا کہ یہ جوتیاں کس کی ہیں تواُس نےکہاکہ یہ جوتیاں اللہ کی ہیں۔ اب اُس بندے کا ایمان اپنےمرشدپراتنا مضبوط تھا اوراُسےپتہ تھا کہ یہ اب مجھےماردیں گےلیکن وہ اپنےقول پرقائم رہا۔ اُس مرید کے اس جرأت اورمردانگی پرنظام الدین کوترس آگیا اوروہاں سے انہوں نےاپنے مریدوں کو کہاکہ چلوتماشہ دیکھتے ہیں۔ جب وہ آئے توانہوں نےدیکھا کہ مجمع لگاہوا ہے اوردرمیان میں قاضی اور اُن کامرید چپل لےکرکھڑے ہیں۔ نظام الدین اولیاء نے آواز دے کرقاضی کوکہا کہ قاضی صاحب کیامعاملہ ہے۔ اُس زمانے میں ولیوں کی عزت ہوتی تھی توقاضی بھی عزت کرتا تھا۔ قاضی نے بہت ادب سے کہا کہ حضور! یہ پاگل شخص ہے اورجوتیاں سرپررکھ کرکہتاہےکہ یہ جوتیاں اللہ کی ہیں۔ نظام الدین اولیاء نے قاضی کوکہاکہ یہ ٹھیک توکہہ رہا ہے۔ آپ نےقرآن نہیں پڑھا کہ

لِّلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر284
ترجمہ: زمین اورآسمان پرجوکچھ بھی ہے اللہ کاہی ہے۔

پھرنظام الدین اولیاء نے کہا کہ کیا یہ جوتیاں اس سے باہرہیں۔ اب وہ اپنے مرید کوچھڑواکرلےگئے اوراب وہ جوتیاں لےکرجارہا ہے۔ راستے میں اُن کوامیرخسرومل گئے اورامیرخسرونے پوچھا کہ یہ جوتیاں کس کی ہیں تواُس نےکہا کہ یہ ہمارے مرشد کی جوتیاں ہیں۔ امیرخسرونےکہاکہ یہ مجھے دے دو تواُس بندے نے کہا کہ نہیں۔ امیرخسرو بہت بڑےتاجرتھے اورانہوں نےاپنا سارا کاسارامال جوسو ڈیڑھ سواونٹوں اورگدھوں پروہ مال سوارتھا وہ سارااُس بندےکودےدیا اورجوتیاں لےلیں۔ اب امیر خسرووہ جوتیاں سرپررکھ کرجارہے ہیں۔امیرخسرومرشد کی بارگاہ میں حاضرہوا اورامیرخسرویہ چاہتا تھا کہ وہ مرشد کوبتائے کہ آپ کی جوتیوں کی مجھے کتنی قدر ہے کہ میں نے اپنا سارامال دےکرآپ کی جوتیاں لےلیں۔ یہ ابھی کہنے ہی والا تھاکہ نظام الدین اولیاء نے امیرخسروکوکہا کہ تمہیں یہ جوتیاں سستی مل گئی ہیں۔ یہ ہستیاں ہیں۔ اب وہ جومغرب کی طرف ہے وہاں اللہ نے تھوڑا کاروبار کارُخ جاری رکھا۔ کبھی وہاں سے سرمت کوبھیج دیا اورکبھی وہاں سے شاہ کمال کیتلیؒ کو بھیج دیا۔ شاہ کمال کیتلیؒ روحانیت میں شیخ عبدالقادرجیلانی کے ہم پلہ تھے۔ سچل سرمست اورلال شہباز قلندر یہ وہ ہستیاں تھی جن کاوسیلےاورنبوت سےکوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اللہ سے بلاواسطے کاتعلق تھا۔ ہم نے توصرف قرآن میں سابقون کا پڑھا ہے لیکن یہ مغربین کے لوگ ہیں۔ یہ اللہ کے علاوہ کسی کونہیں جانتے۔ مشرق والوں کاسردارشیخ عبدالقادر جیلانی کوبنایا اورمغرب والوں کا سردار اللہ نےلال شہباز قلندرکوبنایا۔ ایک اللہ کےحُسن کا شاہکارمشرق میں آیا ہے وہ محمدالرسول اللہ کی ذات ہے اوردوسری طرف مغرب میں اللہ تعالی کا نمائندہ لال شہباز قلندر ہیں۔ ہندو بھی لال شہباز قلندر کومانتے ہیں اورمسلمانوں کوماننا پڑا کیونکہ وہ سندھ میں تھے۔ اگرسندھ ہندوستان میں ہی رہ جاتا توپھرکوئی بھی مسلمان لال شہباز قلندر کے مزارپرنہیں جاتا کیونکہ لال شہباز قلندرکی ساری باتیں عشق کی ہیں۔ کوئی پیاراور محبت سے اُن کو پکارے تووہ اُن پرکرم کرتے ہیں اوریہ نہیں دیکھتے کہ یہ ہندو ہے یا سِکھ ہے۔

اللہ تعالی کی نعمتوں کا قرآن میں تذکرہ:

جب سرکارگوھرشاہی تشریف لائے ہیں توآپ نےتوکمال ہی کردیا۔ یہ جوامام مہدیؑ کی ذات آئی ہے ان کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ

امام مہدی کے ایک پاؤں میں جلال ہوگا اوردوسرے میں جمال ہوگا۔

اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کوئی نام ہوگا یا اُس کاجلالی اورجمالی نورہوگابلکہ اس کامطلب تھا کہ اُن کے دومشرب ہونگے ایک مغرب والا اورایک مشرق والا۔ ایک مشرب اللہ کی محبت وفقروعشق کی دعوت دے گا اوردوسرا مغرب کی طرف بلائے گا کہ آجاؤ اُس ذات میں ضم ہوجاؤ۔ یہ دو رُخ ہوگئے رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ۔ اُس کےبعد اللہ نےقرآن مجید میں فرمایا کہ

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
سورۃ الرحمن آیت نمبر13

تمہارے لئے اپنے دونوں گھرکھول دیے تواب بھی تم اس کی نعمتوں کوجھٹلاؤ گے۔ یہ تربوز، روٹی کانوالا، کپڑے،پانی اوریہ زندگی نعمت نہیں ہے بلکہ نعمت وہ عشق کا نظارہ ہے جس میں تم کھوجاؤ تو نہ اپنا پتہ چلے اورنہ اُس کاپتہ چلے۔ اللہ کی نظرمیں نعمت ایک ہی شے کانام ہے وہ نعمت یہ ہے کہ اللہ کودیکھنا اوراُس میں گم ہوجانا۔ اسی لئے اللہ تعالی نے ان کانام ہی یہی رکھا کہ

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
سورۃ الفاتحۃ آیت نمبر7
ترجمہ: اُن لوگوں کےراستے پرچلو جن کومیں نےاپنی نعمت سےنوازا ہے۔

یہ نعمت کھانے پینے یا سونے چاندی کی نہیں ہے بلکہ وہ نعمت اپنے نظارے،دیدار،عشق، محبت اوراپنے فقرکی ہے۔ اب یہ ایک نعمت ہوگئی لیکن قرآن مجید میں ہے کہ اُس کی کون کونسی نعمت کوجھٹلاوؐ گے۔ کبھی تمہارے پاس غوثِ اعظم آئے،کبھی محمدﷺکی ذات بھیجی،کبھی حسین آئے،کبھی مولا علی آئے، کبھی لال شہبازقلندراوراب سیدناگوھرشاہی آگئے۔ مغرب کی کہانی بازی گروں کاکام ہے جوعشق کی بازی لگادیں۔ یہ تخمینہ سازوں کیلئے نہیں ہے۔ صرف دیدارکرنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہاں توجان کاخطرہ ہے کیونکہ اپنی ہستی کومٹانا پڑتا ہے اوریومِ ازل تک کی کہانی مٹ جاتی ہے۔ اُس کاوجود غائب ہوگیا اوراُس کےوجود پرکسی اورکاعکس چڑھ گیا۔ یہ حقیقت میں فنا ہے۔ جو تصوف میں فنا ہے وہ لطیفہ نفس، قلب اورروح کے جثوں کی فنا ہے لیکن یہ لطیفہ روح کی فنا ہے کیونکہ مغرب کی تعلیم میں روح ختم ہوجاتی ہے حالانکہ روح اللہ کاامرہےلیکن ختم ہوجاتی ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 2 ستمبر 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس