کیٹیگری: مضامین

اللہ کے بارے میں بہت سے نکات ایسے ہیں جنکا ہر اُس شخص کو جاننا ضروری ہے جو طالبِ مولا ہے خواہ اسکا مذہب کوئی بھی ہو۔کیونکہ جتنے بھی مذاہب آئے ہیں دنیا میں سب کا مقصد انسانوں کو اللہ سے ملانا ہے اب یہ الگ بات ہے کہ کسی مذہب کی پہنچ اللہ کے صفات تک ہو گئی کسی کی اور زیادہ قریبی صفات تک ہو گئی اورحضورﷺ کی ذات کے ذریعے انسان اللہ کی ذات تک پہنچ گیا لیکن بحیثیت مجموعی تمام مذاہب کامقصد ایک ہی ہے۔ملتِ ابراہیم میں ابراہیم ؑسے لیکر موسی ؑتک جتنے بھی مرسل آئے ہیں،جتنے بھی نبی آئے ہیں وہ سب ملتِ ابراہیم کہلاتے ہیں۔ابراہیم ؑاور موسی ؑاولوالعزم مرسل تھےاورپھرآپ کی نسل سے بیچ میں بہت سے انبیا کرا م آئے ہیں اسحاق جو کہ ابراہیم ؑ کے فرزند تھے ،اسکے بعد یعقوب ؑ،یوسف ؑ،بہت سارے یہ سب ملتِ ابرہیم ہے۔انکا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگ اللہ تک پہنچیں۔اللہ تک پہنچنے کےلئے دو چیزیں بڑی اہم ہیں ایک تو انسان کا صحیح اعتقاداللہ کی ذات اور صفات کے بارے میں وہ درست ہوناچاہیے اور اسکے بعدمرشد ِکامل کا ہونا ،راہ ِطریقت میں چلنا ،باطنی علوم کے ذریعے اللہ کی ذات تک رسائی حاصل کرنا۔صراط مستقیم جسے ہم کہتے ہیں وہ انسان کے قلب سے شروع ہوتی ہےاور عرش الہی تک جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے پوری انسانیت کو خطاب کیااور فرمایا کہ

’’ اے بنی آدم! تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اسکی اصلاح ہو جائے تو پورے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور اگر وہیں فساد ہو تو پورا جسم فساد میں مبتلا ہے یا درکھ کہ وہ تیرا قلب ہے‘‘

جب کسی مذہب میں روحانی تعلیم کو نظر انداز کیا گیا ،بُھلا دیا گیا،اور وہ اُس مذہب کے ماننے والوں کے عمل میں نہیں رہی تو لوگ صراط ِمستقیم سےعاری ہو گئےاور صرف ظاہری تعلیم میں ہی لگے رہےاور جب باطنی علم مذاہب سے نکل گیا تو وہ مذہب تباہ ہو گیا۔یہی حال آدم صفی اللہ کی تعلیمات کا ہوا تھا،یہ جو ہندو مت ہے،سناتن دھرما،یہ ہندو مت کے دین کی ہی ایک کڑی ہے،اسکی بگڑی ہوئی شکل ہے۔بہت ساری چیزیں درست ہیں لیکن اس دین کے جو پیروکار ہیں ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ جو درست چیزیں وہ لوگ کر رہے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں اوران سےحاصل کیا ہونا چاہیے،رسم اور رواج رہ گیا ہے۔

ذات محمدﷺ کا حقیقی تعارف:

اس دنیا میں نبی کریم ﷺایک ایسی ہستی گزری ہیں جن کا وجود نرالاہے۔آدم صفی اللہ کو تو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا لیکن محمد ﷺ کے جسم مبارک کو اللہ نے نور سے بنایا۔جن انبیا کو جنت کی مٹی سے بنایااور پھر ماں کے پیٹ سے جنم لیا تو ان انبیا کے جسم میں والدین کے خون کی آمیزش ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کہ جسم ِمسعود کی یہ شان ہے کہ شاید دیگر جو انبیا گزرے ہیں انکی روح میں اتنی نورانیت نہ ہو جتنی حضور ﷺکے جسم ِمبارک میں ہے۔عام آدمی کے لئے تو قرآن مجید نے کہا کہ ہم نے اسکوایک گندے قطرے سے بنایا۔گندے قطرے سے مراد کیا ہے کہ وہ گندا قطرہ گوندھنے میں کام آیا،کسی کو خون کے قطرے سے بنایا ،کسی کو کھنکھارتی ہوئی مٹی ڈال کے بنایا۔حضور ﷺ کی جو ارضی اروح ہیں انکو گوندھنے کے لیئے اللہ تعالی نے نور کا استعمال کیااور پھر جب تک میں آپ کے سامنے حضور کا تعارف ء پیش نہیں کروں گا تب تک آپ قرآن کی ان باتو ں سے صحیح مطلب اخذ نہیں کر پائیں گے جو باتیں اللہ تعالی نے انبیا کرام کے لیئے قر آن میں کہی ہیں جیسا کہ ایک آیت ہے کہ” جتنے بھی ہم نے نبی بھیجے ہیں ہم ان میں سے کسی میں بھی ہم فرق نہیں رکھتے ہیں سب ہماری نظر میں برابر ہیں“۔لیکن اب آپ کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ اللہ کانقطہ نظر کیا ہے ؟ لہذا جب نبوت کی بات آتی ہے تو نبوت کے طور پر نبوت سب کی ایک جیسی ہے لیکن نبوت سے ہٹ کراللہ نے حضور ﷺ کی ذات میں اضافی چیزیں جو رکھی ہیں وہ آپ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ٹھیک ہے بھئی نبیوں میں تو فرق نہیں رکھ رہے آپ لیکن بات کو سوچیں کہ اللہ تعالی نے بطور ِنبی کہا ہے۔اگرایسی بات ہی ہوتی جیسی وہابی اور دیو بندی سمجھ گئے کہ یہ سارے نبی برابر ہیں حضور کی کوئی شان زیادہ نہیں ہے (معاذ اللہ) تو کسی نبی کے لیئے اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
سورۃ الانبیاء آیت نمبر 107
ترجمہ : اے محمدؐ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔

حضور پاکؐ رسول بھی ہیں اور نبی بھی:

نبوت اگر تمام انبیاء کی برابر ہے تو کسی اور نبی کو تواللہ تعالی معراج شریف پر نہیں لے کر گئے۔ تو مجھے دیکھ لے، میں تجھے دیکھ لوں ،یہاں یہ باتیں سمجھنا ضروری ہے۔حضور ﷺ نا صرف یہ کہ نبی بلکہ مرسل بھی ہیں،عام مسلمان کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ نبی اور مرسل میں کیا فرق ہے،اور جو خاص مسلمان جن کو ہم علماءدین کہتے ہیں ان کو لفاظی کے علاوہ کچھ حقیقت کا پتانہیں ہےلیکن حضور کے پاس نبوت اور رسالت دونوں کے دفاتر ہیں اورحضور ؐ کے تشریف لے جانے کے بعد اِس دنیا میں نبوت اور رسالت دونوں کا اختتام ہو گیا۔حضور ؐآخری نبی بھی ہیں اور آخری رسول بھی ہیں آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حضور کے بعد کوئی نبی یا رسول آسکتا ہے تو پھر وہ کافر ہے۔اب حضور ؐ کے لئے دو طرح کی وحی کی صورتیں ہو گئیں ایک بطور رسول اور دوسری بطور نبی۔اب جووحی بطور ِرسول آئی ہے وہ آج ہمارے پاس قرآن شریف کی صورت میں موجود ہے۔حضورؐ سے پہلے جو نبی آتے تھے وہ کیوں آتے تھے؟دین قائم کرنارسول کا کام ہے نبی کا نہیں۔اب ایک اولوالعزم رسول آیا اس نے دین قائم کیا اسکے بعد جب اس دین میں لوگ کوئی گڑ بڑ کرتےتو اللہ نبی کو بھیجتااور اس پر صحیفہ اتارتا اور صحیفے کے ذریعے وہ نبی اس دین کو دوبارہ صحیح کرتا۔اب حضورؐ آخری نبی ہیں اور آخری رسول بھی ہیں تو حضور پر بطورِ نبی جو وحی آئے گی وہ تب ہی استعمال ہو گی جب دین میں گڑ بڑ ہو گی۔تو حضورؐ نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں۔جب حضورؐ رسول ہیں تواللہ نے نبوت کیوں دی؟اسلیئے کہ آخری ہیں، آپ کے بعد کسی کو آنا نہیں ہے تو اس لیئے رسالت کے ساتھ ساتھ آپ کو نبوت بھی عطاہوئی۔لیکن نبوت کا کام بعد میں ہو گاابھی رسالت کا کام تھا۔تو بطور ِرسول اللہ تعالی نے دین اسلام کو قائم کرنے کے لیئے وحی نازل کی اور بطور ِنبی اس دین میں جب گڑ بڑ ہو جائے گی اسکے لیئے وحی نازل ہوئی۔
دین اسلام تو تازہ تازہ آیا تھا اُس وقت تو ضرورت نہیں تھی لہذااس وحی کو باطن میں جمع کر کے رکھااور اسکے بعدجو ولیوں کا سلسلہ شروع ہوا اُس نبوت کا جو فیض تھا وہ ان علمائے حق کو ہواانہوں نے دین میں آکر تجدید کی۔باطنی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ جس طریقے سے امام الہندجو گزرے ہیں احمد سرہندی مجدد الف ثانی،اِن کو حضور ﷺ کی رسالت کا فیض نہیں ہوا یہ موسوی مشرب کے تھےفیض ِمحمدی نہیں ہوا،ان کو بطور ِ نبی فیض ہوا کیونکہ ان کو مجدد بنانا تھا ۔مشرب تبدیل تو ہوا لیکن وحی رسالت کا نہیں وحی نبوت کا ہوا۔تو ایک وحی تو رسالت کی تھی جس کے ذریعے دین قائم ہوااور ایک وحی نبوت کی تھی جسکا اس وقت کام نہیں تھا کیونکہ دین صحیح ہے ،اسکو بچا کے رکھتے ہیں اسکا استعمال تب ہو گا جب اسکی ضرورت ہو گی ۔وہ جو مجددوں کو یہ طاقت دی کہ تم دین میں جب گڑ بڑ ہو جائے تو تجدید کرناوہ اُس نبوت کے فیض سے تھی وہ علم سینہ مصطفٰی میں ساکت رہا۔اب جب حضور نے یہ فرمایا کہ انامدینۃ علم و علی بابھا‘شہراس لیئے کہتے ہیں اسکو کہ جب علوم ایک سے زیادہ ہوں۔کچھ لوگوں کو حضور سے بطور رسول فیض ہوااور کچھ کو بطور نبی فیض ہوا۔جو بطور نبی فیض ہواوہ اُس دورکے لیئے تھا کہ جب دین میں گڑ بڑ پیدا ہو گی تو اُس فیض کے ذریعے دین کو سنوارا جا ئے گا۔ مجدد الف ثانی ۔ثانی کا مطلب ہے دوسرا اور الف کا مطلب ہے ہزار یعنی یہ دوسرا مجدد ہے اور وہ ہے جو ہزار سال بعد آیا ہے ۔توصحائف پر مبنی نبوت کا جو فیض تھا جس سے رسالت کے فیض میں ہوئی گڑ بڑ کو درست کرنا تھا وہ فیض مجدد کوتھوڑاہی ملا ،سارا کا سارا علم محفوظ رہااور وہ سارا کا سارا فیض امام مہدی کو منتقل ہو گیا۔حدیث میں آیا کہ

”دین جب ختم ہو جائے گا تو امام مہدی نئے سرے سے دین کی اِس طرح افتتاح کریں گے جس طرح محمد رسول اللہ نے کی تھی “

تو یہ جو دو چیزیں حضور کی ذات سے منسلک ہوئیں ایک نبوت اور ایک رسالت ،ایک ہی بات تو نہیں ہے کہ نبی بھی کہہ دو اور رسول بھی کہہ دو۔حضورﷺ نے بذات خود مرتبہ رسالت نبھایا،مرتبہ نبوت نبھانا ہوا نہیں کیونکہ مرتبہ نبوت تب آئے گا جب رسالت میں گڑ بڑ ہو گی۔پھر جن کو حضور ﷺ نے فیض ِنبوت دیا ان علماء کے لیئے کہا کہ میری امت کے جو علمائے حق ہوں گے وہ بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہوں گےکیونکہ میں ان کوفیض ِنبوت دے جا رہا ہوں جب گڑ بڑ ہو گی تو یہ تصحیح کریں گے۔کیسے علما تھے وہ !!! داتا علی ہجویری جیسے عالم حق،خواجہ غریب نواز جیسے عالم حق۔یہ وہ علماءہیں جنہوں نے حضور ﷺ کا فیضان نبوت پایا۔اب ایک مرتبہ تو رسالت کا ہو گیا اور ایک مرتبہ نبوت کاہو گیااور یہ دونوں چیزیں روحانیت کے بغیر سمجھی نہیں جا سکتیں۔

فقر اور عشق کا ملاپ:

اسکے بعد حضور ﷺ کو ایک چیز اور بھی دی ،آپ ﷺ کا فرمان ہے کہالفقر و فخری والفقرو منی کہ یہ جوعلم فقر ہے مجھے اس پر فخر ہے۔اب فقر کیا ہے ؟وہ ایک اضافی روح ہے ۔وہ اضافی روح کہاں سے آئی ہے؟ایک دفعہ اللہ نے سوچا کہ دیکھوں میں کیسا ہوں،کتنا حسین ہوں تو اس کا عکس ظاہر ہو گیا اس عکس کے اوپر اللہ عاشق ہو گیااوراس عکس کےاوپر جب عاشق ہوا تو فرط ِجذبات میں سات دفعہ جنبش کھائی،ہر جنبش پر نور اچھٹ اچھٹ کر گرااور مجسم ہوااورایک روح بن گئی وہ روح طفل نوری کہلائی ،وہ روح حضور کے اندر اضافی موجود تھی۔وہ جو روح ہوئی وہ اللہ کی تصویر تھی وہ وجود جس میں آجائےاسکو سلطان الفقرا ءکہتے ہیں۔پھر ایک اور اضافی مخلوق جسّہ الہی،اب یہ جو جسّہ الہی ہے یہ اللہ کے وجود جیسا ایک وجود ہے۔اللہ یہ اضافی روح انکو عطا کرتا ہے جنکو عشق کی معراج عطا کرے ۔فقر اور عشق ایک جگہ رہتے نہیں لیکن حضور میں جمع کر دئیے۔اب جب حضو ر میں جمع کر دئیے تو حضور نے کسی کو فقر کی تعلیم دی اورکسی کو عشق کی تعلیم دی۔کسی کو باطنی تعلیم دی اور کسی کو دین کی تعلیم دی ،اب وہ آپس میں لڑنے لگے ۔ایک کہنے لگا کہ بھئی سجدے میں ہی سب کچھ مل گیا مجھے دوسرا کہنے لگا نہیں ،نماز نہیں پڑھی جس نے وہ کافر ہے ۔تیسرا کہنے لگا اللہ کونہیں دیکھا تو کافر ہے نماز تو سبھی پڑھتے ہیں ۔ہر آدمی ویسا ہی بول رہا ہے جیسا اسکو فیض ملا۔آپس میں تلواریں نکل گئیں دو گروہ تو خاص بن گئے۔ایک تو وہ جنکو فقر کافیض ہوااور ایک وہ جنکو عشق کا فیض ہوا۔حضرت علی کو فقر کافیض ہوااور اویس قرنی کو عشق کافیض ہوا ۔
یہ ساری چیزیں جو میں نے بتائیں کہ طفل نوری بھی موجود ہے،عشق بھی انکو عطا ہو گیا۔محمد ؐ کاجسم نور سے بنا ہواہے اور ان کی روح ِاحمد کا مقام ،مقام ِوحدت ہے۔اللہ کا مقام احدیت اور اسکے سامنے کا جو علاقہ ہے وہ مقام وحدت کہلاتا ہے۔انکی روح وہاں مقیم جب سے وہ روح تخلیق ہوئی اللہ کا دیدار کر رہی ہے ۔جب سے روح وہ تخلیق ہوئی تو وہ اللہ کے دیدار میں اور اللہ اسکےدیدار میں اللہ یااحمد کہتا ہے وہ یا اللہ کہتی ہے یہی سلسلہ جاری ہے۔حضور کے سر کا جو لطیفہ تھا انااس کے لیئے ایک اور مقام برابر میں موجود مقام محمود ،اسکو مقام محمود اسی لیئے کہتے ہیں کہ حضور کے لطیفہ انا کا نام محمود ہے۔آ پ نے سنا ہو گا لوگوں سے کہ حضور کا ایک نا م محمود ہے ایک نام حامد ہے یہ سارے ان کے نام نہیں یہ ان کےاندر مخلوقوں کے نا م ہیں۔حامد انکے لطیفہ اخفی کا نام ہے ،احمد انکی روح مبارک کا نام ہے ،محمود انکے لطیفہ انا کا نام ہے اور محمدؐ انکے جسم مبارک کا نام ہے۔اب یہ اتنی ساری چیزیں جسم محمد ؐ میں اکھٹی ہو گئیں اور فیض مسلمانوں کو کیا ملاکہ آج در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔کیوں کھا رہے ہیں؟اس لیے کہ تمہارے اسلام سے محمد رسول اللہ کو نکال دیاگیا۔جب تمہارے اسلام میں یہ آگیا کہ حضور کا نام نہ چومو یہ شرک ہے،حضور کی عید میلاد النبی نہ مناؤ یہ بدعت ہے ،حضور کی نعتیں نہ پڑھویہ سب شرک ہے تو تمہارا اسلام فیض سے،ہدایت سے خالی ہو گیا۔
بمصطفی با رساں خیش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بو نا رسیدی تمام بو لہبی ایست

کہ تو مصطفی تک رسائی حاصل کر لے کہ وہی تو سراپا دین ہے دین اسلام کا اگر کُلی طور پر وجود ہے تو وجود مصطفی ہے ان سے دور ہو گیا تواسلام تو رہا ہی نہیں۔آپ کے سینے جب عشق مصطفی سے خالی ہو گئے تو وہاں شیطان کا بسیرا ہو گیا۔کوئی پھر شیعہ بن گیا،سنی بن گیا،بریلوی بن گیا،وہابی بن گیا سلفی بن گیا،امت مصطفی کہاں رہی۔کوئی کہتا ہے کہ میں حضور کا امتی ہوں۔حضور کے دور میں تو یہ سب نہیں تھا۔انسان حضور ؐ کی ذات ِوالا کتنا کچھ حاصل کر سکتا تھااور جنہوں نے حضور کی ذات تک رسائی حاصل کر لی وہ پہنچ گئے۔بلھے شاہ نے کہا
لوکی پنج ویلے عاشق ہر ویلے ۔۔۔۔۔لوکی مسیتی عاشق قدماں
لوگ پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھتے ہیں نماز بھی رب کی یاد ہی ہے۔تو عام لوگوں کی کیا منزل ہو گئی پانچ وقت نماز پڑھ لیں گے بس اسکے بعد کہا لوگوں کی معراج یہ ہے کہ مسجد تک چلے جائیں گے لیکن عاشق قدماں ۔عاشق جو ہوتے ہیں وہ تو حضور کے قدموں تک پہنچ گئےاور نوازے گئے۔اب دین اسلام کا نام رہ گیا جب حضور کی ذات دین اسلام سے نکل گئی۔ اب مسلمان ذلیل و رسوا ہو رہا ہے ایسے ایسے عیب مسلمانو ں میں آگئے کہ جن کو دیکھ کر آپ کانپ جائیں،دین کا بیڑہ غرق کر دیا،ملک کا بیڑہ غرق کر دیا،انسانیت سوز مظالم دیکھنے کوملتے ہیں ۔ایک نئی کہانی چلا دی ،کسی پر شرک کا فتویٰ لگادیا کسی پر بدعت کا،اسلا م اور قرآن و سنت کی اصل تعلیم کاایسا چلیپا کیا،دین اسلام کی حقیقت کوملیامیٹ کر دیا کہ آج امت انتشار کا شکار ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ کی رسائی حضورؐ تک نہیں رہی اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جو حضور کے عشق کے دعوےدار ہیں انکے سینے بھی کالے ،ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جو ولایت کے دعوے دار ہیں جو صوفی ہونے کا دعوی کرنے والے ہیں انکے سینوں میں بھی سوائے سیاہی کے ،شرک کے ،شیطانی اور غلاظت کے سوا کچھ باقی نہیں ہے ۔نور سینوں سے نکل گیا اوراب سیاہی کا راج ہے۔اسلام کے لیئے قرآن نے سورۃ الشعرا میں ایک پورا جامع فارمولا بیان کیاہے

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ۔
سورۃ الزمر آیت نمبر 22

کہ تم مسلمان بننا چاہتے ہو تو اسلام کے لیئےشرح صدر کرو۔شرح صدرسینے میں جو پانچ مخلوقیں ہیں انکو بیدار کرنا شرح صدر ہے۔یہاں باطنی علم کی طرف اشارہ ہے۔ آج آپ نے سنا ہے کبھی کسی کو مسلمان کوکہتے ہوئےکہ میں کہا ں سے شرح صدر کروں۔مولویو ں نے اُن کو بیوقوف بنایا ہوا ہے کہ یہ آیت پڑھ لو،یہ وظیفہ کر لو شرح صدر ہو جائے گی۔یہ سارے وظیفے اور ساری چیزیں موسی ؑ کو بھی پتا تھیں اسکے باوجود وہ اللہ سے دعا کیوں کرتے تھے کہ میری شرح صدر کا علم مجھے عطا فرما۔
اب آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ جو نئی نئی کہانیاں اولیاء کرا م نے لوگوں کو سنائیں کہ جی یہ بھی علم ہے یہ بھی علم ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ یہ کیا بول رہے ہیں درویش ،یہ تو قرآن کا حصہ ہے ہی نہیں۔بلھے شاہ نے کچھ اور کہانی سنادی،داتا صاحب نے ایک اور کہانی سنا دی یہ سب کیا ہے؟یہ تو کسی حدیث میں نہیں لکھا۔حدیث میں اس لیئے نہیں لکھا کیوں کہ یہ قرآن ہے۔جو داتا صاحب نے کہا پنجابی میں یا فارسی میں ،وہ بھی قرآن تھا جو خواجہ غریب نواز نے کہا،نظام الدین نے کہا وہ بھی قرآن تھا۔بھئی قرآن تو وہ ہی ہوتا ہے نا جو حضور کے اوپر آیا ہو کیا نظام الدین پربھی قرآن آیا تھا؟نہیں نظام الدین پر قرآن نہیں آیا تھاحضور کو جو فیض نبوت ملا تھا رسالت میں ہونی والی گڑ بڑکو دور کرنے کے لیئے،اس وقت تو گڑ بڑ ہوئی نہیں تھی،جب وہ فیض آیا تھا وہ فیض نبوت سنبھال کے رکھا پھر جسکو دیا وہ داتا اور خواجہ بنتا گیا۔انہوں نے پھر اُمت کے سینے منور کیے جیسےخواجہ غریب نواز نے نوے لاکھ ہندؤں کو ہندوستان میں مسلمان کیا ۔یہ جو تبلیغی جماعت والے جاتے ہیں کتنے بڑے بڑے ان کے جتھے جاتےہیں کتنا اسلام پھیلایاانہوں نے، اکیلے خواجہ غریب نواز نے نوے لاکھ لوگوں کو مسلمان کیا ۔اورایسا مسلمان نہیں کیا کہ بم باندھ کے معصوم لوگوں کی جان لیتا ہے بلکہ ایسا مسلمان کیا جیسے امیر خسرو تھے ،نظام الدین اولیاء تھے۔ایسامسلمان کیاکہ جنکے زبان پہ بھی کلمہ تھااور دلوں میں بھی نور تھا۔نبوت والی وحی تو چھپی رہی نا جب ضرورت پڑنا شروع ہوئی تو پھر وہ سامنے آئی اسی لیئے آپ نے دیکھا کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی کہا کہ میری یہ جو شاعری ہے یہ قرآن کی آیتیں ہیں،اسی طرح مولانا روم نے بھی کہا کہ ہست قرآن در زبان پہلوی،کہ اسکو مثنوی روم نا کہو یہ تو فارسی کا قرآن ہے ،تبھی کہا نا کہ وہ قرآن تھا ورنہ ولی جھوٹ کہاں بولتا ہے ۔حضور پاکؐ نے فرمایا کہ جھوٹا میرا امتی نہیں تو ولی کیسے ہو گیا۔آج ہم جو یہ کہتے ہیں کہ تمہارااسلام ختم ہو گیا تو لوگ کہتے ہیں کہ کہا ں ختم ہوا ،مسجدیں تو بھری ہوئی ہیں ۔مسجدیں تو سوروں سے بھری ہوئی ہیں یہ جو داڑھیاں رکھ کےازانیں دے رہے ہیں وہ تم کو انسان نظر آتے ہیں وہ تو سُور ہیں جنہوں نے اللہ کے گھر کو بازار بنا دیا ہے جو اللہ اور رسول کے نام پرالزام اور بہتان لگاتے ہیں
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا

انکی تو گردنیں جھک رہی ہیں انکے نفس تو اکڑے ہوئے ہیں۔ان کے نفس تو وہ ہیں جو محمد رسول اللہ کے عظمت کے آگے اکڑے ہوئے ہیں ۔اتنی اکڑ ہے ان میں کہ محمد رسول اللہ کی عظمت برداشت نہیں ہوتی ان لوگوں سے ،کسی ولی کے آگے یہ اپنا سر خم نہیں کرتے ،یہ تو وہی ابلیس ہیں کہ جب ابلیس کو حکم دیا اللہ نےکہ یہ میں نے آدم صفی اللہ کا پتلا بنایا ہے اسکی تعظیم میں جھک جاؤ،سب جھک گئے ابلیس نہیں جھکا ،اللہ نے کہا کہ بھئی تو کیوں نہیں جھکا ،تو اس نے کہا کہ انامن الناروھو من التین ، ا نا خیر من ھواسکو مٹی سے بنایا تو نے اور مجھے نار آگ سے بنایا ہے اور تو مجھے کہہ رہا ہے کہ آگ مٹی کے آگے جھک جائے۔وہ آدم کے آگے نہیں جھکا تو ابلیس ہو گیا لعنت کا طوق پڑ گیا۔ آج یہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جب محمدرسول اللہ کی عظمت کے آگے نہیں جھکیں گے تو کیا یہ ابلیس سے کم ہوں گے ۔جو آدم کے آگے نا جھکے تو وہ ابلیس بن جائے اور یہ حضورؐ کو اپنا بڑا بھائی کہیں اور پھر بھی یہ سچے مسلمان کہلاتے رہیں ایسا کیسے ممکن ہے !!!

متعلقہ پوسٹس