- 904وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
عالم انسانیت کوامام مہدی کی کیوں ضرورت ہے ؟
آج نو محرم الحرام ہے اور نو محرم سرکار گوھر شاہی سے متعلق ہے،صرف نو محرم ہی نہیں سرکار نے پورے محرم کے مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے کہ اس کا تعلق ہم سے ہے ۔نو محرم اس لئے منایا جاتا ہے کہ وہ ایک لمحہ جلوہ ریاض کا عوام الناس کے سامنے آ گیا ۔جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں اس کا حال آپ لوگوں کے سامنے ہے اور مذہب کے اندر جو مختلف محکمے بنے ہوئے ہیں کوئی پیش امام ہے تو کوئی موذن ہے ،کوئی خطیب ہے تو کوئی عالم ہے اور کوئی مفتی ہے اِن سب کا کردار اور دین کے لئے خدمات کیا ہیں یہ آپ سب جانتے ہیں ۔لوگ دین کی خدمت کیا ہے اسی سے نابلد ہیں ۔دین کی خدمت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ دین اسلام کی وہ تشریح اور مفہوم عالم ِاسلام کو پہنچائی جائے جو تشریح اللہ اور اُس کے رسول چاہتے ہیں۔اب اللہ اور اسکا رسول دین کی خدمت کسطرح چاہتے ہیں یہ ایک طویل موضوع ہے ۔اُن کا چاہنا کیسے ہو گا اس کے لئے اللہ نے بہت سے روحانی محکمے بنائے ہوئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علی وسلم کے مرتبہ نبوت اور رسالت مدّنظر رکھتے ہوئے ، آپ کی بنائی ہوئی شریعت کے تحفظ کے لئے ایک عکسی فقر کی تعلیم کااجرا فرمایا جس کو “فقر باکرم”کہا گیا۔فقر باکرم میں ہر زمانے میں نمائندگی کے لئے 360 ولیوں کا پینل موجودرہے گاجو شریعت مصطفی کو بگڑنے نہیں دے گااور پھر اس پینل کا سربراہ غوث الزماں کے ذریعے حضورؐ اپنے پیغامات لوگوں تک پہنچاتے رہیں گے۔یہ شریعت کے ظاہری اور باطنی تحفظ کے لئے کیا گیا تھا لیکن دین صرف شریعت کا نام تو نہیں ہے ۔
دین کے دورُ خ ہیں ایک اُصولیاتِ زندگی اور دوسرا رب سے تعلق جوڑنا:
دین کے دو رخ ہیں ایک رخ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں جو زندگی آپ نے گزارنی ہے تو اصولیات ِ زندگی حضورؐ کی وضع کردہ شریعت کے تحت ہو گی ۔جو آپؐ نے رہنمائی اور آگاہی دی ہے کہ اِس کے تعلقات پڑوسیوں سے کیسے ہوں گے ، ماں کے تعلقات بیٹیوں کے ساتھ کیسے ہوں گے ، باپ کے تعلقات بیٹوں سے کیسے ہو ں گے ، شوہر اور بیوی کے آپس میں کیسے تعلقات ہوں گے ، اُن کے ایک دوسرے پر حقوق کیا کیا ہوں گے ۔ایک طرف تو دین یہاں دنیا میں جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے اور ایک رخ دوسرا بھی ہے دین ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ اب انسانوں سے تعلق اور میل جول کر لیا ، رشتے بنا لیئے اب دین کا دوسرا رخ اللہ سے تعلق بنانے کا ہے ۔تو دین کا وہ شریعت والا جو حصّہ تھا جس سے لوگوں میں کیسے اُٹھنا بیٹھنا ہے ، آپ کا معاشرہ کیسا ہونا چاہیےاور معاشرہ اسی اصول پر چلنا چاہیے جو حضورؐ کی وضع کردہ شریعت ہے تو وہ مسلم معاشرہ کہلائے گااور اس معاشرے میں ہدایات محمد الرسول اللہ کی طرف سے آئیں کسی اور کا اس میں عمل دخل نہ ہو ۔ جب تک ہدایات محمد الرسول اللہ کی طرف سے ہمیں آ رہی ہے تو وہ شریعت خالص اور زندہ ہے لیکن جب کوئی اپنی ٹانگ اڑاتا ہے اور اس میں ردوبدل کر دیتا ہے جو ا س کے حق اور فائدے میں ہوں تو یہاں سے معاشرہ بگڑ جاتا ہے ۔ شریعت کا یہ جو پہلا رخ تھا یہ بہت آسان تھا یہی بس چلتا رہا اور جو دوسرا رخ دین کا اللہ سے تعلق جوڑنے والاوہ ولیوں کے ذریعے چلتا رہا ۔دین میں جو تھوڑا تھوڑا بگاڑ پیدا ہوتا رہا ہے وہ اولیا کرام اور مجددین کے ذریعے اللہ اُس کو درست کروا دیتا ہے لیکن جس کسی دین کی میعاد ختم ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے قرآن اس کی وضاحت کرتا ہے ؛
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
سورة الاعراف آیت نمبر 34
ترجمہ : ہر اُمت کی ایک معیاد ہوتی ہے جب وہ ختم ہو جاتی ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتی ہے اور نہ آگے بڑھ سکتی ہے ۔
مذہب انسانوں کی مرضی سے نہیں چلتے ہیں بلکہ رب انہیں چلاتا ہے اسی لئے معیاد بھی مقرر کی ہے ۔ اب جو امام مہدی کا مرتبہ ہے یہ منجانب اللہ ہے ۔ ان چودہ سو سالوں میں درجنوں لوگ آ گئے ہیں جنھوں نے امام مہدی کے جھوٹے دعوے کر دئیے اور چلے گئے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ امام مہدی کو اللہ نے اُس وقت بھیجنا ہے جب دنیا میں کوئی بھی اللہ اللہ کرنے والا نہیں ہو گااور یہ حدیث ہے ۔
عن أنسٍ -رضيَ اللهُ عنْهُ- أنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا تَقُومُ السّاعَةُ حتَّى لا يُقَالَ في الأرضِ: اللهُ، اللہُ
صحیح مسلم (متفقہ علیہ)
اگر اس حدیث کی تشریح نہ بیان کی جائے تو دنیا میں کبھی بھی وہ وقت نہیں آئے گاکیونکہ ابھی تو ساری دنیا اللہ اللہ کر رہی ہے اس لئے یہ وقت تو امام مہدی کے آنے کا ہو ہی نہیں سکتا۔لیکن اس وقت جو ساری دنیا اللہ اللہ کر رہی ہے کیا وہ اللہ اللہ کرنا اللہ کی نظر میں قبول ہے یہ بات سمجھنا ہے ۔ وہ گھڑی اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک دنیا میں کوئی ایک بھی اللہ اللہ کرنے والا باقی ہے ۔کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ابھی امام مہدی کا زمانہ نہیں آیا ہے جب افراتفری ہو گی پھر امام مہدی تشریف لائیں گے ۔
کیا آج کا مسلما ن ویسے ہی جی رہا ہے جیسے حضوؐرجیئے؟
اب دین کے جو دو رُخ ہیں ایک انسانوں کے ساتھ میل جول اور ایک اللہ کے ساتھ میل جول ۔ اب انسان جو ہمارے سامنے ہیں اس سے میل جول تو سیکھ لیں گے لیکن دین کو دوسرا رُخ اللہ سے میل جول والا ہے وہ کیسے ہو گا کیونکہ اللہ تو ہمارے سامنے ہی نہیں ہے ، دین کا وہ رُخ جو ہمیں اللہ سے ملاتا ہے وہ کہاں ہے ۔احادیث کی کتابیں پڑھ کر اللہ کہاں ملتا ہے ۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے بھی کہا تھا : نماز روزہ کم سُٹو۔۔۔او رستہ کوئی دوجو۔۔۔ کہ نماز روزہ اچھا کام ہے لیکن جس طریقے سے اللہ ملتا ہے وہ کوئی اور ہی کام ہے ۔اب ہمارے معاشرے میں دیکھ لیں کہ جتنے لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں کیا اُن کو اللہ مل گیا ہے ۔دنیا میں اس وقت جتنے بھی دین آئے ہیں اُس دین کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ اُس دین پر کاربند ہیں یا نہیں ۔ دین میں عبادات صرف ایک رُخ ہے ، انسان کی شخصیت بھی دیکھیں ، اُس کے ایمان کو دیکھنے کے لئے اُس کا خُلق بھی دیکھیں ، اُس کا لین دین بھی دیکھیں کہ کتنا ایماندار ہے ، کتنا مخلص ہے ، کتنا ریاکار ہے اور کتنا فراڈی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی پانچ وقت کا نمازی ہو اور اس کی نمازیں قبول بھی ہوتی ہوں پھر بھی وہ شرابیں پیتاہو، اس کا لین دین خراب ہو ، کسی سے اُدھار لے لے تو اسے واپس نہ کرے۔ایک عورت حضورؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور کہا کہ یا رسول اللہ مجھے حیا دار بنا دیں میری نا چاہتے ہوئے بھی غیر مردوں پر نظر اُٹھ جاتی ہے ۔ تو آپؐ نے فرمایا پہلی نظر تو معاف ہے دوسری نظر نہ ڈالا کرو ۔ تو اُس عورت نے کہا کہ یارسول اللہ میں چاہتی نہیں ہوں پھر بھی میری نظر اُٹھ جاتی ہے ۔ تو آپؐ نے فرمایا جب تیرے دل میں ایمان چلا جائے گا تو توحیادار ہو جائے گی۔اب اس معاشرے میں آپ کسی کو حیادار کہہ سکتے ہیں ، کیا ہم اُن کو ایمان دار کہہ سکتے ہیں۔ ہم تو اُ س زمانے میں رہ رہےہیں جہاں الفاظ اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ایمان دار وہ ہوتا ہے جس کے دل میں ایمان آ جائے ۔
دین کا مطلب ہوتا ہے رہن سہن کا طریقہ،تو اسلامی طرز زندگی ہے محمد الرسول اللہ کی طرح جینا۔حضورؐ کی سیرت اور خُلق پڑھیں اور پھر حضورؐ کی ذات تک پہنچیں اور سر کی ان دو آنکھوں سے حضورؐ کا دیدار کریں ، دل کی ان دو آنکھوں سےحضورؐ کے دل کا دیدار کریں ، روح کی آنکھوں سے حضوؐر کی روح ملاحظہ کریں ، ایسے زندگی گزاریں جیسے حضورؐ نے زندگی گزاری، یہ ہے نظام مصطفی کہ ایسے جیئیں جیسے حضوؐر جیئے۔کیا آج کا مسلمان ایسے ہی جی رہا ہے جیسے حضوؐر جیئے۔آج جو علما٫لوگو ں کو خود کش بمبار بنا رہے ہیں ، قتل و غارت گری کی طرف مائل کر رہے ہیں یہ محمد الرسول اللہ کا طریقہ نہیں ہے ۔ آدم صفی اللہ سے پہلے جو پہلے آدم موجو د تھے وہ بھی قتل و غارت گری ہی کرتے تھے جبھی اللہ نے آدم صفی اللہ کو عظمت والا علم دے کر بھیجا تاکہ لوگ اس عظمت والے علم کی مدد سے اللہ تک پہنچ جائیں ۔ قتل و غارت گری کرنے والوں پر تو فرشتوں نے بھی اعتراض کیا تھابلکہ اتنا زیادہ مشکوک ہو گئے تھے کہ جب جنت میں آدم صفی کے جسم کو بنایا جا رہا تھا تو انہوں نے اللہ پر بھی اعتراض کر دیا کہ اے اللہ ! تو اس انسان کو پھر بنا رہا ہے یہ پھر زمین پر جا کر قتل و غارت کرے گا ، خون بہائے گااور تیری تسبیح اور حمد و ثنا٫ کے لئے ہم کافی ہیں ۔آج پھر وہی عمل ہو رہا ہے ایک دوسرے کا گلا کاٹا جانا ، قتل و غارت ، دہشت گردی یہ سارے افعال شیطانوں کی معراج ہے ۔اسلام تمھاری زندگیوں میں کہاں ہے مغربی معاشرے میں اسلام کا تصور ہی تبدیل ہو گیا ہے ا س میں کس کا قصور ہے !! قصور اُن لوگوں کا ہے جنکے دلوں میں اللہ کانام نہیں ہے ، دل اللہ کے نور سے عاری ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کی بد نامی کا باعث بن رہے ہیں ۔اسلام نے تو نفرت کرنا نہیں سکھایا تھا ، اسلام نے کسی کی جان لینے کا حکم نہیں دیا تھا۔قرآن نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ ” ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے “۔ آج کے دور میں اسلامی اقتدار لوگوں کے کردار میں نظر آتے ہیں ۔کتابوں میں تو اسلام موجود ہے لیکن لوگوں کے اندر اسلام ہے یا نہیں یہ دیکھنا ہے ۔
امام مہدی کا طریقہ ہدایت مذہبی نہیں ہے :
نو محرم الحرام کو امام مہدی سے کیوں نسبت ہے ، اُ ن کی تشریف آوری کیوں ہو گی ؟ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ امام مہدی صرف اُن کے لئے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے وہ تو پوری انسانیت کے لئے تشریف لائے ہیں جو بھی رب سے محبت کرنا چاہتا ہے ، اللہ سے تعلق جوڑنا چاہتا ہے ، جو بھی چاہتا ہے کہ میرا سینہ منور ہو جائے ، میرے دل میں اللہ اور اُس کا نور آ جائے امام مہدی اُس کے لئے ہیں ۔اللہ تعالی ٰ کے یہاں مذہبوں کی تفریق نہیں ہے تم خود کو مسلم ، ہندو، سکھ اور عیسائی کی بندشوں میں دیکھتے ہو لیکن اللہ بطور مخلوق سب کو دیکھتا ہے ۔سارے مذاہب تو اللہ کی طرف سے ہی بنے ہیں پھر اللہ تعالی ٰکسی ایک مذہب والے کی تو نہیں سنے گا وہ سب کی صداسنے گا۔امام مہدی کی تشریف آوری صرف اسلام کے لئے نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے جو اپنے رب کو دل میں بسانا چاہتا ہو۔اب اللہ نے پورا نظام ہدایت تبدیل کر دیا ہے اب ہدایت صرف امام مہدی کے ذریعے ہو گی ۔ اس سے پہلے اللہ کی ہدایت کا جو طریقہ تھا اسلام میں جدا ، عیسائیت میں جدا، یہودیت میں جدا اور سناتن دھرما میں جدا تھا اور اُن مذاہب میں جو اولیا٫ ، فقیراور درویش تھےان کو اللہ نے کہہ دیاتھا کہ یہ ہدایت کا کوٹہ ہے جس طرح بھی دینا چاہو دے دو ۔ یہی قرآن شریف میں بھی لکھا ہے کہ
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
سورة الفاتحہ آیت نمبر 7
ترجمہ : اُن لوگوں کا راستہ ہم کو بھی دکھا دے جن لوگوں پر تو نے اپنا انعام کیا ہے ۔
اب امام مہدی کو بھی اللہ نے کہہ دیا ہے جسطرح بھی آپ چاہیں ہدایت دے دیں ۔اب امام مہدی گوھر شاہی کا طریقہ ہدایت والا مذہبی نہیں ہے بغیر مذہب کے براہ راست اللہ کی محبت اور عشق کی تعلیم دے رہے ہیں ۔تم نےجس مذہب میں بھی عبادات کرنی ہے تو کرو اور نہیں کرنی تو نہ کرو لیکن اگر اللہ چاہیے تو یہاں آ جاؤ ۔ اپنے مذاہب کی عبادات سے کیا تم کو اللہ مل گیا تھا اگر عبادات نہیں بھی کرو گے تو کیا ہو جائے گا۔امام مہدی گوھر شاہی جس کو چاہیں جیسے چاہیں نواز دیں ،ہدایت صرف گوھر شاہی سےملے گی ۔
دور ِمہدی میں دیدارِ الہی کا طریقہ بھی تبدیل ہو گیا ہے :
اب سارا روحانی نظام ہی تبدیل ہو گیاہے ، اللہ تعالی کے دیدار کا طریقہ بھی بدل گیا ہے ، دلوں کا اللہ اللہ کرنا بھی بدل گیا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ من رانی فقد راالحق ۔۔۔ جس نے مجھے دیکھا اُس نے اللہ کو دیکھا ۔ اس کا لفظی مطلب یہی ہے کہ جس نے حضوؐر کو دیکھ لیا انہوں نے اللہ کو دیکھ لیا تھا لیکن اُن دیکھنے والوں میں ابوجہل بھی تھا ۔ من رانی فقد رالحق حضوؐر نے اپنے باطن کے لئے فرمایا تھا کہ اللہ کا نقش حضوؐر کے سینے میں ہے جس نے حضوؐرکے دل میں وہ اللہ کی تصویر دیکھ لی اس نے اللہ کو دیکھ لیا ۔اب جنہوں نے وہ اللہ کا نقش حضوؐر کے سینے پر دیکھ لیا اس کے باوجود بھی وہ ولی نہیں بنے کیونکہ ولی بننے کے لئے شرط ہے کہ جو رب کا نقش تو نے دیکھا ہے وہ تیرے دل میں بھی اُترے۔سب سے پہلے حضورپاک نے حضرت علی کو اللہ کا وہ عکس دکھایا جو حضوؐر کے دل پر تھا اور پھر حضرت علی سے پوچھا بھی کہ اے علی!تو نے اپنے رب کو کس کی صورت میں دیکھا ؟ توا نہوں نے کہا آپ کی صورت میں دیکھا ہے۔پھر حضوؐرنے ایک دن فرمایا چلو اللہ کو دیکھنے چلتے ہیں تو حضرت علی نے کہا یاررسول اللہ وہ تو میں نے دیکھ لیا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا نہیں اب جو اللہ کو دیکھیں گے وہ دیکھنا کچھ اور ہے ۔جو اس زمین پر ہی مولا علی کو حضوؐرنے اللہ کا رُخ دکھایاوہ حضوؐر کے اندر ہی رہا،وہاں سے نکل کر مولا علی میں تو نہیں آیا لیکن ولایت کے لئے شرط ہے کہ وہ تیرے اندر جائے ۔ اللہ کو دیکھ کر اُس کا عکس تیرے اندر جائے یہ چیز صرف مقام محمود پر ہوتی ہے ، زمین پر اُس کو دیکھ بھی لو تو اُس کا عکس تمھارے اندر نہیں جائے گا۔دوسری بات یہ کہ حضوؐرنے مولا علی جو چیز دکھائی وہ خود عکس تھا ، عکس سے مزید آگے اظہار نہیں ہوتا ۔جو ذات ِقدیم ہے اُس سے عکس کا اظہار ہو گایہی وجہ ہے لوگوں کو دیدار ِ الہی کے لئے اوپر جانا پڑا ۔وہ مقام محمود پر گئے اور اللہ کے سامنے روبرو کھڑے ہوئے تو لطیفہ انا کے اوپر اللہ کا نقش آ گیا ، پھر لطیفہ انا سےوہ عکس آنکھوں میں آیا ، آنکھوں سے زیادہ کشش دل میں ہوتی ہے پھر وہ دل میں آ گیا ۔جب اللہ کا وہ عکس دل پر آ گیا تو اُس کے لئے ارشاد ہوا کہ اب تو نیچے چلا جا ، جو تجھے دیکھ لے وہ مجھے دیکھ لے ۔توحید کا تقاضہ ہے کہ جیسےاللہ چلتا ہے محمد الرسول اللہ بھی ویسے چلیں ، جیسے اللہ بولتا ہے محمد الرسول اللہ بھی ویسے بولیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد الرسول اللہ زمین پر چلیں اور اللہ کے چلنے کا طریقہ محمد سے جدا ہو۔ سراپا وہی ہو جائے۔ جس نے بھی اللہ کو چلتے پھرتے دیکھنا ہے وہ محمد الرسول اللہ کو دیکھ لے ۔اب وہ جو اللہ کا نقش محمدؐ کے سینے میں آ گیا تھا وہ محمد الرسول اللہ بن کر اُمت کی خبرداری کرتا رہا لیکن اُ س کو دیکھ کر کوئی ولی نہیں بن سکتا کیونکہ وہ تو خود اللہ کا عکس ہے اور عکس سے عکس نہیں نکل سکتا ۔اصل کے سامنے جب جاؤ گے تو یہ لطیفہ انا ہے اس کے اندر اللہ نے طاقت وصول رکھی ہے اور اللہ کے پاس طاقت عطاہے یہ جیسے ہی اُس کے سامنے جائے گا اللہ اپنی ذات کا اظہار کرے گا تو اُس کا ایک عکس نکل کر لطیفہ انا میں آ جائے گا۔پھر لطیفہ اناسے وہ عکس نکل کر دل میں آ جاتا ہے جب دل میں وہ عکس آ جائے تو پھر وہ اللہ کا ولی ہے اور اس پر 360 تجلیاں لازم ہو گئیں ۔لہذا اللہ کا دیدار کرنے کے لئے مقام محمود پر جانا ضروری ہو گیا کیونکہ اصل تو وہیں موجود ہے ۔ مولا علی کے سینے میں بھی اللہ کا نقش ہے ، حضورپاک کے بھی ، غوث پاک کے بھی ، ہم باطنی طور پر اِن کے دلوں میں جھانک بھی لیں اور وہ اللہ کا عکس دیکھ بھی لیں پھر بھی ولی نہیں بن سکتے کیونکہ ولایت کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کا عکس دل میں آئے ، جس کے وہ عکس آ گیا وہ اللہ کا ولی بن گیا ۔اب امام مہدی کے طریقے میں دیدار الہی میں تبدیلی کیا ہوئی ؟
“جب اللہ نے خود کو دیکھنا چاہا کہ میں کیسا ہوں اُس کا سارا حسن مجسم ہو کر سامنے نمودار ہو گیا جس کو دیکھ کر اللہ نے سات جنبشیں لیں ، جس کو عکس اوّل کہتے ہیں ، اُس عکس اوّل کو کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔ امام مہدی گوھر شاہی اُس عکس ِاوّل کو نیچے زمین پر لے آئے ۔ اُ س عکس اوّل کےجلوے ایسے ہیں جو مقام محمود پر بھی نہیں ہیں ۔ اب وہ نیچے آ گیا اور اُ س کو دیکھو گے تو عکس بن جائے گا۔پہلے وہ لوگ آئے تھے نیچے جنہوں نے اللہ کو دیکھا تھااور عکس اُن کے دل پر آیا تھا اور اب وہ نیچے آ گیا ہے جس کو دیکھو گے تو عکس تمھارے اندر آ جائے گا۔اب سرکار گوھر شاہی کے لئے دیدار ِ الہی ذکر ِ قلب سے زیادہ آسان ہے “
پہلے دیدارِ الہی کے لئے ساتوں لطیفے روشن کرو ، نفس کو پاک کرو، مقام ملکوت ، جبروت سے ہوتے ہوئے مقام محمود تک جاؤ پھر اللہ کا دیدار ہوتا تھا اور اسی میں ساری زندگی گزر جاتی تھی لیکن امام مہدی گوھر شاہی اللہ کو اُٹھا کر یہاں اپنے ساتھ لے آئے ہیں کہ دیکھ لو ۔ یہ بہت بڑا انقلاب ہو گیا ۔ پہلے ذکر قلب کی دعوت تھی اب لقا باللہ کی دعوت ہے ۔سلطان صاحب کہتے ہیں کہ سات دن کے اندر ذکر قلب جاری ہو جاتا ہے اور امام مہدی گوھر شاہی کے یہاں دوسرے منٹ میں دیدار ِالہی ہو جاتا ہے ۔امام مہدی کے آنے کے بعد یہ تبدیلی آ گئی ہے۔ اب اگر تمھارا شوق لطیفے جاری کرنے کا ہے تو کر لو اور اگر منزل کی بات ہے تو پھر لطیفوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس تک پہنچنے کے لئے تم کو لطیفوں کو بیدار کرنا تھا ، جسوں کو نکالنا تھا اور وہ یہاں آ گیا ہے تو پھر مقام محمود تک جانے کی کیا ضرورت ہے ۔اب امام مہدی گوھر شاہی جس کو چاہیں منٹوں اور سیکنڈوں میں اللہ کے دیدار تک پہنچا دیں اور وہ دیدارِ الہی عطا فرمائیں جو اس سے پہلے ہوا نہیں ہے، اُس کا دیدار جس کے اوپر اللہ خود عاشق ہے اور یہ دیدار عوام الناس کے لئے ہےخاص کے لئے نہیں ہے ۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اب جب اما م مہدی اتنا بڑا دیدار دیں گے تو قوت برداشت بھی ساتھ ہی عطا ہو تی ہے ۔ اب تو بس صرف یہی کہنا ہو گا ” سرکار گوھر شاہی مجھے اللہ کا دیدار کرا دیں ” اور پھر سرکار کی کرم نوازی آپ دیکھیں گے ۔جو چیز مقام محمو د پر ملتی تھی ا س کے لئے وہاں تک جانا ضروری ہے ۔ اللہ کا دیدار کرنے کے لئے روحانیت کی ضرورت تھی کیونکہ بنا٫ روحانیت کے لطائف کو منور کئے بغیر اللہ تک نہیں پہنچ سکتے لیکن اب اس دنیا میں امام مہدی کی نظر کرم سے اُس سے زیادہ شدت والا ،اُس سے زیادہ قرب والا دیدار نصیب ہو جائے اللہ کا تو پھر روحانیت کی کیاضرورت ہے !! اب انسانیت کو ضرورت نہ روحانیت کی ہے ،نہ نورانیت کی ہےبلکہ انسانیت کو ضرورت گوھر شاہی کی ہے ۔سرکار گوھر شاہی کی ادنی ادا یہ ہے کہ تجھے اللہ کے دیدار تک پہنچا دیں گے ۔
امام مہدی کا آنا ذات ِریاض کی تیاری ہے :
پہلی دفعہ نو محرم الحرام کو سرکار گوھر شاہی نے اپنا عالم ِغیب کا جلوہ مشتہر فرمایا یہ وہ لمحہ ہے جس میں سرکار تشریف فرما ہیں اورسرکار کا جو غیبی جلوہ ہے وہ مشتہر ہو رہا ہے اور سرکار کی گفتگو کہ اس وقت جو فرمایا کہ مستقبل میں ہمارے کچھ ایسے جلوئے ہیں جو پہلے اِ س دنیا میں نہیں آئے ۔ اب ہم نے اُن جلوؤں کو دنیا میں آنے کی اجازت دے دی ہے ، اب آئیں گے تو ہم یہاں نہیں ہوں گے اور اُن جلوؤں کا بیوی بچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ صرف انہی کو پہچانیں گے جس میں خاص نور ہو گا۔ اب امام مہدی کی جو ذات ہے، اُن جلوؤں کا آنا اُس ذات کی تیاری ہے ۔ امام مہدی کا جو روپ اور مرتبہ ہے کبھی اُس میں وہ اللہ کا عکس اول والا وجود جب غالب ہو گاتو صرف اُن کو پہچانے گا جن میں صرف اللہ کا نور ہو گااور پھر جب خاص نور والا جلوہ مبارک نمایاں ہوگا تو وہ صرف اُن کو پہچانے گا جن میں وہ خاص نور ہو گا۔لہذا ہم دونوں نور کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں ۔ لوگوں کو وہ خاص نور بھی دے رہے ہیں اور اللہ کا نور بھی دے رہے ہیں کیونکہ یہ اما م مہدی کے دو رُخ ہیں ۔جسطرح گنبد خضرا اُوپر سے لا ل ہو گیا ہے اُسی طرح حجر اسود کے مقام پر بھی وہاں خون ٹپک رہا ہے ۔اب یہ جو امام مہدی کی خاص تعلیم ہے وہ آج ہم نے تھوڑی سی بیان کی ہے کہ جو مقام محمود پر لینے جاتے تھے وہ اب یہیں پر مل جائے گا اور یہ وہ طریقہ ہے جس سے روحانیت کی اہمیت ختم ہو گئی ۔صرف اتنی اہمیت رہ گئی ہے کہ صرف قلب تک پہنچ جاؤباقی لطیفوں کے چھوڑو ۔اس طرح لوگوں کو زمین پر بیٹھے بیٹھے اللہ کا دیدار ہو جائے گا، وہ دیدار ہوش و حواس میں بھی ہو سکتا ہے۔
“امام مہدی کے اندر جو اللہ کا وجود ہے وہ اللہ سے عشق کرنے والوں کو منزل عطا کرے گااور جو خاص نور والا جلوہ ہے وہ لوگوں کو عالم غیب میں بھیجنے کا بندوبست کرے گا”
جب ہم ریاض الجنہ گئے تو وہاں اپنا گھر دیکھا اور اپنے استعمال کی چیزیں بھی دیکھیں اور اپنا کمرہ بھی دیکھا ، پھر ہم بھول گئے کہ اس دنیا میں بھی تھے کبھی ۔جب ریاض الجنہ سے چکر لگا کر یہاں آئے تو پھر لوگوں سے بات چیت ہوئی تو اپنے ایک ساتھی (اعظم) سے کہتے سنا کہ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا ہے کہ عالم غیب کی روحیں یہاں نہیں آتیں ۔ عیسیٰ، الیاس ، ادریس اور گوھر شاہی بھی وہیں سے آئے ہیں ۔پھر یہ خیال آیا کہ اگر عالم غیب کی روحیں یہاں اس دنیا میں نہیں آتی ہیں تو پھر ہم کیسے آئے تھے؟جب دوبارہ ریاض الجنہ جانا ہوا تو سرکار کی بارگاہ اقدسہ میں یہ سوال رکھ دیاکہ ہمارا سارا گھر بار تو یہیں پر تھااور عالم غیب سے اس دنیا میں اللہ برادری سے تین لوگ عیسیٰ، الیاس اور ادریس گئے ہیں اور آپ بھی تشریف لائے ہیں تو پھر ہم لوگ کیسے گئے وہاں پر ؟ سرکار نے فرمایا تمھارے جو باطنی حلیئے تھے ریاض الجنہ سے نکلتے وقت ہم نے اپنی آستین میں ڈال لئے تھے ، تم ہمارے ساتھ آئے تھے ۔
تھے ازل سے آستین ِریاض میں مستور یہ
پھر کیا جب قصدِ دنیا آئے یہ ہمراہ ریاض
عالمِ غیب اور عالمِ عشق کا حسین امتزاج:
تو سرکار اپنے ساتھ آستین میں ڈال کر یہاں لے آئے پھر نہ جانے کسطرح کن کن جسموں میں لوگوں کو ڈالا ان کی تعداد کوئی گیارہ یا بارہ تھی جو آستین میں چپکے ہوئے آئے تھے ۔اُن کی تعداد گیارہ یا بارہ ہے لیکن یہ سرکار کی مرضی پر منحصر ہے آستین میں تو اور بھی ہیں چاہیں تو کسی میں پیوستہ کر دیں ، نہ چاہیں تو اپنے ساتھ آستین میں ہی ریاض الجنہ واپس لے جائیں ۔پھر یہ دیکھا کہ موت ہو گئی اور اس کے بعد بھی نہیں مرا ۔ مرنے کے بعد مرا نہیں بلکہ اور زیادہ طاقت ور ہو گیا ۔ پھر ایک دو گھنٹے مرا رہا اور پھر زندہ ہو گیا ۔پھر جب زندہ ہو گیا تو کمزور تھا ۔ اب وہ کمزور کیسے ہوا ؟ اُن کا جو سینہ مبارک ہے اُس میں دو مقامات یا دو پنجرے ہیں ۔ایک طرف جو آستینِ ریاض سے نکلی تھی وہ روح آگئی دوسری طرف یومِ ازل میں اقرار کرنے والی روح آ گئی ۔وہ جو یوم ازل والی تھی وہ اس لئے آئی کہ یہ اس دنیا کا شہری ہے کوئی تنقید نہ کر سکے ۔ یہ قانون ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے عالم کی ہستی یہاں اس دنیا میں نہیں آسکتی، پھر جبرائیل آ کر پوچھتا ہے کہ تم یہاں اس دنیا کے نہیں ہو یہاں سے چلے جاؤ۔تو آدھے پنجرے میں وہ یوم ازل والی روح آ گئی ، نظر وہی روح آئے گی اور جب وہ گھومے گا تو آستین ریاض والی چیز نمایاں ہو جائے گی ۔یہ ضم نہیں ہے بلکہ اُس سے آگے کی چیز ہے ۔اب وہ جو آستین والی چیز تھی وہ اُس کے لئے ذاتی جبرائیل ہے ۔جب کوئی مسئلہ ہو گا وہ ذاتی جبرائیل نکل کر جائے گا دیدار کرے گی ، گفتگو کرے گے ،پلاننگ کرے گے اور پھر واپس آ جائے گے۔فرض کیا بیت المامور پر کوئی میٹنگ ہو رہی ہے تو ہمیں کوئی دعوت تو نہیں دے گا، اگر ملکوتی کشف میں دیکھ بھی لیا تو اس کے بعد بھی جانے کی اجارت تو نہیں ہو گی لیکن اگر ذاتی جبرائیل جو ہے اگر اس کو کہا کہ وہاں لے کر جاؤ ، وہ ذاتی جبرائیل روح کو گود میں بیٹھا کر وہاں لے گیا ۔اس کو کہا کہ مقام محمود پر جانا ہے تو وہ وہاں پر لے جائے گا۔اس کو اگر عالم احدیت میں جانے کا کہا تو وہ وہاں لے کر چلا گیا ۔ اس کے پاس اتنی طاقت ہے اگر کوئی ذکر قلب کے لئے آئے تو وہ اُس کے حلیئے کو اُٹھا کر عالم احدیت میں رب کے روبرو لے کر چلا جائے اور کہے کہ یہ تمھارا ذکر لینا چاہتا ہے اس ذکر دے دو لیکن اگر وہی بندہ بدتمیزی سے بات کرے کہ چلا کر دکھاؤ تو مانوں، تو پھر وہ نہیں چلائے گا۔ اور پھر وہاں جا کر یہ بھی پتہ چلا کہ ذکر فکر میں لگانا انتہائی گھٹیا کام ہے ۔اگر تو ذکر کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے تیرا دل میلا ہے ، اس میل کو دھو لے ساری زندگی ذکر تو نہیں کرے گا۔حدیث ہے کہ ہر چیز کو دھونے کا کوئی نہ کوئی آلہ ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ ذکر اللہ ہے ۔تو دلوں کو میل کو دھونے کے لئے دل نے اللہ کی ، جب دل پاک و صاف ہو گیا تو پھر کیا کرے گا؟ پھر اس کے بعد جلوہ کرے گا۔
اب جو سرکار کے جلوئے نو محرم الحرام سے آنا شروع ہوئے ، فرض کیا آپ کا سینہ اللہ اللہ سے منور ہو گیا ، اللہ کا دیدار بھی ہو گیا ، اللہ کا عکس بھی آ گیا ۔ اب امام مہدی آئے اور جس وقت امام مہدی سامنے بیٹھے ہیں اس وقت امام مہدی کے اوپر نمایاں ریاض الجنہ کے جلوے ہیں اور آپ ایسی صورت میں سامنے چلے گئے تو سرکار فرما دیں گےکہ تم کون ہوں کہاں سے آئے ہو چلو جاؤ یہاں سے ۔ پھر وہ آپ کا دیدارِ الہی کہاں جائے گا!!! آپ مشکوک ہو جائیں گے کہ مجھے تو اللہ کا دیدار ہوا ہے اور امام مہدی مجھے پہچان ہی نہیں رہے ہیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ جہاں دلوں میں اللہ اللہ آیا ہے وہیں اُن جلوؤں کو جو ریاض الجنہ سے امام مہدی کے ساتھ آئے ہیں اُن کی شناسائی بھی حاصل ہو جائے۔ پھر امام مہدی میں عکس اول نمایاں ہو یا ذات ریاض کے جلوئے نمایاں ہوں دونوں حالتوں میں تم پہچانے جاؤ۔دنوں حالتوں میں پہچانے جانے کے لئے ہم نے امام مہدی والا “اسم اللہ ” متعارف کروایا کیونکہ اُ س کے آخر میں رٰ ہے ، وہ اللہ اللہ کرتے رہیں گے تو دونوں جلوؤں کے آگے مقبولیت ہو جائے گی ۔پھر اُن میں جو زیادہ طاقت ورہوا ُس کی طرف آپ کا رجحان خود بخود ہو جائے گایہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے اُن دونوں جلوؤں کے اوپر منحصر ہے جو بھی آپ کو چُن لے ، جو چُن لے گا اس کا نام گونجتا رہے گا ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ امام مہدی گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کی 30 ستمبر 2017 کو نو محرم الحرام کےموقع پر خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔