کیٹیگری: مضامین

کردار فی نفسہی کیا ہوتا ہے ؟

کردار کی تشکیل ،انگریزی میں اسے (Chracter Education) کہہ سکتے ہیں۔ کردار کی تشکیل انسان کو سُدھارنے کی ایک کوشش ہے لیکن کردار کی تشکیل سے کسی کاکردار ٹھیک ہوجائے گا یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ انسان کا کردار صرف ظاہری رکھ رکھاؤ ، ظاہری اخلاقیات اورادب کے اُصولوں کا نام نہیں ہے۔عربی زبان میں دو لفظ ہیں ایک” خَلق” جو تخلیق سے نکلا ہے ۔ خلق آپ کے وجود یعنی جسم کو کہتے ہیں۔ دوسرا لفظ ہے” خُلق”، خُلق آپ کے ظاہری وجود کا باطن ہے۔ یعنی” خلق” جسم کو اور” خُلق ” باطنی جسم یعنی روحانی وجود کو کہتے ہیں۔اخلاقیات زیادہ تر مذہب سے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر نبی پاک ﷺ نےارشاد فرمایاہے کہ اگر تیرا پڑوسی بھوکا سو گیا ہے تو تُو مومن نہیں ہوسکتا۔یہ اخلاقیات کی بات ہورہی ہے کہ آپ نے اپنے پڑوسی کا خیال رکھنا ہے۔باالفاظ دیگرمذہب نے حکم دیا ہے کہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھو اور اُس کی مدد کرو ۔یہ مذہب کی تعلیم ہےبھلے آپ کا جی چاہے یا نہ چاہے مذہب نے کہا ہے تو کرنا ہے لیکن اگر انسان کے اندر ایک پیار کرنے والی روح ہو تو مذہب نہ بھی کہے تو ایسا انسان ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے۔مذہب نے اگر کہا تو وہ تو کردار بن گیا بغیر مذہب کے اگر کوئی کر رہا ہے تو یہ ہے کہ اُس کی فطرت ایسی ہے۔ہر سوسائٹی کے معاشرتی اصول اور میعار مختلف ہیں جیسے امریکہ میں کسی کے سر پر ہاتھ رکھنا ، گلے ملنا یہ سب نارمل ہے لیکن برطانیہ میں آپ گوروں کے ساتھ جسمانی طور پر قریب نہیں ہوسکتے یعنی دُور دُور سے بات کرنی ہےکیونکہ اِن کا مزاج ایسا ہے جب یہ امریکیوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ casualہیں۔ وہ اِن کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں They are too snoby. دراصل نہ یہ snobyہیں نہ وہ casualہیں۔ یہ مزاج کا فرق ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو کہا جاسکتا ہے کہ یہ تلون مزاج ہیں۔ تلون مزاج اُن کو کہتے ہیں جن کے موڈ تبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن جب ہم کردار کی بات کرتے ہیں تو کردار آداب یا معاشرتی اُصول کا نام نہیں ہے۔ کردار خالصتاً روحانی چیز ہے۔

کردار ایمان کا حصّہ ہے:

کردار یعنی ہمدردی کا جذبہ۔ ایک ہوتی ہے ہمدردی جس کو انگریزی میں Sympathyکہتے ہیں اور ایک ہے دوسروں کا دُکھ محسوس کرنا وہ ہے Empathy۔ ہمارے مذاہب خاص طور پر آج کا جو اسلامی مذہب ہے وہ ہمیں صرف یہی سکھاتا ہے عورتوں کو نہ دیکھو ، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو ؛ اسی چیز کو کردار کا نام دیا ہوا ہے۔کسی عورت کو نہیں دیکھا، کوئی غلط کام نہیں کیا اسی کو کردار کا نام دیا ہوا ہے، یہ غلط ہے۔ ایک آدمی نے عملی طور پر اگر کسی عورت کے ساتھ غلط کام نہیں کیا لیکن صبح و شام وہ اُس عورت کے خیالوں میں بیٹھا رہتا ہے تو اُس نے صحیح کام کہاں کیا ، اُس کا کردار پاک نہیں ہے ۔صلہ رحمی؛ صلہ رحمی کیا ہے؟ لوگ آپ کے ساتھ بُرا برتاؤ کریں آپ پھر بھی اُن کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے زمانے میں؟ اور ایسی چیز سکھائی کہاں جاسکتی ہے؟

“ہم اپنے قلب کی سچائیوں کے ساتھ یہ کہنے کو تیار ہوں کہ کردار سازی نا ممکن ہے کیونکہ کردار ایمان کا حصہ ہے۔ جو مومن ہوگا اُس کا کردار از خود بہتر ہوگا اور جو مومن ہی نہیں ہے جہنمی ہے تو وہ ساری برائیاں جو بُرے کردار کی ہوتی ہیں اُس کی روح کی فطرت میں ہونگی”

سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ جو ازلی مومن ہوتے ہیں اگر وہ کسی عبادت میں نہ بھی ہوں تو دُور سے پہچانے جاتے ہیں اُن کا دل حسد سے پاک ہوتا ہے، بغض و عناد سے پاک ہوتا ہے۔ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اب اُس نے تو مذہب اختیار ہی نہیں کیا تو اُس کا کردار اتنا اچھا کیوں ہے؟ کردار اچھا اوربُرا روح کی وجہ سے ہوتا ہے جیسی روح ہوگی ویسا ہی کردار ہوگا۔ اگر آپ چاہیں کہ ہم آپ کو صلہ رحمی سکھا دیں تو نہیں سکھا سکتے ۔ صلہ رحمی آپ کی روح کا حصہ ہوگی تو آپ کے کردار میں جھلکے گی۔ لوگوں کا درد محسوس کرنا آپ کی روح کی فطرت میں ہوگا تو آپ کے کردار کا حصہ بنے گا ورنہ نہیں بنے گا ۔ اگر آپ سخت دل ہیں آپ کے دل میں شقاوت ہے تو کبھی بھی آپ کسی کے دکھ درد کو نہیں بانٹیں گے لوگوں کا درد محسوس نہیں کرینگے۔ صرف آپ کو اپنا ہی دُکھ نظر آئے گا، اپنا ہی درد محسوس ہوگا۔ سامنے والے کے اوپر قیامت گزر جائے گی اورآپ ٹس سے مَس نہیں ہونگے۔ اب ایسے آدمی کے کردار کی تخلیق کبھی نہیں ہو سکتی کیونکہ کردار سکھایا نہیں جاسکتا۔خُلق آپ کی فطرت کا حصہ ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کو کردار سکھا دو۔ کردار سکھانے کے بعد کیا ہوگا۔ اگر اس کا دل سخت ہے تو لوگوں کا درد یہ کیسے محسوس کریگا۔ کلاس میں اس کو جتنے چاہو لیکچر دے دو ، اس کی فطرت تبدیل نہیں ہوگی۔

نبی کریمﷺ عظیم خلق کے مالک ہیں :

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
سورة القلم آیت نمبر 4
ترجمہ : آپ عظیم کردار کےحامل ہیں۔

حضور ﷺ کے کردار کے بارے میں یہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کا کردارعظیم ہے۔ حضور ﷺ نے اپنا کردار کہاں صحیح کیا۔ کیا حضورﷺ کا کردار خراب تھا؟ حضورﷺ نے کوئی عبادت کی تھی؟کیا کردار کی درستگی کیلئےاضافی نمازیں پڑھی تھیں؟ ۔اگر نہیں تو پھر یہ کیسے ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آپ کا کردار عظیم ترین ہےکیونکہ آپ کی روحِ انور عظیم ترین ہے، آپ کی فطرت عظیم ترین ہے۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ آپ کا جو کردار ہے وہ عظیم ہے ۔ اس کے بعد ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ

اَنا من نور اللہ و المومنین من نوری
ترجمہ: میں اللہ کے نور سے اور مومنین میرے نور سے بنے ہیں۔

اگر حضور ﷺ کے نور سے مومن کی تشکیل ہوگی تو کیا مومن کو وراثت میں حضور ﷺ کا کردار نہیں ملے گا؟ جب حدیث شریف میں آیا کہ مومنین حضور ﷺ کے نور سے بنے ہیں تو یہ نور سے بننے سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مراد ہے کہ آپ کے اندر جو روح آئی ہے اُس روح کی بات ہورہی ہے کہ وہ روح حضور ؐ کے نور سے بنے گی؟ نہیں!یہاں اس حدیث میں مومن کا کہا گیا ہے۔ و المومنین من نوری یہاں ایمان کی طرف اشارہ ہے کہ جو تمہارا ایمان کا ڈھانچہ ہوگا ، سات لطائف کے اوپر جو رنگ چڑھے گا وہ نورِ محمدؐ سے چڑھے گا وہ ساتوں لطائف نورِ محمدؐ سے بیدار ہونگے ۔ جب حضور ﷺ کی طرف سے آئے ہوئے نور سے آپ کی روحیں بیدار ہوجائینگی آپ کی روحیں پاک صاف ہوجائیں گی تو محمدؐ رسول اللہ کے کردار کی زکوۃ و خیرات بھی آپ کو ملے گی۔ اُس کردار کی وراثت بھی آپ کو ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے متعدد بار فرمایا کہ مومن وہ نہیں جس کا پڑوسی بھوکا سو جائے تو حضورؐ نے یہ کیسے کہہ دیا؟ کیا یہ کیفیت نمازوں کی وجہ سے پیدا ہوگی؟ نمازیں تو سارے فرقے پڑھتے ہیں۔ یہ کیفیت عبادتوں، نمازوں اور روزوں سے نہیں ہوگی بلکہ یہ کیفیت وراثتِ خُلق سے ہوگی۔ یہ کیفیت اُس نور سے ہوگی جو محمدؐ رسول اللہ کا آپ کے سینے میں جا کے قیام پذیر ہوگا۔ اگر یہ کیفیت نمازوں سے ہوتی تو پھر نمازی ایک دوسرے کو قتل کیوں کر رہے ہیں اِن کے اندر تو رحم ہی نہیں ہے! اگر یہ کیفیت نمازوں سے ہوتی تو پڑوسی کے لئے حکم تھا کہ وہ مومن نہیں ہوسکتا جس کا پڑوسی بھوکا سو جائے تو پھر اُس دَور کے مسلمانوں نے نبی پاک ﷺ کے نواسے او رگھرانے کو ایک ہفتہ بھوکا اور پیاسا کیوں رکھا؟ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ اُس کا پڑوسی ایک رات بھوکا نہیں سو سکتا اگر سو گیا تو تُو مومن ہی نہیں ہے۔ تو اُن بدبخت لوگوں کو ، جہنم کے کتوں کو شرم و حیا اور غیرت نہیں آتی کہ یزید اور جس مسلمان قوم نے نبی پاک ﷺ کے نواسے اور پوری فیملی کو ایک ہفتہ بھوکا اور پیاسا رکھا اور پھر شہید کردیا اُس کے باوجود بھی اُن کو جنتی کہتے ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان تو یہ ہے کہ تیرا پڑوسی ایک رات بھوکا سو جائے تو تُو مومن ہی نہیں ہے پڑوسی بھوکا سو گیا تو مومن نہیں ہے ۔ یہ ظلم تو نہیں ہے یہ آپ کی غفلت ہوگی کہ اگر آپ کا پڑوسی بھوکا سو گیا تو غفلت ہوگی آپ کو کیا پتہ کہ پڑوسی نے کھایا ہے یا نہیں، تو معلوم ہوا کہ آپ اپنے پڑوسی کو پوچھیں کہ بھئی کوئی کھانا کھایا ہے؟ کوئی مشکل پریشانی تو نہیں ہے؟ ذرا سوچیں کہ کیا درس دیا ہے حضورؐ نے؟ تو جن لوگوں نے نبی پاک ﷺ کے نواسے کو ایک ہفتہ بھوکا پیاسا رکھا اور شہید کردیا اُن کے بارے میں آپ کا کیا گمان ہوگا کیا وہ مومن ہیں؟ ایسے لوگ حضورپاک ﷺ کے اُمتی ہوسکتے؟

قوم ثقافت سے نہیں بلکہ تعلق باللہ اور تعلق بالرسول سے ہے:

آپ کی قوم بیوقوف ہے جسکے پاس شعور نہیں ہے۔ رہ گئی بات زبانوں کی تو زبانوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سندھی ہو، اُردو ہو، پنجابی ہو ، انگریزی ہو ، سرائیکی ہو ، ہندی ہو ۔ قوم زبان سے نہیں ہوتی ،قوم ثقافت سے نہیں ہوتی۔ قوم تعلق با للہ اور تعلق رسول سے ہوتی ہے۔ کلچر سے نہیں ہوتی ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے قرانِ مجید میں یہ کہہ دیا کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ
سورة المائدة آیت نمبر 54
کہ جب تم اپنے اپنے دین سے پھر جاؤگے تو اللہ اپنی قوم کو لائے گاجو اللہ سے محبت کرتی ہو گی اور اللہ اُن سے محبت کرتا ہو گا۔

تو معلوم یہ ہوا کہ وہ جو قوم آئے گی اُس کا تعلق باللہ پہلے سے جُڑا ہوگا تبھی تو وہ قوم کہلائے گی۔ ذرا غور تو فرمائیں ہمارے ہاں قوم کا تصور کیا ہے؟ یہ مہاجر قوم، یہ سندھی قوم ، یہ پنجابی قوم، یہ سرائیکی قوم۔ اب اللہ نے کہا کہ وہ قوم کو لے کے آئے گا ۔ ہمارے ہاں تو قوم کا یہ تصور ہے ناں کہ یہ آرائیں قوم ہے یہ سندھی قوم ہے یہ مہاجر قوم ہے۔ اللہ کی قوم کون سی ہوگی اُس کی کیا زبان ہوگی؟اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لفظ قوم ہم نے دین سے چرایا ہے۔ قوم کے لفظ کا معنی ہمیں نہیں پتہ لیکن ہم نے اسے استعمال کرلیا۔ بہت سے لفظ ایسے ہوتے ہیں جن کے بنیادی معنی کچھ اور ہوتے ہیں اور پھر shadows of the meanings کچھ اور ہوتے ہیں۔ جیسے diplomatic immunityاب یہ کہاں سے نکلا یہ immune systemسے نکلا ہے۔ immunityکیا ہوتی ہے؟ ہمارے اندر ایک immuneسسٹم ہے۔ اُس کے اندر پروبا ئیٹکس ،انزائمز اور بیکٹریا ہوتے ہیں تاکہ باہر سے کوئی وائرس بیکٹیریا وغیرہ آئے تو وہ اُن کے خلاف قوت مدافعت پیداکریں ۔اسی طرح آپ کے جسم کے اندر بھی اللہ نے ایک قوتِ مدافعت رکھی ہے جس کو ہم immune system کہتے ہیں۔ اس سسٹم کا کام یہ ہے کہ جسم کے اندر جو مختلف قسم کے انزائمز پروبائیوٹیک، بیکٹیریا وغیرہ ہوتے ہیں وہ باہر سے آنے والے بیکٹیریا وائرس وغیرہ جو اندر آکر ہلچل مچا سکتے ہیں اور بیماری پیدا کرسکتے ہیں اُن سے لڑتے ہیں۔ جب وہ اُن سے لڑتے ہیں تو آپ کو بخار ہوجاتا ہے جب بخار ہوتا تو آپ پریشان ہوتے ہیں کہ چلو دوائی لیتے ہیں حالانکہ وہ تو لڑ رہے ہوتے ہیں یعنی اپنا کام کر رہے ہیں وہ ۔ اب اگر دونوں بیکٹیریا کی لڑائی ختم نہیں ہورہی ۔ دو ہفتے گزر گئے ہیں اور بخار پھر بھی نہیں اُتر رہا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لڑائی تو جاری ہے لیکن آپ کے بیکٹیریا کمزور پڑ گئے ہیں اب آپ کو انٹی بائیوٹیکس لینی پڑے گی اُس کے اندر مزید تروتازہ بیکٹیریا ہونگے یعنی باہر سے بیکٹیریا کی نئی کُمک آئے گی وہ ان نقصان دہ بیکٹیریا کو مارے گی ۔ اب اگر ایک دفعہ آپ وائرس کا شکار ہوئے آپ نے دوائی لی اورصحت یابی ہوگئی تو اس سے یہ ہوگا کہ اب اُس وائرس کے خلاف آپ کے جسم میں ایک قوت مدافعت ہوجائے گی ۔ اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ فلو والا کوئی بندہ آپ کے پاس بیٹھ گیا اور آپ دوبارہ وائرس کا شکار ہوگئے ۔ اب چونکہ قوت مدافعت پیدا ہوگئی ہے لہٰذا جتنے بھی فلو کے وائرس آجائیں اب آپ فلو کا شکار نہیں ہونگے ۔ یہ ہے immunity system ۔ یہاں سے وہ لفظ وہاں چلا گیا diplomatic immunityکہ اگر اس بندے نے کسی کو مار بھی دیا تو اُس پر سزا لازم نہیں ہوگی یہ تصور وہیں سے آیا ہے۔
تو کردار ایمان کا حصہ ہے جیسے حیاء ایمان کا حصہ ہے(حدیث)یعنی اگر مومن ہوگا تو حیاء ہوگی مومن نہیں ہے تو حیاء نہیں ہوگی۔اب اگر کوئی مومن نہیں ہے تو آپ اُس کو حیاء سکھاتے رہیں وہ سیکھے گا نہیں۔ وہ بے غیرت ہی رہے گا بے حیاء ہی رہے گا کیونکہ حیاء سکھانے سے نہیں سکھائی جاسکتی ۔ حیاء کا تعلق تو ایمان سے ہے جب مومن بنے گا تو ایمان کے اندر وہ چیزیں شامل ہیں جو انسان کو حیاء والا بناتی ہیں۔ اب حیاء کیا ہے۔ ہمارے مسلمان تو سمجھتے ہیں کہ عورت اگر آنچل اپنی آنکھوں کے اوپر لے لے ،دوپٹہ اوڑھ لے تو یہ بڑی حیاء والی ہے اس کو حیاء نہیں حجاب کہتے ہیں۔ حیاء کچھ اور ہے ۔حیاء انسان کی فطرت کے اخلاقی پہلوؤں میں سے ہےاگر حیاء آرہی ہے تو پھر یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میرا ذکر چلتا ہے یا نہیں ۔ حیاء بتا رہی ہے کہ اندر نور چلا گیا ہے۔ فرض کیا کہ کوئی کسی کو قرضہ دیتا ہے اور کہتا ہےکہ ایک مہینے بعد لوٹا دونگا اب ایک مہینہ گزر گیالیکن وہ انتظار کر رہا ہے کہ کب لوٹائیں گے پھر جب اُسےپتہ چلتا ہے کہ میرے تو حالات ہی خراب ہیں ۔اب حالات خراب ہیں اور میں قرضہ لوٹانے کے پوزیشن میں نہیں ہوں اور وہ کہتا کہ میں کیوں اس کو تنگ کروں جب ہونگے تو دے دے گا اور وہ رک جاتا ہے مجھ سے تقاضا بھی نہیں کرتا ۔یہ حیا ہے ۔ تو حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ ایمان نہیں ہوگا تو پھر شریعت آجائے گی شریعت کہے گی ایک مہینے کا وعدہ کیاتھا اس نے وعدہ خلافی کی ہے اس کو پکڑ کے مارو اور اپنا پیسہ واپس لو۔ لوگ تعریف تو شریعت کی بہت کرتے ہیں لیکن شریعت اللہ نے گندے لوگوں کے لئے بنائی ہے۔جو پاک طنیت لوگ ہیں اُن کو شریعت کی حاجت نہیں ہے۔ شریعت تو ڈنڈے کا نام ہے جو لوگ دوسروں کی حالت دیکھ کے صلہ رحمی کر رہے ہیں اُن کو صلہ رحمی کرانے کے لئے ڈنڈا مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے دائیں گال کے اوپر تھپڑ مارے تو اُن کو بایاں گال بھی حاضر کردو کہ اِدھر بھی مار لو۔ کتنے عیسائی آپ نے ایسے دیکھے ہیں۔ یہ بات عمل کرانے والی نہیں ہے اس کا تعلق آپ کی طنیتِ باطن اور آپ کی روح سے ہے ۔ فرض کیا آجکل ایسے ریموٹ کنٹرول بلب آرہے ہیں کہ جب چاہا پیلی روشنی کرلی جب چاہا لال کرلی۔ آپ ایسا ایک بلب خرید کے لائیں اور ریموٹ کنٹرول دباتے رہیں تو جب تک آپ اُس کو بجلی کے ساتھ اٹیچ نہیں کریں گے بلب کی روشنی تبدیل نہیں ہوگی ۔ جب اُس کا پلگ لگائیں گے تو وہ روشن ہوجائے پھر اُس کے اندر سے مختلف روشنیاں نکلیں گی اسی طرح

“انسان کی روح کے اندر کردار کی مختلف شاخیں پوشیدہ ہیں۔ بیدار ہونے کے بعد روح کی جیسی بھی صفات ہونگی کُھل کے سامنے آئیں گی اور آپ کے کردار کا حصہ بن جائیں گی۔ لہٰذا کردار کی تشکیل نہیں کی جاتی روح کو بیدار کیا جاتا ہے ۔باقی رہ گئی کردار کی تعلیم تو میں اُسے نہیں مانتا کیونکہ کردار کی کوئی تعلیم نہیں ہوتی کردار کا تعلق انسان کی فطرت سے ہے”

کردار انسان کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے۔جب تک تُو روحانیت اختیار نہیں کریگا تیرا کردار نکھر کے سامنے نہیں آئے گا۔ جو ازلی مومن ہوتے ہیں نفس کی ناپاکی کی وجہ سے اُن کے کردار کے اوپر بھی ایک گرد چڑھی ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگ ہونگے جو انتہائی بے حیائی کا شکار ہونگے لیکن جیسے ہی نور اُن کے دل میں آئے گا اور نفس پاک ہونا شروع ہوگا تو وہ گرد چھٹ جائے گی اور اُن کا اصل کردار سامنے آجائے گا۔ ایک ہوتا ہے کردار اور ایک ہوتا ہے رکھ رکھاؤ۔ دنیا نے رکھ رکھاؤ کو کردار کا نام دیا ہوا ہے تو انسان کی تہذیب انسان کے رہن سہن کا طریقہ ہر دور میں بدلتا آیا ہے۔ ایک وقت یہ بھی تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں ٹوائلٹ بنانے کے لئے تیار نہیں تھے اور پھر یہ وقت آگیا کہ ٹوائلٹ بھی بننے لگے۔تو انسان کے رہن سہن کا طریقہ قاعدے قوانین سے جُڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ آپ کے سلوک کا تعلق کردار سے ہے وہ قاعدے قوانین میں نہیں آتا۔ قاعدے قوانین بدلے جاسکتے ہیں رہن سہن کا طریقہ بدلا جاسکتا لیکن کردار ، خُلق ، آپ کی طنیت، آپ کی فطر ت کا تعلق چونکہ آپ کی روح سے ہے وہ نہیں بدلا جاسکتا ۔ آپ کتنے شفیق ہیں کتنے رحیم ہیں کتنے درگزر کرنے والے ہیں آپ کے اندر کتنی حمیت ہے کتنی غیرت ہے یہ ویسی ہی رہے گی جیسی آپ کے اندر آپ کی روح میں ہے ۔ اس کو نہ کم کیا جاسکتا ہے نہ بڑھایا جاسکتا ہے ۔ یہ کردار ہے۔ رکھ رکھاؤ اور ہے وہ ارتقاء پذیری کا شکار ہے لیکن کردار اس چیز کا شکار نہیں رہتا ۔ مومن کے اندر صلہ رحمی آج سے چودہ سو سال پہلے بھی تھی اورآج بھی ہے۔ مومن چودہ سو سال پہلے بھی شفیق تھا آج کا مومن بھی شفیق ہوگا۔ چودہ سو سال پہلے کا مومن بھی رحم دل تھا آج کا مومن بھی رحم دل ہوگا۔ یہ کردار ہے۔ پاکستان میں جو لوگ کردار کی تشکیل کر رہے ہیں وہ آپ کو اُلو بنا رہے ہیں۔ کردار کی تشکیل ہوتی ہی نہیں ہے۔ جیسا کردار اللہ نے بنایا ہے وہی رہتا ہے ۔ ایٹی کیٹس بدلتے رہتے ہیں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 17 اکتوبر 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس