کیٹیگری: مضامین

غیب کی کتنی اقسام ہیں؟

غیب اورخفیہ دونوں الفاظ کامطلب چھپاہواہے لیکن غیب قابلِ رسائی نہیں ہےاورخفیہ قابلِ رسائی ہے۔ اس لئے غیب غائب سےنکلا ہےاورغائب کامطلب ہے آنکھوں سےاوجھل ہونا یعنی کوئی چیزموجود ہے لیکن آنکھوں کی اُس چیزکودیکھنے کیلئے رسائی نہیں ہے۔ غیب تین حصوں میں آتا ہے۔

1۔ مستقبل کی خبر:

مستقبل میں کیا ہونے والا ہے وہ ہم سے چُھپا ہواہے اورقابلِ رسائی نہیں ہے۔ جو مستقبل میں ہونےوالاہےوہ ہمیں معلوم نہیں ہے لہٰذا وہ بھی غیب کہلاتا ہے۔ ایک غیب وہ ہے جونظر نہیں آتا، ہماری اُس تک رسائی بھی نہیں ہوتی لیکن مستقبل میں جاکراُس کاخوداظہارہوگا۔

2۔ علمِ غیب:

یہ اُن روحوں کاعلم ہےجوہماری نظروں سےغائب ہے۔ یہ علمِ غیب باطنی تعلیمات اورلطائف کی طرف اشارہ ہے یعنی لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سری، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ اورلطیفہ انا۔ لطیفہ نفس کوہم خواب میں دیکھ لیتے ہیں اس لئے وہ غیب میں نہیں آتا۔ قرآن مجید میں علمِ غائب کےبارے میں فرمایا گیا ہے کہ

الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛفِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر3 تا 1

پاک وہ ہونگے جوعلمِ غیب کےذریعےایمان لاپائیں گےاوراس علم کےذریعےان کےدلوں میں نور آجائے گا۔ اب یہ علم آپ کےپاس نہیں ہے تواس لئے آپ کہتے ہیں کہ یہ علم تو پہلے نہیں سنا ہے۔ آپ نے اس لئے نہیں سنا کیونکہ یہ غائب تھا۔ جب وہ علم غائب تھا توآپ کو سنائی اوردکھائی کیسے دے گا، تاوقتیکہ کوئی غیب والاآئے۔ یہ جوباطنی تعلیم ہے یہ علمِ غیب کہلاتی ہے۔ مومنوں کاتعلق اس غیب سے ہے تووہ باطنی تعلیم کی طرف اشارہ ہے۔ حدیثِ قدسی میں غوث پاکؓ کی روایت ہے کہ اللہ تعالی فرماتاہےکہ ایک میری مخلوق ایسی بھی ہے جس کومیرے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ غوث پاک نے کہاکہ سنو!میں وہ مخلوق ہوں۔ لیکن آپ سوچوگےکہ غوث پاک توابوصالح کےگھرپیدا ہوئے تھےتوآپ غیب کی مخلوق کیسے ہوئے۔ جب ہم کسی کوکہتے ہیں کہ ہمارامرشدہمارارب ہے تو آپ فوراً آیت لیکرآتے ہیں کہ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ اللَّـهُ الصَّمَدُ کہ اللہ توایک ہے اوراللہ کو کسی نے پیدا نہیں کیا۔ پھرآپ کہتے ہیں کہ تمہارے مرشد کی ماں اورباپ کانام تو یہ ہے پھر وہ رب کیسے ہوئے، یہی خیال آپ کو آئے گا۔ جب غوث پاک نے کہا کہ وہ چُھپی ہوئی مخلوق میں ہوں تو اس سےمراد یہ ہے کہ وہ چُھپی ہوئی مخلوق طفلِ نوری کی طرف اشارہ ہے اوراُس کورب کےسوا کوئی نہیں جانتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ غیبت نہیں ہوئی تواُس کامطلب یہ ہے کہ جب تک سرکارگوھرشاہی غائب نہیں ہوئے تواپناجوطفلِ نوری ہے وہ آسمانوں میں سیٹلائٹ کیلئے چھوڑا ہواتھا کہ کسی کے بھی لطیفے کواوپربھیجنا ہوتووہ نورکاگولہ کھینچ لے اوراگرتمہارےپاس طاقتِ پروازنہ بھی ہو تووہ جوسرکار گوھرشاہی کاطفلِ نوری ہے وہ آسمانوں سےتمہارےدلوں کوکھینچ لیتا ہے۔ جب سرکار گوھرشاہی نےغیبت فرمالی تو جوسرکارگوھرشاہی کاطفلِ نوری ہے وہ مہدی فاؤنڈیشن کےساتھ لگادیا۔ جب وہ طفلِ نوری اِدھرہی ہے تو جب لوگ کہتے ہیں کہ سرکار گوھرشاہی اُن کےخواب میں آئے تھے، اُن کاذکر چل گیا تووہ وہی مخلوق ہے۔ ایسا کوئی بندہ نہیں ہے کہ جس کوہم کہہ دیں کہ تمہارا ذکر نہیں چلے گا۔ یہ ذکرچلانا، لطیفے چلانا اورمقامِ محمود تک پہنچانا چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن یہ وہ مخلوق ہے جس کواللہ نے کہا کہ میری ایک مخلوق ایسی ہے جسے سوائے میرے کوئی جانتا نہیں تو وہ مخلوق جثہ توفیقِ الہی اورطفلِ نوری ہے اوران کاجوعلم ہےوہ علمِ غیب کہلاتا ہے۔ یہ علم روحوں اورلطائف کوملتا ہے۔

3۔ عالمِ غیب:

عالمِ غیب کیلئےاللہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایا ہے کہ

فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
سورۃ یونس آیت نمبر20

قرآن مجید کےمطابق عالمِ غیب میں اللہ کے سوا کسی کی بھی رسائی نہیں ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا کہ کہہ دوکہ عالمِ غیب جنسِ اللہ کیلئے ہے۔ اب وہ کہہ رہے تھے کہ جس ذات نے آنا ہے اُس کی کوئی نشانی تو بھیجو۔ اللہ نے فرمایا کہ عالمِ غیب صرف جنسِ اللہ کیلئے ہے اورجبرئیل، میکائیل، اسرافیل اورعزرائیل کی عالمِ غیب میں قابلِ رسائی نہیں ہےتوابھی کوئی آیت کیسےنازل ہوگی! فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ کہ کہہ دوکہ وہ صرف اللہ کیلئے قابلِ رسائی ہوگا۔ اب اگراللہ عالمِ غیب میں ایک سیکنڈ کیلئے بھی چلے گئےتویہ سب کچھ خود بخود ختم ہوجائےگا۔ اس لئے اللہ غیب میں نہیں جائے گا اورکوئی اللہ کے سوانہیں جاسکتا لہٰذا کوئی امام مہدیؑ کی نشانی نہیں آئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی نشانی بھیجوتوپھراللہ تعالی نے فرمایا کہ فَانتَظِرُ کہ بہتریہ ہے کہ انتظارکرو۔ کیونکہ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ کہ انتظار کرنےوالوں میں میں بھی شامل ہوں۔ انتظارکرنےوالوں میں صرف انسان نہیں بلکہ رب بھی شامل ہے۔ اگراللہ عالمِ غیب میں تشریف لےگئے تویہ سب کچھ ختم ہوجائے گا جس کیلئے قرآن مجید میں آیا ہے کہ

إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 156
ترجمہ: ہم اللہ ہی کے ہیں اوراُسی کی طرف لوٹ کرجائیں گے۔

عالمِ غیب میں کچھ توہوگا جس کےبارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ صرف اللہ کیلئے ہے۔ یہ تونہیں ہے کہ جو کچھ بھی اللہ نے بنایا ہے وہ سب کچھ یہی ہے۔ جب یہ کچھ بھی نہیں تھا توپھراللہ تعالی کہاں تھےاور کیاکرتےتھے؟ اب ہماراایمان ہے کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے ہےاورہمیشہ رہےگا۔ یہ توکل کی بات ہے کہ اللہ نے ہم کواورتم کوبنایا ہے اوریہ سب کچھ ہمارے لئے بنایا ہے کیونکہ عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، عالمِ وحدت، عالمِ ہاہوویت، اورعالمِ لاہوت اللہ نے مخلوق کیلئے بنائے ہیں۔ پھراللہ تعالی نےاپنےلئےکیا بنایا تھا اورکب بنایا تھا۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ عالمِ غیب میں کیا وہ عالم بھی غیرمخلوق ہے۔ اگروہ عالم مخلوق ہے توپھراُس عالم کوبنانے والا کون ہے جہاں جانے کی اجازت صرف اللہ تعالی کوہے۔ جس عالم میں جانے کی اجازت اللہ کو مل گئی توکیا وہ عالم اللہ نے بنایا ہوگا۔ آپ کو اگرامریکہ کاویزہ مل جاتا ہے توکیاآپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ پورا میری ملکیت ہے بلکہ آپ کو امریکہ جانےکی اجازت ملی ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے5 جولائی 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس