کیٹیگری: مضامین

اسمِ اللہ کی کتنی اقسام ہیں؟

اسمِ اللہ دو طرح کا ہے ایک اسمِ اللہ قولی ہے جو کہا جاتا ہے اور ایک فعلی ہے۔ یہ تعلیمِ حقیقت کی پہلی بات ہے۔

1. قولی اسمِ اللہ:

ایک اسمِ اللہ وہ ہے جو آپ کی دھڑکنوں میں جا کر مل جائے گا اور جو آپ کا لطیفہ قلب ہے وہ اس اسم کو دہرائے گا، یہ قولی اسم ہے۔

2. فعلی اسمِ اللہ:

جب فعلی اِسم دل کے اندر جائے گا تودل بھی اُس نام کو دہرائے گا اور وہ نام خود بھی اپنے آپ کو دہرائے گا تو دُگنی آواز آئے گی۔

اللہ تعالی کا کونسا اِسم ہرانسان کو فیض دیتا ہے؟

دل میں نور بننے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تولفظ اللہ آپس میں ٹکرائے اوراُس سے رگڑا لگ کرنور بنتا ہے۔ فعلی اسم اللہ میں دھڑکن دھڑکن سے نہیں ٹکرائے گی بلکہ اُس میں دل اللہ کہے گا اور اسمِ اللہ بھی اللہ کہے گا تو تمہارے دل اور اسمِ اللہ دونوں کا رگڑا لگے گا، یہ مختلف نور ہے۔ ایک جگہ قرآن مجید میں حضورؐ کو خطاب ہوا کہ

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ
سورة البقرة آیت نمبر6
ترجمہ: ان لوگوں نے حق کوجھٹلا دیا ہے تو ان کیلئے برابر ہے آپ ان کو ڈرائیں یا دھمکائیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ موٴمن نہیں بنیں گے۔ اللہ نے ان کے دلوں کی زندگیوں کو باطنی سماعت اور بصیرتِ باطن کوختم کردیا ہے۔

اس آیت کی مزید تشریح یہ ہے کہ اِن کو نہ رب کی آواز سنائی دے گی، نہ کسی ہستی سے خواب اور باطن میں ملاقات ہوسکے گی اور نہ حقیقت میں دیکھ سکیں گے تو جن کے دل مرگئے اورجن کے کانوں اور آنکھوں پرپردے ڈال دئیے تواُن کو پیغامِ حق دینا فضول ہے۔ اس لئے کہ جس دل میں اسمِ اللہ کو سمانا ہے وہ دل ختم ہوچکا ہے۔ جن کے دل مردہ ہوجائیں تووہ کسی کے دین میں داخل نہیں ہوسکتے اگر وہ ہوبھی جائیں توفرقہ واریت کا شکار ہوجائیں گے۔ دل مرگیا ہے تواب دل بول نہیں سکتا تواس لئے ان کوپیغام دینا فضول ہے لیکن امام مہدیؑ کیلئے یہ آیا ہے کہ چہ زندہ چہ مردہ چہ مسلم چہ کافر۔ اب ہم سوچتے تھے کہ جن کے دلوں پراللہ نے مہرلگادی ہے اورجن کے قلب مردہ ہوگئے ہیں تووہ دل اللہ اللہ کیسے کریں گے! پھرہم کویہ رازدیا گیا کہ ایک اسمِ اللہ تووہ تھا جوقولی تھا جس کودل کی زبان ادا کرے گی اورنوربنائے گی اورایک اسمِ اللہ فعلی ہے جس میں جودل مربھی گیا ہے تومرنےدو کیونکہ اُس دل کواللہ کرانا ہی نہیں ہے یہ اسم خودہی اپنا نام لے گا۔ پھرجب یہ اسم جن کے دل مرگئے تھے اُن کودیا توہم نے دیکھا کہ اُن کےسینوں سے بھی اللہ کی آوازیں آنے لگیں۔ باطن میں ولی پریشان ہوگئے کہ اس کا دل تومرگیا ہے لیکن آواز کیسے آرہی ہے تو اُن کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اسمِ اللہ دوطرح کا ہے ایک قولی ہے اورایک فعلی ہے۔ جوفعلی اسمِ اللہ ہے یہ امام مہدیؑ سرکار گوھرشاہی کی خصوصی عطا ہے۔ اِس سے پہلے متعارف نہیں ہوا۔ جوفعلی اسمِ اللہ ہے یہ اسمِ بامسمّہ ہے اوراِس کی خود اپنی آواز ہے۔ یہ دل کے اندرگونجتا ہے۔ جوقولی اسمِ اللہ ہے وہ زبانِ قلب کی ادائیگی سے ذکرکرے گا۔ اگرزبانِ قلب نہیں ہوگی تووہ خاموش رہےگا۔ اُس اسمِ اللہ میں بولنے کی تاثیر نہیں ہے۔ اِس لئے وہ اسمِ اللہ صرف اُن کیلئے کام آسکتا ہے جن کے دل زندہ ہوں۔ پھرایک دفعہ سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
سورة البقرة آیت نمبر20
ترجمہ: اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

جب اللہ ہر چیز پر قادر ہے تواُس کا اسم بھی ہر چیز پر قادر ہوگا۔ جواسمِ اللہ فعلی ہے وہ ہرشے پر قادر ہے۔ ایک اسمِ اللہ یہ ہے کہ صرف موٴمنوں کے دلوں میں داخل ہوتا ہے کیونکہ یہ کافروں اور منافقوں کوفیض نہیں دیتا لیکن ایک اسمِ اللہ فعلی ہے جوموٴمن ہو کافر یا منافق کوئی بھی ہو اورکسی بھی دین یا دھرم کا ہو یہ ہرشے پرقادرہے۔ قولی اسمِ اللہ کُفراورنفاق کومٹا نہیں سکتا لیکن جواسمِ اللہ فعلی ہے یہ کفراورنفاق کومٹا دیتا ہےاور یہ صرف امام مہدی گوھرشاہی کی عطا ہے۔ جن کے دلوں میں قولی اسمِ اللہ گیا اُن کوذکربہت محسوس ہوتا ہے لیکن جن کے اندرفعلی اسمِ اللہ گیا وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ذکرہی نہیں چلتا کیونکہ اُن کا دل ذکرنہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ خود ذکرکرتا ہے۔ یہ باتیں وہ نہیں ہیں جوفقیروں اورولیوں کے پاس ہوں بلکہ یہ اللہ کے راز ہیں۔ اِن کا نہ قرآن میں ذکرآیا ہے اورنہ ہی اِن کا حدیث میں ذکرآیا لیکن آپ جھٹلا نہیں سکتے۔ یہ فعلی اسمِ اللہ ہے جو دل کوذکر میں نہیں لگاتا کیونکہ یہ خود ہی اُچھل کر ذکرکرتا ہے۔ جب یہ خود ہی ذکراللہ کرتا رہتا ہے تواِس کے انوار و تجلیات دل کے اوپر پڑتے رہتے ہیں تودل اِس سے خود ہی منورہوجاتا ہے۔

اسمِ ذات قولی اور فعلی کیسے عطا ہوتا ہے؟

فعلی اسمِ اللہ کواُتارنا پڑے گا۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولً
سورة الاٴحزاب آیت نمبر72
ترجمہ: ہم نے چاہا کہ اِس امانت کو پہاڑوں پرنازل کریں توانہوں نے کہا کہ ہم میں اِتنی تاب نہیں ہے جب سمندروں کے اوپرنازل کرنے کو کہا تو سمندروں نے بھی کہا کہ ہم میں بھی اِتنی تاب نہیں ہے اور پھر فرمایا کہ انسان جوبہت بڑا جاہل ہے وہ اِس کا متحمل ہوگا۔

اس آیت کی مزید تشریح کرتے ہیں کہ اِس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اُس امانت کوجاہل نے برداشت کیا تو کیا جوانبیائے کرام آئے وہ جاہل تھے! جاہل وہ ہوتا ہے جس کا دل سیاہ ہو۔ اس بات سے پہلے تک آپ کا یہی گمان تھا کہ اگر اللہ نے کسی انسان کوعطا کیا ہے توکسی نبی کی بات ہو رہی ہوگی کہ پہاڑوں اورسمندروں نے منع کیا اورایک انسان اِس کا متحمل ہوا کیونکہ وہ جاہل ہے۔ نبی اور ولی کا دل توجاہل نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اُس اسمِ اللہ کی بات ہی نہیں ہے بلکہ اُس اسمِ اللہ کی بات ہے جوجہنمیوں کوبھی اللہ کا فرمانبرداربنا دیتا ہے۔ جوجاہل قلب جس میں سیاہی بھری ہوئی ہووہ سیاہی بھی اِس سے پاک صاف ہوجاتی ہے۔ اس میں ازلی جہنمیوں کا ذکرآیا ہے کہ وہ انسان جس کا دل جاہل یعنی دل میں سیاہی ہواورنورسرائیت کرنے کے قابل نہ ہو، یہ اسمِ اللہ اُن کیلئے امانت رکھی ہے۔ یہ امانت سیدنا امام مہدی سرکارگوھرشاہی کے دل میں نہیں بلکہ آپ کے انگوٹھے کے ناخن میں اُتری ہے۔ پھریہ ہوگا کہ یہ اِسم ذات اللہ فعلی چلتا، رگوں میں دوڑتا اورجہاں جہاں سے دوڑتا توسرکار گوھرشاہی کے پورے وجود پراسمِ اللہ نظرآتا۔ یہ چلتا ہے جس سے کبھی بال رقص کرتے ہیں اور کبھی انگلیوں پرظاہرہوگیا۔ قرآن کی یہ آیت اسمِ ذات اللہ فعلی کیلئے اُتری ہے۔ پھر قرآن نے کہا کہ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولً کہ اُس انسان نے اس کوبرداشت کیا جوجاہل اورظالم تھا۔ ظالم کا مطلب وہ انسان نہیں ہے جولوگوں پرظلم کرتا ہے بلکہ یہ عربی کا ظالم ہے جس کا مطلب ظلمت اور تاریکی ہے۔ إِنَّهُ كَانَ کہ وہ ازل سے ظلمت میں گِرا ہوا تھا یعنی جُہل کی سیاہی میں گِرا ہوا تھا جس کو بنایا ہی جہنم کیلئے تھا۔ وہ آخری زمانے میں اِس کا متحمل ہوسکے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ

فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ
سورة الزمرآیت نمبر22
ترجمہ: اُن کیلئے تباہی ہے جن کے دل سخت ہوگئے کہ اللہ کا ذکراُن میں داخل نہیں ہوتا۔

اگراللہ کا نام پیچھے رہ گیا اورسختی بازی لے گئی تو یہ تو بہت افسوس کی بات ہے۔ اللہ کا نام تو ہر شے پرقادر ہے۔ اب اگرہم یہ کہیں کہ اسمِ ذات 1400سوسال پہلے آیا لیکن وہ جواسمِ ذات تھا وہ اسمِ ذات کا کوئی جثہ تھا۔ وہ اسمِ ذات نہیں تھا۔ جورب کا اصلی نام ہے وہ الرٰ ہے جس کے آخرمیں “را” آتا ہے اوراُس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اُس کے آگے نہ کافرٹھہرسکتا اور نہ منافق ٹھہرسکتا ہے اوراُس کے آگے نہ ظالم اور نہ جاہل ٹھہرسکتا ہے کیونکہ اُس کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اُس کی شرط نہیں ہے کہ تم ازلی منافق ہو، موٴمن ہویا ولی ہو کیونکہ وہ اسمِ اللہ ہرشے پر قادر ہے۔ قرآن مجید میں دوحروف آئے ہیں الم اور الرٰ۔ جو”الم” میں الف ہے وہ اسمِ اللہ قولی ہے اور اس کیلئے شرط ہے کہ تم اپنے آپ کو پاک کرو تو پھر تمہیں اُس سے فیض ہوگا۔ اسی لئے قرآن مجید میں آیا ہے کہ

هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
سورة البقرة آیت نمبر2

اُس کیلئے تم کوپاک ہونا ہوگا۔ ایک لفظ اللہ “الرٰ” میں آیا ہے اوراس کیلئے شرط نہیں ہےکہ تم پاک ہو۔ وہ جس کے اندر بھی چلا گیا اُس کو پاک کردے گا۔ ایک الف کے بارے میں سلطان حق باھو نے فرمایا کہ
الف اللہ چمبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ھُو
نفی اثبات دا پانی ملیا ہررگے ہرجائی ھُو

وہ اسمِ اللہ قولی تھا اور اِس اسم کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اللہ سے پوچھیں کہ اجازت ہے اور پھر اللہ فرمائے گا کہ اِس کی دیکھ بھال کون کرے گا تواِس اسم کیلئے توبہت شرائط ہیں۔ جواسمِ اللہ فعلی ہے اس کیلئے اوپرسے کوئی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ اپنا ذکر خود ہی کرے گا۔ اجازت تب تھی جب گوشت کا لوتھڑا اُس کا نام لے تو اُس گوشت کے لوتھڑے کیلئے اجازت ضروری ہے لیکن یہاں تواُس گوشت کے لوتھڑے نے کچھ کرنا نہیں ہے بلکہ اسمِ اللہ فعلی نے خود ہی اپنے نام کو بار بار دہرانا ہے۔ اس اسم کیلئے امام مہدیؑ نے فرمایا کہ اس کیلئے صرف میں ہی ہوں۔ جو اسمِ اللہ فعلی ہے اس میں رارام کا بھی نورہے، وائےگروکا بھی نور ہے۔ مثال کے طورپراگر ہم کسی کو وائےگرو کا ذکر دے دیں تو چند دنوں بعد وہ کہے گا کہ اب وائےگرو کی جگہ اللہ اللہ کی آواز آرہی ہے اور دوسرے کو اللہ کا ذکر دے دیں توشروع میں اللہ ہوگا اور بعد میں وائےگرو ہوجائے گا کیونکہ یہ سارے نام اُسی سے نکلے ہیں۔ جواسمِ ذات فعلی ہے اس میں دائمی زندگی کے عناصر موجود ہیں۔ یہ کہیں ٹھہرتا نہیں ہے اور جو قولی اسم ہے اُس میں یہ ہے کہ دل “اللہ ھو” کرے گا اورروح “یا اللہ” کرے گی اور سب لطائف کے الگ الگ اسم ہیں لیکن فعلی اسمِ اللہ ہرلطیفے پرسے روزانہ گزرے گا۔ یہ نہ یا حی یا قیوم اور نہ یا احد یا واحد بلکہ صرف چکرلگاتا رہے گا۔ فعلی اسم پہلے لطائف سے گزرے گا، پھرجثوں سے گزرے گا اور پھر اس کے بعد یہ جسم کے چکرلگائے گا۔ اسمِ اللہ فعلی میں شرط نہیں ہے کہ آپ کون ہیں۔ جب اسمِ اللہ قولی تھا توکسی بزرگ نے یہ اسم سب کوعطا نہیں کیا۔ مسلمان ولیوں نے مسلمان کوعطا کیا تاکہ اُس دین کے زریعے اُس پرقابو پالے کیونکہ اگرکسی غیرمذہب کودیں تو قابو نہیں ہوتا اورجواسمِ اللہ فعلی ہے۔

فعلی اسمِ اللہ اگرکسی کافرکوبھی دے دیا توچلے گا لہٰذا اِس کی ایک شرط ہے کہ جس کوبھی دو تو پہلے وہ سرکارگوھرشاہی کے ماننے والا ہو اور کہے کہ اُسے چاند اور حجرِاسود میں اللہ کی نشانیاں نظرآتی ہیں اور وہ اُسے تسلیم کرتا ہے تو پھرجب وہ تسلیم کرلے تو اُس کو اسمِ ذات فعلی ملے گا اور جوتسلیم نہیں کرے گا تواُسے یہ اسم نہیں ملے گا کیونکہ یہ سرکار گوھرشاہی کی ملکیت ہے اور سرکار گوھر شاہی کومانو گے تو ملے گا

اللہ کے دو اسم کیوں ہیں؟

اللہ تعالی نے فرمایا کہ محمدالرسول اللہ ہمارے ظاہرکا عکس یعنی ظاہر کا ظاہر ہیں اورامام مہدیؑ ہمارے باطن کا باطن ہیں۔ اِسی طرح اللہ کے نام کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ جب اللہ ظاہر اور باطن میں ہے تو کیا اللہ کا نام صرف ظاہرمیں ہوگا! قرآن مجید میں آیا ہے کہ

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
سورة الحدید آیت نمبر3

اب اللہ تعالی ظاہرمیں بھی ہے اور باطن میں بھی ہے تواُس کا نام بھی ظاہر میں اور باطن میں ہوگا۔ جو ظاہری ہے وہ ظاہرمیں نام ہوگا اور جو باطنی ہے وہ باطن میں نام ہوگا۔ ظاہری اسمِ اللہ قولی ہے اور باطنی اسمِ اللہ فعلی ہے۔ جب امام مہدیؑ آئے تواسمِ ذات اللہ پورا ہوگیا۔ محمدالرسول اللہ سے اس کی ابتداء ہوئی ہے اور اس کی انتہاء سیدنا امام مہدی گوھرشاہی پرہوئی ہے۔ انسان کامل وہ ہے جس کے پاس اسمِ ذات اللہ پوری حالت میں ہے یعنی قولی بھی اور فعلی بھی ہے تواب اسمِ ذات کامل ہوگیا۔ اس میں فرق صرف اتنا ہوگا کہ اب اس کی آوازیں دُگنی ہونگی۔ جوآپ کے دل کی آواز ہوگی وہ دب جائے گی اور جو اسمِ ذات کی اپنی آواز ہوگی وہ اوپرگونجے گی۔ جواسمِ ذات قولی ہے اس کی آواز صرف عرشِ الہی پرجاتی ہے اورجواسمِ فعلی ہے اِس کی آواز تمہارے دل سے نکل کر ہرنبی اور ولی کے سینے میں گونجے گی اوراُن کو لکھا نظرآئے گا کہ یہ فلاں دل کی آواز ہے۔ یہ سنت کبیر کے سینے میں بھی پہنچے گی، بابا گرونانک کے سینے کو بھی ٹکرائے گی، ساھے بابا کے سینے کو بھی ٹکرائے گی، نظام الدین اولیاء کے سینے کوبھی ٹکرائے گی، بلھے شاہ کے سینے کوبھی ٹکرائے گی اور کہے گی کہ پہچانوکہاں سے آرہی ہوں۔ یہ وہ آواز ہے جوصرف عرش تک ہی نہیں بلکہ فرش پر بھی گونجے گی۔ یہ کامل اسمِ ذات ہے کیونکہ یہ محتاط نہیں ہے۔
ایک روایت میں یہ ہے کہ عیسیؑ امام مہدیؑ کے دورمیں آئیں گے اوراُن سے اسمِ ذات اللہ حاصل کریں گے۔ ہم کویہ سوال ہوا کہ اسمِ ذات اللہ توحضورپاکؐ کو سب سے پہلے عطا ہوا تو اگرعیسیؑ کو اسمِ ذات ہی لینا تھا توامام مہدیؑ کا انتظارکرنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ وہ حضورؐ سے بھی اسمِ ذات لے سکتے تھے لیکن عیسیؑ کواسمِ ذات کامل چاہئیے تھا۔ اسمِ فعلی صرف سرکارگوھرشاہی عطا کریں گے۔ قرآن مجید میں ہے کہ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ کہ اسمِ اللہ اُن کے دلوں میں داخل نہیں ہوگا توسوال یہ ہے کہ کیا اسمِ اللہ کمزور ہے کہ اُن کے سخت دلوں میں داخل نہیں ہوسکتا! اسمِ اللہ کمزور نہیں ہے کیونکہ یہاں اسمِ اللہ قولی کا فرمایا گیا ہے اور یہ زبان سے دہرانے والا ہے اور اِس میں طاقت نہیں ہے۔ قولی کا مطلب ہے کہ جوقول میں آئے بلکہ دل میں نہیں۔ فعلی کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ خود کرے گا۔ جو سرکار گوھر شاہی اسمِ اللہ عطا فرما رہے ہیں وہ فعلی ہے اوراگریہ پتھر کے اوپر بھی عطا ہوجائے توپتھر سے آواز توآئے گی لیکن وہ پتھرنہیں کررہا ہوگا کیونکہ وہ اسمِ اللہ کی اپنی آوازہوگی۔ اسمِ ذات اللہ فعلی ایک عظیم ترین تحفہ ہے اور اس اسمِ ذات اللہ کی نظرمیں نہ کوئی ہندو ہے نہ کوئی مسلمان ہے بلکہ سب اُس کے منگتے ہیں اوریہ دان ویر ہے یعنی دان کرنے والا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 21 جنوری 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس