کیٹیگری: مضامین

ذات کی تعلیم کا آغاز محمدﷺ سے ہو چکا ہے :

ہدایت کی تعلیم میں درجات ہوتے ہیں کوئی اس درجے پر پہنچ جائے کہ دارالخد یعنی پہلی جنت کا مستحق ہو جائے، کوئی دوسرے لطیفے کو بھی منور کر لے اور دوسرے جنت دارالسلام کا مستحق ہو جائے، کوئی تیسرے لطیفے کو منور کر لے اور دارالقرار کا مستحق ہو جائے، چوتھے لطیفے کو منور کر لے تو دارالعدن کا ، چھٹے لطیفے کو منور کرلے تو دارالنعیم اور پھر لطیفہ انا کے ذریعے اللہ کا دیدار کر لے تو جنت الفردوس کا مستحق ہو جائے۔ جنت میں پہنچنے کا راستہ اور یہ تمام چیزیں مرسلین اپنی تعلیم کے ساتھ لے کر آئے ہیں ۔ لیکن ہم نے سیدنا امام مہدی گوہر شاھی سے ایک اور بھی تعلیم سنی اور وہ تعلیم تمام احباب کیلئے اِک لمحہ فکریہ ہے۔
ہم نے سیدنا گوھر شاہی کی بارگاہِ مقدسہ سے یہ سنا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تواللہ نے آپ کو شریعت کا علم بھی دیااور دل والا علم بھی دیا ، شریعت کا علم عام لوگوں کیلئے اور دل والا علم اُن کیلئے جن کی سیرابی عام علم سے نہیں ہوتی ۔ جو دل والا علم ہے وہ علم ایسا ہے کہ وہ اللہ تک لے جاتا ہے اور پھر تیسرا علم بھی دیا جو کہ مقام وصل ہے ۔ اب پھر سرکار مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ ایک اور علم بھی ہے وہ علم بھی حضور پاک ﷺکو ملا اور وہ پہلی مرتبہ تخلیقِ انسانی میں دیا گیا ہے جو حضور نبی کریمﷺکو دیا گیا ہے اور وہ ہے ذات کا علم ۔ پھر فرمایا کہ یہ اصحابِ ِ کہف جو عیسی ٰعلیہ السلام کے نو حواری ہیں ، جب رومیوں نے عیسی علیہ السلام کو گرفتارکرنے کا پلان بنایا اور وہ آخری کھانا کھا رہے تھے تو یہ باتیں ہو رہیں تھیں اب کیا ہو نے والا ہے تو اُن میں سے ایک شخص کھڑا ہوکرکہنے لگا میں آپ(عیسیٰ) کا ساتھ دوں گا میں آپ سے وفاداری کروں گا ۔عیسیٰ نے فرمایا بیٹھ جاؤ سب سے پہلے تم ہی بھاگو گے اور پھر یہ فرمایا کہ جب مرغ کی بانگ ہوگی اُس وقت تم مجھے جھٹلاؤ گے اور پھروہی ہوا باقی جو نو اُن کے حواری تھے اُن کو عیسی علیہ السلام نے حکم دے دیا تھا کہ یہ منظر جو ہوگا جب رومی مجھے گر فتار کرنے کو آئیں گے یہ منظر تم نہ دیکھنا تم پہلے چلے جاؤ اپنے ایمانوں کو بچاؤ اُن کو بھیج دیا اور وہ چلے بھی گئے ۔ پھر وہ ساری کہانی قرآن شریف میں موجود ہے کہ وہ نکل پڑے اوراللہ سے دعا کرنے لگے کہ ہمارے ایمانوں کی حفاظت فرما ،ہمیں کہیں پناہ دے دے اور چلتے چلتے وہ غار آگیا غار میں وہ سو گئے اور اللہ نے پناہ اِس طرح دی کہ اُن کے اوپر 300 سال کا مراقبہ طاری کردیا اُن کے ساتھ ایک کتا بھی تھا ۔سورۃ کہف میں اصحاب کہف کا پورا واقعہ ہے ۔ اب سرکار گوہر شاھی نے فرمایا کہ کیا وجہ ہے کہ اُن کے جو حواری تھے وہ ایمان کی حفاظت کیلئے عیسیٰ چھوڑ کے چلے گئے اور عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کا خیال نہیں آیا کیونکہ اُن کو ذات کی تعلیم نہیں ملی تھی لیکن مسکرا کے یہ فرمایا کہ حضور ﷺسے اُس تعلیم کا آغاز ہو چکا ہے ۔

دین کی اور ذات کی تعلیم میں فرق:

اب یہ جو ذات کی تعلیم ہے اور یہ جو دین کی تعلیم ہے اِس میں فرق کیا ہے؟ دین کی تعلیم کی منزل جنت ہےاور جو ذات کی تعلیم ہےاُس کی منزل ذات کا قرب ہے۔حدیث ہے کہ اَلمَعَرُومَع مَن اَحَبجو جس سے محبت کرتا ہے وہ اُس کے ساتھ ہوگا۔ جن کو ذات کی تعلیم ملی وہ دین سے ہٹ گئے اور ذات میں لگ گئے اور جن کو ذات کی تعلیم نہیں ملی وہ دین میں لگے رہے یہ دونوں تعلیم مختلف ہیں اور ایسا بھی ہوا کہ جو ذات کی تعلیم پا گئے پھر ذات کے حوالے سے اُنہوں نے دین کی خدمت کی حالانکہ اُن کی اپنی منزل دین نہیں تھا لیکن ذات کے حکم پر دین کی خدمت کی۔ جیسے کہ اب ہمارا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے اور نہ ہمیں مذہبوں کا شوق ہے ، عالمِ ناسوت سے لیکر عالمِ احدیت تک سب کچھ دیکھ لیا ، پھر خطِ عدم کے اُس پار عالمِ غیب خفیہ خزانہ دیکھ لیا عیسیٰ کا عالم دیکھ لیا ، ادریس کا عالم دیکھ لیا ،الیاس کا عالم دیکھ لیا ، اولا الم کا عالم دیکھ لیا، اللہ کا عالم دیکھ لیا، پھر ریاض الجنہ پہنچ گئے کئی دفعہ چلے گئے اللہ کو دیکھ لیا ،اللہ کے رسول کو دیکھ لیا سرکار گوہر شاھی کو سینے میں لئے پھرے اب کسی چیز کی تلاش نہیں ہے اب تو بس کرکٹ کھیلنا ہے اور یہاں آکر باتیں کرنی ہیں۔ کیا نہیں دیکھا اور کیا نہیں پایا لیکن اب یہاں پہ بیٹھ کے لوگوں کو دین کا درس دے رہے ہیں لیکن تعلق نہیں ہے ۔
ذاتِ محمد ﷺ سے تین راستے نکلے ایک راستہ نکلا روحانیت کے ذریعے لوگوں کو منور کرنے والا ،روشن ضمیر بنانے والاجس کے ذریعے وہ مختلف جنتوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں ۔دوسرا راستہ نکلا دیدارِ الہٰی والا اُس سے لوگ دیدارِ الٰہی تک پہنچ گئے اور تیسرا راستہ جو نکلاوہ بہت ہی زیادہ پوشیدہ رہا جب دوسرا دل والا علم اتنا پوشیدہ رہاتو وہ ذات کا علم کتنا پوشیدہ رہا ہوگا۔ یہ علوم حضورﷺ کی ذات سے ہی نکل رہے ہیں ،جو راستہ جنت جا رہا ہو وہ راستہ بھی دین کےذریعے حضور سے نکلااور جو راستہ اللہ کی طرف جا رہا ہےوہ دین میں نہیں ہے حضورﷺ کی مرضی سے نکلا ، جس کو چاہاعطا کیااور تیسرا راستہ جو ذات کی طرف جارہا ہےوہ حضور ﷺنے نہیں جس کو حضور ﷺکی روح نے پسند کیااُس کو دیا۔

ذات کا علم کیا ہے ؟

ذات کا جو علم ہے ایک تو فقر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جو فقر ہے” سوادالکفر “کفر کی سیاہی اور جو ذات کا علم ہے وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اُس میں جو مرشد ہوتا ہے وہی منزل بن جاتا ہے ، اُس سے ایسا تعلق روحانی بن جاتا ہے کہ اُس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ہلکے ہلکے ذات کے علم کے چھینٹے مولا علی کی وجہ سے چشتیہ خاندان پر پڑے جس کی وجہ سے مرشد کی محبت و عشق چشتیہ خاندان میں آگیا قادریہ خاندان میں نہیں آیا چشتیہ خاندان میں آگیا جس طرح بابا فرید کا وہ کلام ہے ؛
میڈاعشق وی توں میڈایاروی توں ۔۔۔۔۔میڈا دین وی توں میڈاایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں۔۔۔۔میڈا قلب وی توں،جند جان وی توں
میڈاکعبہ قبلہ مسجد ممبر مُصحف تے قرآن وی تو۔۔۔میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں،صوم صلاۃاذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں

اب اس میں جو ہے اللہ ،رسول ،روزہ،نماز ،حج، زکٰوۃ مرشد کو ہی قرار دے دیا ہے ۔ عام مرشدوں نے تو یہ تعلیم نہیں دی تو یہ پھر کوئی خاص بات ہوگی نا یہ ذات کا علم ہے ۔ حضورﷺ کے دور میں بھی چند صحابہ اکرام ایسے تھے کہ جن کو حضورﷺ نے اپنی ذات کا علم دیا ۔یہ وہ لوگ تھے جو ہر وقت حضورﷺ کے ساتھ رہتے اور اِن کو شوق یہ ہوتا تھا کہ بس حضورﷺ کی خدمت کریں اور یہ جب نمازیں اُتریں یہ روزے فرض ہوئے یہ ہوا اور وہ ہوا تو پھر اِن کو یہ خیال آتا تھا کہ پہلے حضور ﷺکی خدمت کروں یا نماز پڑھوں، تو اِن کے اندر دل نے کہا چھوڑو جی ہم تو حضور کے پاس ہی ٹھیک ہیں۔ اب یہ ادائیں انسانوں کی جب حضورﷺ نے ملاحظہ فرمائیں تو وہ ذات کا علم اُن پر کھول دیا ۔ یہ جو ذات کا علم ہے یہ ایسا ہے کہ جیسے ہم پاکستان میں پتنگ اڑاتے تھے تو پیچھے سے اُس کی دم بھی بنا دیتے تھے ۔ اب یہ جو ذات کا علم ہے اِس میں جن کو یہ علم عطا ہوتا ہے اُن روحوں کو حضورﷺ اپنی روح سے چمٹا لیتے ہیں جہاں حضور ﷺ جائیں گے وہ ساتھ ہوں گے ۔جنت میں نہیں بلکہ حضورﷺ کے ساتھ ، یہ ذات کا علم ہے ۔ اُن کی روح کو اپنی روح کیساتھ پیوستہ کرلیں اب جب اُن کی روح کو اپنی روح کیساتھ پیوستہ کر لیتے ہیں تو اب کوئی اور نور اُن کو نظر نہیں آتا کوئی اور رب اُ ن کی سمجھ میں نہیں آتا اُن کیلئے رسول بھی حضور ﷺ کی ذات ہے مرشد بھی حضورﷺ کی ذات ہیں اور رب بھی حضور ﷺ کی ہی ذات ہیں ۔ جس طرح ابو ذرغفاری تھے وہ بھی ذات والے تھے۔ اُن کو ذات کا علم دیا اِ س لئے وہ نہ نمازیں پڑھتے تھے اور نہ روزے رکھتے تھے۔ آپ اُن کو کہیں گے یہ بے دین ہیں ۔ ہاں بے دین ہی تو ہیں لیکن جہنمی نہیں ہیں ، کافر نہیں ہے، کیونکہ حضور ﷺ سے جڑا ہوا ہے ۔اب جو زید بن حارث تھے وہ بھی ذات والا تھے، اُس کو بتانا نہیں آتا تھا لوگوں کو کہ میں نمازیں ، روزیں اس لیئے نہیں کرتا کہ میرا تعلق نہیں ہے ،شراب بھی اس لیئے پی لیتا ہوں کہ میرا تمھارے دین سے تعلق نہیں ہے بلکہ محمد ﷺ کی ذات سے تعلق ہے ۔
پھر جن کو ذات کا علم مل گیا اُن کے سارے لطائف پر حضورﷺ کا یا تو نام یا اُن کا نقش یا اُن کی تصویر ثبت ہوجاتی۔ اُن کیلئے اول بھی محمدﷺ، آخر بھی محمدﷺ۔ اب یہ ذات کا علم جب سرکار گوہر شاھی نے ہم کو دیا تو ہم بھی بھول گئے مسجد و مندر کو پھر ہر جگہ سرکار ہی سرکار نظر آئے ۔ اب پھر ہر جگہ سرکار ہی سرکار نظر آئیں تو اب جہاں سرکار جائیں دو ،چار راز کھلے تو اُس سے اور کہانی آگے بڑھ گئی یہ ذات کے علم کی بات ہےاور یہ محمد ﷺ سے علم شروع ہو چکا ہے۔ ہم نے ایسے کئی ولیوں کو دیکھا کہ جو کہتے ہیں محمد ﷺ ہی رسول ہیں، محمد ﷺ ہی خدا ہیں ،محمدْﷺ ہی ولی ہیں ، محمدﷺ ہی علی ہیں ،محمد ﷺہی جبرائیل ہیں ۔ اِس طرح کے جو لوگ ہوئے تو اُن کو جبرائیل نے تعلیم بھی کوئی اور دی ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جس طرح وہ مرتبہ ایمان ، اسلام کیا ہے ،ایمان کیا ہے، ایقان کیا ہے ،درجہ احسان کیا ہے اس کے اوپر جبریل کی پوری حدیث ہے کہ یہ ہے اس طرح ذات والوں کو سمجھانے کیلئے بھی ایک دفعہ جبرائیل آئے اور جب جبرائیل آئے ذات والوں کو سمجھانے کیلئے تو حضورﷺ ان کے سامنے پوچھتے ہیں جبرائیل تیری عمر کتنی ہے یا رسول اللہﷺ مجھے میری عمر کا تو اندازہ نہیں ہے لیکن ایک ستارہ ہے جو ستر ہزار سال بعد نمودار ہوتا ہے اور وہ میں نے ستر ہزار مرتبہ دیکھا تو حضور ﷺ نے فرمایا اگر وہ ستارہ تم اب دیکھو تو پہچان لوگے ؟ ہاں جی بلکل میں نے ستر ہزار بار دیکھا ہے تو آپ نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیشانی سے وہ ستارہ نمودار ہوا اور آپﷺ نے فرمایا کہیں یہی تو نہیں ہے وہ ستارہ ، تو جبرائیل علیہ السلام حضور ﷺ کی قدم بوسی کیلئے جھکے اور پھر پوچھا جبرائیل یہ جو تو وحی لے کے آتا ہے ، کہاں سے لے آتا ہے یہ تو نہیں پتا کہاں سے ہے لیکن ایک پردہ ہوتا ہے اُس کے پیچھے سے کوئی دیتا ہے میں لے کے آجاتا ہوں ۔آپ نے فرمایا تو نے کبھی پردہ اُٹھا کے دیکھا نہیں کون بیٹھا ہے پیچھے وحی دینے والا ہمت تو نہیں ہوئی ۔فرمایا اب اگر وحی کی بات آئے تو پھر ذرا پردہ ہٹا کے دیکھ لینا ۔ اب جب وحی کا مقام آیا تو اُنہوں نے پردہ ہٹا کے دیکھا تو حضورﷺ ہی بیٹھے تھے یہ ذات کا علم جن کو دیا اُن کے سامنے یہ کہانیاں یہ قصے یہ حقیقتیں بیان کیں ۔جن کو ذات کا علم دیا ہوتا ہے تو اُن کواللہ جب اپنا دیدار دیتا ہے تو حضورﷺ کی صورت میں دیتا ہے اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ کی کرسی پر بھی حضور ﷺ بیٹھے ہیں اُنہی کے رنگ میں رنگ کر حضور ﷺ جیسا حلیہ اختیار کر کے اللہ اُن کو دیدار دیتا ہے اُن کو اللہ کا ہی دیدار ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ ذات والے ہیں تولگتا یہی ہے کہ یہ حضورﷺ ہی بیٹھے ہیں ،ہوتا وہ اللہ ہی ہے لیکن حضورﷺ کے نام پر اللہ کا دیدار ہوتا ہے ، یہ ذات والے ہیں۔

“اب اِس ذات والے علم کو اجاگر کرنا ہے ، یہ علم حضورﷺ کی ذات تک تو ہے جب حضور ﷺ کی ذات تک ذات کا علم ہے تو اللہ نے اپنے لئے کیوں نہیں رکھا سوال یہ ہے اللہ اس لیئے نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ نیچے نہیں آسکتا اِس لئے امام مہدی نے یہ ذات والا علم دیا کہ جو چاہے وہ اوپر ساتھ جا سکے “

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی 3 ستمبر 2017 کی یوٹیوب پر کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس