کیٹیگری: مضامین

صدقِ دل کیا ہے؟

ہمارے جسم میں دل کے اوپر ایک روح خفتہ حالت میں بیٹھی ہوئی ہےاس روح کو لطیفہ قلب کہتے ہیں۔زبان کو بلوانے کیلئے ایک روح لطیفہ اخفٰی ہے۔ جب لطیفہ اخفٰی والی روح بیدار ہوتی ہے تو زبان کلام کرتی ہے۔اسی طرح دل کو بیدار کرنے کیلئے ہمیں لطیفہ قلب کو بیدار کرنا ہے۔اب ہم پیدائشی طور پر مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ جب ہم اسلام پر چلیں گے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ ہم اپنے آپ کو صرف پیدائشی مسلمان سمجھتے ہیں لہٰذا کبھی اسلام سے متعارف نہیں ہوئے۔ حدیثِ نبوی میں ہے کہ

اقرار باللسان وتصدیق با لقلب
ترجمہ: زبان اقرار کرے اور دل اس کی تصدیق کرے۔

ہم نے زبان سے تو اقرار کرلیا ہے لیکن دل کا صدق کہاں سے لائیں گے۔ مسلمان کہتے ہیں کہ بس سچے دل سے مانگ لو۔ سچے دل کا مطلب ہے کہ تم دھوکہ نہیں دے رہے اور ایمانداری کے ساتھ سچی طلب کررہے ہو۔ایک تو یہ ہے کہ ہم ڈرامے بازی کررہے ہیں کہ ہمارے پاؤں میں تکلیف نہیں ہے لیکن ہماری تکلیف سے آہیں نکل رہی ہیں ، یہ ڈرامے بازی ہے اور ایک حقیقت میں تکلیف ہوتی ہے۔ ہم نے اسی کو صدقِ دل سے تعبیر کیا ہوا ہے کہ سچ مانو مجھے واقعی میں تکلیف ہے۔ ہم نے اسی کو وہاں بھی سمجھا ہے کہ جب میں نے زبان سےلا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِکہا تھا تو میں سچے دل سے کہہ رہا تھا یعنی میری کوئی اور نیت نہیں تھی بلکہ میں واقعی ہی اللہ رسول کو مانتا ہوں لیکن صدقِ دل کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ صدقِ دل کا مطلب ہے کہ جو اللہ اور رسول کے نام کا اقرار زبان نے کیا ہےاب اس کا صدق قلب میں جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے نام کا نور قلب میں جائے ۔ جب زبان اللہ کرے تو اس کا نور قلب میں ہو۔زبان اللہ اللہ کرتی رہے اور قلب میں نور نہ جائے تو یہ ریاکاری ہے۔

اسلام کی بنیاد کس پرہے؟

صدقِ قلب کو حاصل کرنا ہماری ضرورت ہے کیونکہ یہ نماز کا اہم ترین جز ہے۔ صدقِ قلب نماز کی روح ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ

لا صلوۃ الا بحضور القلب
ترجمہ: قلب کی حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

اب اگر آپ نے نمازوں کو اللہ کی بارگاہ تک پہنچانا ہے تو صدقِ قلب حاصل کریں۔اس لئے ذکرِ قلب ضروری ہوتا ہے۔ دل ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جس کے اوپر ایک روح “لطیفہ قلب” ہے۔اس کے حوالے سے حدیث میں ہے کہ

قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: الا وان فی الجسد مضغة،اذا صلحت صلح الجسد کلہ ، واذافسدت فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب
السنن ابن ماجہ باب مایرجی من رحمتہ اللہ 328/2
ترجمہ:اے بنی آدم ! تیرے جسم میں ایک ایسا گوشت کا لوتھڑا ہے کہ اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو پورے جسم کی اصلاح ہوجاتی ہےاور اگر وہ ہی فساد میں مبتلا رہ جائے تو پورا جسم فساد میں مبتلا رہ جاتا ہے ،یاد رکھ وہ تیرا قلب ہے۔

یہ ہمارے اسلام کی بنیاد ہے۔قرآن مجید فرماتا ہےکہ

وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ
سورۃ العادیات آیت نمبر 10

اللہ تعالٰی یومِ محشر میں پوچھے گا کہ جو لطیفے تمہارے اندر رکھے تھے ان کا تم نے کیا کِیاہے۔وہ لطیفے نکال کر دیکھے جائیں گے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورۃ الشعراء آیت نمبر89-88
ترجمہ:اس روز مال اور بیٹے کام نہیں آئیں گے۔کامیاب وہ ہی ہوگا جو قلبِ سلیم لایا۔

قلب کیسے زندہ ہوتا ہے؟

اس کے دو حصے ہیں:
1-عبد البشر: اس کا مطلب ہے کہ عبادت کے ذریعے۔
2۔ نظر البشر: اس کا مطلب ہے کہ نظر کے ذریعے۔
دل کا کام خون کو صاف کرنا ہے۔اللہ کا خیال ہے کہ جب دل خون کو صاف کرتا ہے تواس میں آکسیجن جاتی ہےاورعین اس وقت خون میں اللہ کا نور بھی جائے۔ دل میں آکسیجن تو جارہی ہے لیکن اللہ کا نور ہمیں بنانا پڑے گا۔ ہمارا دل دھڑکتا ہے تو سینے میں دھک دھک کی آواز آتی ہے۔ ان دھڑکنوں کو ہمیں اللہ اللہ کروانا ہے، ایک دھڑکن کواللہاورایک کوھو۔ مرشدِ کامل اپنی نظروں سے ہمارے دل کی دھڑکنوں کو “اللہ ھو” کرواتا ہے۔جب اللہ ھو کا رگڑا لگتا ہے تو نور بننا شروع ہوجاتا ہے۔ جب اللہ کا نور دل کے گرد پھیلتا ہے تودل کےاوپر سویا ہوا لطیفہ قلب نور پہنچنے سے بیدار ہوجاتا ہے۔اس موقع پر اگر تم سرکار گوھر شاہی سے ملنے آئے تھے اور ذاکرِ قلبی بن رہے تھے تو اس موقع پر لطیفہ قلب انتظار کرے گا کہ کب تمہارے پورے نظام میں خون بسےاور کب لطیفہ قلب اللہ اللہ کرنا شروع کرے۔یہ بہت کم رفتار سے ہوتا ہے لیکن اگر تم نے سرکار گوھر شاہی کے دور میں سرکار سے ذکر لیا تو سرکارگوھرشاہی نے ایک طرف تمہاری دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگایا اور دل کے اوپر مخلوق لطیفہ قلب کو بھی کہا کہ تم بھی کہہ دو اللہ ایک ہے۔اس سے تمہارا دل بھی اللہ اللہ میں لگ گیا اور تمہارا لطیفہ قلب بھی اللہ اللہ میں لگ گیا۔پھراس قلب کے ذریعے کہا کہ تم صراطِ مستقیم کی طرف اوپر جاؤ تاکہ تمہارا تعلق رب سے جڑے اور دل کے ذکر کو نیچے لطیفہ نفس کو پاک کرنے کیلئے بھیج دیا تاکہ تمہارا تزکیہ نفس یہی پر ہو جائے۔یہ جدید طریقہ ہے۔ ان دھڑکنوں میں اللہ ھو کا شامل ہوجانا ذکرِ دل ہےاور نظرِ گوھر شاہی کے ذریعے اگر تمہاری مخلوق لطیفہ قلب بھی اللہ اللہ کرنا شروع کردے تو پھر تم ذاکرِ قلبی ہو۔دل کی آواز ہوسکتا ہے تمہیں محسوس ہوجائے لیکن لطیفہ قلب کی آواز تمہیں کبھی نہیں آئے گی۔اسی کو کہا کہ تم جتنا بھی پوشیدہ ہوتمہارا رب اور تم جانتے ہو۔لطیفہ قلب کی آواز نہ جبرائیلؑ جانچ سکتے ہیں اور نہ کوئی نبی کرسکتا ہے۔لطیفہ قلب کی آواز نکلے گی تو رب تک پہنچے گی ۔یہ صرف رب کو پتہ ہے اور تمہیں پتہ ہے۔ جب یومِ محشر میں حساب کتاب ہوگا تو بہت سے لوگ ہاتھ میں اعمال نامہ لئے رورہے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ یہ لوگ حساب کتاب میں ناکام ہوگئے ہیں لیکن ان کو جنت میں بھیج دو۔ فرشتے اللہ سے پوچھیں گے کہ یہ کیسے جنت میں جا سکتے ہیں۔اللہ فرمائے گا کہ ان کی کچھ مخلوقیں ایسی بھی ہیں جو اللہ اللہ کرتی تھیں جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا یعنی یہ اعمال نامہ ان کے جسم کا ہے اور وہ جو نور ہے وہ تمہیں اس لئے نہیں پتہ چلا کیونکہ وہ صرف مجھے معلوم ہے۔جب تم حساب کتاب میں ناکام ہوجاؤ گے تو پھر اللہ فرشتوں سے کہے گا کہ اس بندے کا جو اللہ اللہ کا نور میرے پاس پہنچا ہے وہ میرے پاس ہے۔ یہ ذکرِ قلب آج سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ سے مفت میں مل رہا ہے۔

نسبتِ گوھر شاہی اورحبل اللہ:

نسبت گوھر شاہی یہ ہے کہ سرکار کے دل سے تار آکر تمہارے دل سے جڑ جائے۔ جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے تو ماں کے جسم کی ایک چیز بچے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے جس کے ذریعے ماں کے پیٹ میں بچے کو غذا ملتی ہے۔جب آدم صفی اللہ نیچے آئے تھے تو ایک باطنی تار اللہ تعالٰی نے آدمؑ کے دل سے جوڑی ہوئی تھی اس کو حبل اللہ کہتے ہیں۔جب تمہیں نسبتِ گوھر شاہی ملے گی تو سرکار کے سینے کی تار تمہارے دل سے جڑ جائے گی اور اس تار سے نور کی فراوانی شروع ہو جائے گی۔ایک حدیث شریف میں آیا ہےکہ

نیت المؤمن خیر من عملہ
(کافی، ج 2، ص 82 والمحجهًْ البیضاء، ج 8، ص 109 )
ترجمہ:مومن کی جو نیت ہے اس کے اعمال سے بہتر ہے۔

ہم نے سرکارگوھرشاہی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ کیا مومن کی نیت اس کے اعمال سےبہتر ہے! سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ ہاں اس کی نیت بہتر ہے۔ ہم نے پوچھا کہ اس کی نیت کیا ہے؟ سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ مرشد کی نسبت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے اعمال نہیں بلکہ اس کی نیت “مرشد کی نسبت” اس کے اعمال سے بہتر ہے۔ جو مومن کی تار اس کے مرشد سے جڑی ہوئی ہے وہ تار مومن کے اعمال پر بھاری ہے۔کسی شاعر نے کہا ہے کہ
جے ویکھاں میں عملاں ولے،تے کُج نئی میرے پلّے
تے جے ویکھاں تیری رحمت ولّے،تے بلّے بلّے بلّے

جب میں اپنے اعمال کی طرف دیکھتا ہوں تو کُج نہیں میرے پلےاور جب میری نظر سرکار گوھر شاہی کی طرف جاتی ہے کہ میری نسبت سرکار گوھر شاہی سے جڑی ہوئی ہے تو پھر کہتے ہیں بلے بلے بلے۔ ذکرِ قلب کے ساتھ اگر یہ نسبت بھی مل گئی تو پھر ذکرِ قلب پس منظر میں چلا جائے گا۔اس نسبت سے تمہیں بے شمار نور ملے گا۔ایک دفعہ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ ”حبل اللہ ”۔ حبل اللہ وہ ہے جو تجلیات ولیوں پر گرتی ہے جو ایک نور کی رسی کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور وہ ولی کے دل سے جڑی ہوتی ہے۔جب اللہ کے نور کی رسی ولی کے قلب کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے تو جس ولی کا وہ دل ہےوہی بندہ حبل اللہ کہلاتا ہے۔اسی لئے جب صحابہ اکرام نے مولا علی سے پوچھا تھا کہ حبل اللہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہانا حبل اللہکہ میں اللہ کی رسی ہوں۔پھر لوگوں نے پوچھا کہ صراطِ مستقیم کیا ہےتو انہوں نے کہا کہ میں ہی صراطِ مستقیم ہوں۔ یہ بات شیعوں کو سمجھ نہیں آئی ۔مولا علی صراطِ مستقیم ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کر پکڑ کر تم نے چلنا ہے وہ مولا علی کے اندر ہے یعنی حبل اللہ اورتم بھی اس سے جڑ جاؤ۔اس کا مطلب ہے کہ شیعہ مولا علی سے جڑا نہیں بلکہ شیعہ صرف مولا علی زبانوں سے کہتے ہیں۔اگر زبان سے مولا علی کرنے سے کچھ ہوتا تو مولا علی سے بڑا نام اللہ ہے۔ زبانوں سے تو اللہ اللہ کہنے والے بھی کامیا ب نہیں ہوئے تو مولا علی کو زبان سے کہنے پر تم کیسے کامیاب ہوگے۔ جس نے اندر کا تعلق نہیں جوڑا تو وہ ایسے ہی رہ گیا۔ اس ایک حبل اللہ سے ہی سب ولی اور نبی اللہ سے جڑے ۔ اب نبوت اور ولائت وراثت اس لئے نہیں ہے کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو حبل اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ حبل اللہ اس کے ساتھ جڑے گی جس کو اللہ چاہے گا۔ اسی لئے یہ حبل اللہ وراثت نہیں ہے ۔ پھر سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ پہلے اوپر سے ایک تار آتی تھی اور سب اس ایک تار سے ہی جڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد سرکارگوھرشاہی نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب سات سات تاریں اس سینے سے نیچے سے اوپر جارہی ہیں اورپھر کہا کہ اب بتاؤ اس بندے کے فیض کا عالم کیا ہوگا جس کی باطنی کیفیت یہ ہوگی کہ ذاتِ گوھر شاہی کے سینے سے سات سات تاریں اللہ کی طرف بھی جارہی ہیں اور اسی سے بندہ بھی جڑا ہے۔اللہ کا برتن بہت بڑا ہے لیکن تمہارا برتن بہت چھوٹا ہے ۔ اس برتن کو بڑا کر نے کیلئے تم جتنا زیادہ پرچارِ مہدی کرو گے تمہارا برتن اتنا ہی بڑا ہوجائے گا۔جتنا زیادہ پرچار ِ مہدی ہوگا اور جتنا زیادہ عظمتِ گوھر شاہی کا بیان ہوگا اتنا ہی زیادہ تمہارا برتن بڑا ہوگا۔ جب حدیث میں فرمایا گیا کہ مومن کی نیت اس کے اعمال سے بڑی ہے تو اس حدیث میں یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ مومن کے اعمال کی خیر ہے لیکن جو مومن کی تار اس کے مرشد سے جڑی ہوئی ہے اس کی حفاظت کرو کیونکہ وہ سب سے افضل ہے۔ جو سرکار گوھر شاہی سے جڑا ہوا ہے اس بندے کی سرکار سے نسبت کا جڑنا سب سے افضل ہےیعنی نسبتِ گوھر شاہی افضل ہے۔

آج کے دور میں رب کو کیسے پائیں گے؟

کیا کوئی بندہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ بغیر عبادت کئےکوئی نبی نہیں بن سکتا۔جب نبی بننے کیلئے عبادت کی ضرورت نہیں ہے تو ولی بننے کیلئے بھی عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔جب نبی اور ولی بننے کیلئے عبادت کی ضرورت نہیں ہے تو مومن بننے کیلئے بھی عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔یاد رکھیں کہ نبوت و رسالت، ولائت و فقر، ایمان ،ایقان اور احسان سب انسان کی مرضی سے نہیں ملتے بلکہ یہ سب رب کی عطا ہے۔ اللہ جسے چاہے اسے ان سے نواز دے۔ اب اللہ نے فرمایا کہ نبوت و رسالت ختم ہوگئی ہے ۔ فقروولائت کی اب سیل لگی ہوئی ہے۔ کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ عبادت گزار ہوں بلکہ صرف ایک چیز کی ضرورت ہے کہ آپ کے دل میں یہ تمنا ہوکہ مجھے رب مل جائے اور آپ سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ میں آجائیں اور باقی سارا کام سرکار گوھر شاہی کی نظر کا ہے۔ عبادت دل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے۔ رب کل بھی عبادت سے نہیں ملا تھا اور آج بھی نہیں ملے گا۔ علامہ اقبال نے فرمایا کہ
مکتب کی کرامت تھی کہ فیضان ِ نظر تھا
سکھلائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

یہ ابراہیم ؑ کی نظر کا کمال تھا ۔ آج کے دور میں امام مہدی سیدنا گوھر شاہی کا طریقہ فیض نظر البشر ہے جس میں سارے مراتب، روحانیت اور لطائف کی بیداری نظرِ گوھر شاہی سے ہوگی۔ ذکرِ قلب اور تزکیہ نفس کا حصول بھی نظرِ گوھر شاہی سے ہے۔ آپ اپنی کوشش سے کرکے دیکھ لیں کچھ نہیں ہوگا کیونکہ یہ قانون ہے کہ نظرِ گوھر شاہی سے ہی سب کچھ ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ آرام سے گھر میں بیٹھ جائیں بلکہ سب مراتب، روحانیت اور لطائف کیلئے آپ سرکار گوھر شاہی اور نظرِ گوھر شاہی کا پرچار کریں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے15جنوری2019کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس