کیٹیگری: مضامین

اللہ نے جو مرسل اور انبیاءبھیجے اوران اقوام میں جو رب کی پالیسیز رہی ہیں وہ قابل اعتراض ہیں ایک عام مسلم جسکو اپنی آخرت کی پرواہ نہیں وہ پڑھ کر جو بھی تاثر لے لیکن جن کو اپنی آخرت کی پرواہ ہو گی اور وہ اللہ کی حکمت عملیاں جان کرمعترض ہو گا۔اس تنقید کا مقصد اسکی مخلوق اورانسانیت کی بھلائی ہےاور پھر اس بات پر بھی تنقید کر رہے ہیں کہ جو کام اللہ نے کیے ہیں اور جس طریقے سے کیے ہیں ان سے انسانیت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔آج کے عام مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اُس کو مولوی جو پٹی پڑھا دیں کہ فلاں آدمی اللہ کا گستاخ ہے تو وہ جا کر اُسکو مار دے گا ۔مولوی پٹی پڑھا دے کہ بم باند ھ کر دھماکہ کر سو دو سوآدمی کو لے کر مر جاؤتوجنت میں چلے جاؤ گے تو وہ کر دے گا۔

آدم صفی اللہ کی قوم:

اتنے بڑے بڑے پیغمبر اس دنیا میں آئے جیسا کہ سب سے پہلے آدم صفی اللہ کی بات کر لیتے ہیں ۔آدم صفی اللہ آخری اور پہلے آدم تھے جنکو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا گیا تھااس پہلے جتنے بھی آدم بھیجے گئے تھے انکو اسی دنیا میں یہیں کی مٹی سے بنایا گیا۔آدم صفی اللہ کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہوئی اس کی وجہ یہ جنت کی مٹی نہیں تھی بلکہ وہ تعلیم تھی کہ جس کے ذریعے قلب کا تعلق اللہ سے جڑ جائے اور رابطے کا ذریعہ بندے اور خالق کے مابین قائم ہو جائے ۔اس سے پہلے جتنے بھی آدم آئے تھے کسی کو یہ باطنی تعلیم عطا نہیں ہوئی تھی۔سوکھی خشک ظاہری جسمانی عبادات وردو وظائف کرتے تھے اور ایک ہی علم تھا جسکو ظاہری علم کہتے ہیں شریعت کا علم کہتے ہیں۔اُس سے آگے ان کو کچھ دیا نہیں گیا اُس علم پر عمل کرتے کرتے ان کے دل سخت ہو گئے،مذہب اختیار کرنے کے باودجود قتل و غارت عام رہی۔اب جب آخری آدم،آدم صفی اللہ کاپُتلا بنایا جا رہا تھا فرشتے پہچان گئے کہ اب کوئی انسان بنایا جا رہا ہے زمین کے لیے انہوں نے اعتراض کر دیا اور انکا اعتراض یہ تھاکہ تو پھر انسان بنا رہا ہے یہ قتل و غارت کرے گا،جنگ و جدل کرے گا،فتنہ و فساد کرے گا اگر عبادت ہی کروانی ہے تو کیاہم تیری پرستش اور حمدو ثناءبیان کرنے میں ناکافی ہیں۔جس سے ایک باطنی راز یہ بھی سامنے آتا ہے کہ فرشتوں کو یہ بات معلوم تھی کہ اِس سے پہلے جتنے بھی انسان بنائے گئے ہیں وہ حمد و ثناءاور ظاہری عبادات ہی کرتے تھے رب تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ورنہ فرشتے یہ نہ کہتے کہ بھئی پرستش ہی کروانی ہے،حمدو ثناء ہی کروانی ہے تو وہ تو ہم بھی کر لیتے ہیں ان کو کیوں بنا رہے ہو؟اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ جوپچھلے آدم تھے انکا کام صرف عبادت ہی تھا رب سے تعلق،رابطہ، دیداراور کلام والی چیزنہیں تھی۔یہاں سے ثبوت ملتا ہےجب فرشتے یہ کہہ رہے ہیں کہ بھئی کیا ہم تیری حمدو ثناء کے لیئے،تیری پاکی بولنے کے لیئے کافی نہیں ہیں جو تو پھر وہی جنگ و جدل کرنے والا انسان بنا رہا ہے۔معلوم ہوا کہ فرشتوں کو یہ بات ازبر تھی کہ یہ جو انسان ہے انہوں نے بھی پرستش کرنی ہے،حمدو ثنا کرنی ہے،عبادت کرنی ہے اور کچھ تو کرنا نہیں ہے اور وہ کام تو ہم بھی کر رہے ہیں تو پھر اسکو کیوں بنا رہے ہیں۔لہذا پھر انہوں نے اللہ سے کہا کہ بھئی ہم تیری عبادت کے لئے کافی نہیں ہیں۔اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ اب جو میں ان کو علم دے رہا ہوں اگر وہ علم تمہارے پاس ہو تو بتاؤ۔معلوم ہوا کہ وہ جو علم تھا وہ عبادتو ں کے لیئے تو نہیں تھا،وہ حمدو ثناء کے لیئے تو نہیں تھا۔اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیئے حمدو ثناءاور عبادات تو کافی نہیں تھیں اللہ تو کچھ اور ہی چاہتا تھا اب۔اگر تم عبادتوں میں اور حمدو ثناء میں ہی لگے رہو گے تواللہ نے آدم صفی اللہ کو اِس لئے تو نہیں بھیجا تھا۔وہ جو پچھلے آدم بنائے تھے وہ قتل و غارت کرتے تھے،حمدو ثناءبھی بیان کرتے تھے،پرستش کرتے تھے اور عبادت کرتے تھےاو رفرشتے بھی یہ کام کرتے تھےجبھی فرشتوں نے جتایا بھی کہ یہ کام تو ہم بھی کرتے ہیں تو پھردوسرا انسان بنانے کی کیا ضرورت ہے۔اللہ کو اگر یہ منظور ہوتا کہ اس آدم سے بھی عبادت ہی کروانی ہے،اب فرشتے کہہ رہے ہیں تو چلو کیا فائدہ بنانے کا جنگ و جدل ہی کرے گااس لئےاس آدم کو نہیں بناتے۔
لیکن اللہ کویہ مقصود ہی نہیں تھا کہ آپ خشک عبادت ہی کرتے رہیں،اسکی حمدو ثناء ہی بیان کرتے رہیں۔اللہ کی خواہش کا پتا نہیں ہےاور آج جس عالم دین کو دیکھو یہی بکواس کر تا ہےکہ اللہ نے عبادت اور اپنی حمدو ثناء کے لئے انسان کو بنایا ہے۔اب جواللہ نیا علم دے رہا تھا وہ عبادات کے لیئے تو نہیں دے رہا تھا عبادات تو اُسکے بغیر بھی ہو رہی تھیں۔حمدو ثناء بھی ہو رہی تھی لیکن اللہ کو اِس سے چین نہیں آیا کہ نہیں اب کوئی ایسا انسان بناتے ہیں کہ جس کو اِس سے اگلی کوئی چیز دیں۔توپھرآدم صفی اللہ کو علم الاسماء کاعلم عطا کیا۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 34
ترجمہ : اور اللہ نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا،اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو
(طاہر القادری کا بیان کیا ہوا غلط ترجمہ جس سے امت گمراہی میں پڑ گئی)

مولوی یہ کہتے ہیں کہ آدم ؑکو اشیاء کے نام سکھائے گئے۔یعنی معلوم یہ ہوا کہ اس پہلےجو آدم آئے تھے ان کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ ہاتھ میں انکے جو دال ہے اس کو کیا کہتے ہیں۔ان کی ناک ہے اُس ناک کا کیا نام ہے۔کیسے جاہلوں کے ہاتھوں میں دین پڑ گیا۔
علم الاسماءجو ہے اللہ کے ناموں کا علم ہے لیکن لوگوں نے اللہ کے ننانوے نا م یاد کر لئے اور کہا کہ یہ علم الاسماء ہے ۔علم الاسماءاللہ کی ذات اور صفات کا نام ہے اُن ناموں سے نور کیسے بنے گا اور اُس نور سے انسان کی پہنچ کہاں تک ہو گی۔اللہ نے جب تیرہ ہزار نو سو ننانوے آدم بنائےاور اُس کے بعد آدم صفی اللہ کو بنایااور فرشتوں نے جو اعتراض کیا تھا کہ یہ زمین پر جاکر قتل و غارت کرے گا۔اگر تاریخ کی اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آدم صفی اللہ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی آپس میں لڑائی ہو گئی اور قتل و غارت عظمت والے آدم سے ہی شروع ہو گئی۔ہابیل نے قابیل کو مار دیا وہیں سے دین کا بیڑہ غرق ہو گیا،اب قابیل کی لاش پڑی ہوئی ہےپھر ایک کوئے کو بھیج دیا ایک کوئے نے دوسرے کوئے کا مارااور پھر چونچ سے زمین کھود کھود کر گڑھا کیااور دوسرے کوئے کواس میں دبا کر مٹی ڈال دی اسطرح کوئے سے سیکھ کر قابیل کی قبر بنائی گئی۔آدم صفی اللہ کو کتنا عظمت والا علم دیا لیکن شروع میں ہی بگاڑ پیدا ہو گیا۔قرآن میں ہابیل اور قابیل کا واقعہ سورۃ المائدہ میں ملتا ہے۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
سورۃ المائدۃ آیت نمبر 27

موسی ؑکادور :

موسیؑ کی طرح اُن کی قوم بھی ضد کرتی تھی،موسی کو کہتی تھی کہ ہم نےاور تم نے جس خدا کو دیکھا ہی نہیں ہے جس کی تم بات کرتے ہوہم اُس پر کیسے ایمان لےآئیں، ہم دیکھیں گے تب ایمان لائیں گے۔موسی ؑ یہ درخواست لے کر اللہ تعالی کے پاس کوہِ طور پر چلے گئے اوراپنی اور قوم کی خواہش کا اظہار کر دیا کہ ہم تجھے دیکھنا چاہتے ہیں۔اللہ تعالی نے انکو کہا کہ تم اپنی قوم میں سے صرف سرداروں کو لے آؤ تاکہ ہر قبیلے میں ایک ایک گواہ پیدا ہو جائے۔موسی ؑ ستر قبیلوں کے سرداروں کے ہمرا ہ کوہ طور پر چلے گئے۔اللہ کی تجلی گری وہ ستر کے ستر سردار مر گئے اور موسیؑ بے ہوش ہو گئے پھرموسی کو چین آگیا کہ اللہ کو نہیں دیکھ سکتے۔اب جب قوم ایمان لے آئی اور سارا کچھ ہو گیا پھر اللہ تعالی نے موسیؑ کوکوہِ طور پر تین دن کے لئے بلا لیااور وہاں چالیس دن لگوادئیے۔تین دن کے بعد جب موسیؑ واپس نہیں آئے تو پوری قوم پریشان ہو گئی اوراُنکے بھائی ہارون سے موسیؑ کی بابت دریافت کرنے لگے کہ کہاں گئے ہیں۔اسطرح جب چالیس دین ہو گئےاور موسیؑ نہیں آئے تو قوم نے سونے کا بچھڑا بنایااوراس کی پوجا شروع کر دی۔موسی ؑجب چالیس دن بعدواپس آئے تو دس احکامات لے کے آئے لیکن ساری قوم اس وقت گمراہ ہو چکی تھی،ایسا کیوں ہوا؟

عیسیٰ کا دور :

موسی ؑ کے بعد عیسیٰ آ گئے تینتیس مہینے انہوں نے تبلیغ کی اور وہ بھی رخصت ہو گئے۔تو اتنے بڑے بڑے پیغمبر آئے لیکن انسانیت اُن سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ان کو اللہ نے کام ہی نہیں  کرنے دیا۔جو بھی رب نے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا زمانے نے اُس کو زیر کر دیا۔عیسیٰ ابھی نوزائیدہ بچے ہیں پنگھوڑے میں ہی بولنا شروع ہوگئے اُس کے باجودبجائے ماننے کے لوگ جانی دشمن ہو گئے۔لنگڑوں کے اوپر ہاتھ پھیرا تو وہ چلنے لگ گئے،اندھوں کے اوپر ہاتھ پھیرا تو وہ دیکھنے لگ گئے۔اتنی کرامتیں دکھائیں عیسی ؑنے لیکن کسی نے مانا ہی نہیں کیوں؟یہ معجزات ،یہ کرامتیں یہ کرشمے،ان کا ظہور ہونے کے باوجود انسان اتنا بڑا کافر کیوں ہواجو ہر چیز کو جھٹلاتا ہی رہا!!! دوسری بات 1997 میں سیدنا گوھر شاہی نے آج سے بیس سال پہلے فرمایا کہ عیسی ؑاس دنیا میں آچکے ہیں ملاقات بھی ہو گئی۔عیسیٰ بیس سال سے بنکاک،سری لنکا میں ہی چُھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔عیسیٰ اللہ برادری کے فرد ہیں اور اُن کے پاس اتنی جرات نہیں کہ وہ عوام الناس کے سامنے آ کر یہ کہہ دیں کہ میں عیسیٰ ہوں۔یہ ہے اللہ کی مخلوق کہ عیسیٰ کو یہ کہنے کی ہمت نہیں۔ہم ہی کہہ رہے ہیں کہ عیسی آگئے ہیں،لوگ ہماری بات سن کے ہنستے ہیں کہتے ہیں اچھا،کہاں ہیں ؟ہم کہتے ہیں کہ جی سری لنکا میں۔اچھا جی ملاقات تو کراؤ،جی کروا دیتے ہیں۔پھر جب ملاقات کروا دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو روحانی ہے ظاہری طور پر کراؤ۔یعنی عیسیٰ بیس سال سے اس دنیا میں ہیں لیکن مخلوق کی وجہ سے اُن کو اتنی جرات نہیں ہوئی۔

محمدﷺکا دور :

اب امام الانبیاءمحمد مصطفی تشریف لے آئے۔جن کے لئے ارشاد ہوا کہ

لولاک لما خلقت الافلاک
ترجمہ : آپ کو پیدا کرنا مقصد نا ہوتا تو زمین و آسمان ہی نہ بناتا۔

قرآن مجید میں آپ کےلئے فرمان ہوا کہ

قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
سورۃ المائدہ آیت نمبر 15
ترجمہ : ہم نے تمہاری طرف محمد ؐ کی صورت میں اپنا نور اور کتاب مبین بھیجا ہے۔

ایسا رسول بھیجا ہے جس کے پاس نور اور کتاب ِ مبین اسکے سینے پہ لکھی ہےلیکن کسی نے انہیں تسلیم ہی نہیں کیا۔ اتنا بڑا پیغمبر آگیاجواس سے پہلےکبھی آیا ہی نہیں تھا جس کے پاس ظاہری شریعت،دیدار الہی کا علم،فقر بھی ذاتی ،عشق بھی ذاتی تھالیکن صحابہ کرام میں سے نہ کوئی فقیر بنا،نہ کوئی عاشق بنااور نہ کسی نے اُن کو فقراور عشق کی تعلیم بیان کرنے دی۔اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اتنی بڑی ہستی محمدﷺجیسی جو اِس دنیا میں جلوہ گر ہوئی ان کے آنے سے کتنے لوگوں کو فائدہ ہوا؟کیوں اتنی بڑی بڑی بر گزیدہ ہستیاں اس دنیا میں بھیجی لیکن اُن سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ایسا کیوں ہوا؟محمد رسول اللہ نے چاند کے دو ٹکڑے کر دئیے لیکن کیا فائدہ ہوا؟ نبیؐ کے نواسوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی بجائے شہادت سے فائدہ ہونے کے الٹا ایک نئے فرقے نے جنم لے لیا۔امام حسینؑ کی شہادت کے بعد ایک اور فرقہ بن گیا فائدہ کیا ہوا؟لیکن کیوں؟اللہ نے اتنی بڑی ہستی کو بھیجا ہے تو عوام میں قبولیت کیوں نہیں ہوئی؟اتنا سخت دل لوگوں کو کیوں بنایا ہے جنہوں نے اِن ہستیوں کو قبول ہی نہیں کیا الٹی سیدھی حرکتوں میں انسان لگا رہا۔حالانکہ قرآن مجید میں ارشادہوا کہ جب کوئی اللہ کی طرف سے زمین پر آتا ہے تو جبرائیل امین اس کی محبت لوگو ں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں تاکہ لوگ اسکی صحبت میں بیٹھیں اور فیض حاصل کریں۔کتنے لوگوں کے دلوں میں اللہ نے محبت ڈالی؟محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے دیدار کاعلم عطا فرمایا صحابہ کرام کو تو چھوڑو آج مسلمان امت جو کہ بہتر تہتر فرقوں میں بٹی ہوئی ہے ایک بھی فرقہ ایسا نہیں ہے جو صحابہ کا تو درکنار حضور کا ہی قبول کرلے کہ حضور ﷺ کو دیدار ہوا ہے۔امت کوبھی رہنے دیں بی بی عائشہ کہتی ہیں کہ جس نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے شب ِمعراج میں اللہ کو دیکھا میں تو گویااس نے حضورؐ پر بہتان باندھا۔اب اگران لوگوں کو دیدار ہوا ہوتا تو یہ بولتے نہیں کہ ہم نے اللہ کودیکھا ہے۔ معراج شریف سے ہوکرآنے کے بعد بھی حضور پاک ﷺ کی صحبت میں کتنا عرصہ گزارا بی بی عائشہ نے گزارااُسکے بعد بھی کہتی ہیں کہ حضورؐ نے اللہ کونہیں دیکھا۔جو محمد رسول اللہ ﷺکی عظمت،جو محمد رسول اللہ ؐکا علم،جو ان کی ذات کے فیوض و برکات تھے وہ محمدؐ کی شخصیت میں ہی رہے صحابہ کرام تو اس سے مستفیض نہیں ہوسکے۔اور ایسی قوم میں محمد ؐ کوبھیجا جن کو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں تھی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 104
ترجمہ:اے ایمان والو!حضورؐکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ”راعنا“ مت کہا کرو بلکہ ادب سے”انظرنا“کہا کرو،بغور سنتے رہا کرو،اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اب یہ جو لفظ راعنا ہے یہ رعایہ سے نکلا ہے جسطرح سیل لگتی ہے نا تو اسکو کہتے ہیں رعایت۔یعنی ہمیں رعایت دو ،مہلت دو معاف کر دو،بہت سارے مطلب نکل جائیں گے۔اب یہ لفظ اس وقت کیوں بولاجاتا تھا؟کہ حضورؐ بیٹھے ہوئےگفتگو فرما رہے ہیں ہیں اور اُس محفل محمد ؐ میں بہت سے لوگ باتیں کر رہے ہیں۔اب لوگوں کی باتوں کی وجہ سے اکثر جوحضور نے کہا وہ سمجھ میں نہیں آتا تھااُن کی دو چار لفظ مس ہو جاتے تو وہ کہتے راعنا یعنی یا رسول اللہ ﷺ ہمیں رعایت دیں یعنی آپ دوبارہ فرما دیں۔اور اگر اسی لفظ کو کھینچ کر پڑھا جائے ”راااااااااعنا “ تو اس کا مطلب ہوتا ہے ”پاگل شخص“ تو وہ لوگ جو پیچھے بیٹھے رہتے تھےاور شور مچاتے تھے وہ پھر کھینچ کھینچ کے اس لفظ کو پڑھتے تھے تا کہ حضور ﷺ کی تو ہین ہو۔تو اللہ نے کہا کہ اے مومنوں!راعنا کا لفظ استعمال نہ کیا کرو بلکہ یوں کہا کرووَقُولُوا انظُرْنَا کہ نظر فرمائیں۔تو ایسی قوم میں محمد رسول اللہ کو بھیجا گیا ۔اس آیت کے لئےمسلمان یہ کہتے ہیں کہ وہ یہودی تھے۔چلیں مان لیتے ہیں کہ وہ یہودی اونچی اونچی آواز میں باتیں کرتے تھے مسلمانو ں کے لیئے بھی تو قرآن میں آگیا کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كاور َجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
سورہ الحجرات آیت نمبر 2
ترجمہ:اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم کی آواز سے بلند مت کیا کرواور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو ایسا نہ ہوکہ تمہارے سارے اعمال ہی غارت ہو جائیں اور تمہیں شعور تک بھی نہ ہو۔

اگر اُس آیت میں یہودیوں کے لئے بات ہو رہی تھی تو یہ آیت کن لوگوں کے لئے ہے ؟ جب تک آیت نہیں اتری تھی اس وقت تک بچت تھی کہ ان کو پتا نہیں ہے لیکن آیت اترنے کے بعد بھی عمر تلوار نکال کر کھڑے ہو جاتے شور مچاتے ۔کتنا ادب کیا حضورﷺ کا ۔کیوں ؟جس کو تاجِ محبوبیت پہنایا ، جس کو امام الانبیاء کا رتبہ دیا ،جس کو نور بنا کے بھیجا،اسکے بارے میں لوگوں میں پروپیگنڈا پھیلا دیا ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ
سورۃ الکھف آیت نمبر 110
ترجمہ :فرما دیجئے: میں تو صرف بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں بس میری طرف وحی کی جاتی ہے۔

یا رسول اللہ آپ فرما دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا انسان ہوں بس وحی آتی ہے میرے اوپر اور تو کوئی بات نہیں ہے۔آج کا مسلمان یہی سمجھتا ہے کہ حضور ؐ اور ہم میں صرف وحی کا فرق ہے ۔ایک طرف اللہ نے اُن کو عظمتیں عطا کر دیں دوسری طرف اُن سے ایسے جملے بھی کہلوا دئیے کہ لوگ انکی عظمتوں کی طرف نہ جائیں ۔ ایسا کیوں ہوا ؟

اما م مہدی گوھر شاہی کا دور:

پھر امام مہدی گوھر شاہی پوری دنیا میں دین الہی پھیلانے کے لئے تشریف لے آئے۔اُن کی شبیہات چاند، سورج ، حجراسوداور دیگر مقامات پرنمایاں ہو گئیں۔ امام مہدی گوھر شاہی نے بیس سال دن رات محنت کی اور جب غیبت اختیار فرمائی تو لاکھوں ماننے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح بے حس ہو گئے ،جس اولاد کو ،جن بھائیوں کو ،جن بہنوں کو گھر بٹھا کر کھلایا، عزت دی، گاڑیا ں دیں پہلے انہوں  نےہیسیدنا امام مہدی گوہر شاہی کی عظمت کو جھٹلایا اور پھرمزار بنا کر نام کو بھی بیچنا شروع کر دیا ۔کیا ہے یہ سب ؟ پوری دنیا کو امام مہدی سے فیض ہونا ہے لیکن وہاں مزار بنوا دیا۔ تعلیم تو اُنکی جاری ہے لیکن دنیا کو یہ تاثر دے دیا کہ مزار بنا ہوا ہے ،امام مہدی ہوتے تو کیا مزار بنا ہوتا ۔چاند پر تصویر آگئی دنیا کو بتا رہے ہیں لیکن رفتار مشن کے پھیلنے کی وہی ہے جو چودہ سو سال پہلے تھی زبانی کلامی لوگوں کو بتایا جا رہا ہے اس دور کی ٹیکنالوجی اور میڈیا ساتھ نہیں دے رہا۔اگر میڈیا ساتھ دیتا تو بہت جلد امام مہدی پوری دنیا میں متعارف ہو جاتے۔آج جو بھی امام مہدی کا تعارف لوگوں میں جا رہا ہے وہ صرف امام مہدی گوھر شاہی کی مرھون منت ہے کہ لائیو سٹریم اور یو ٹیوب کے ذریعے عام لوگوں کی بھی اب اس علم تک رسائی ہو رہی ہے ورنہ شاید اللہ کو یہ بھی منظور نہیں ہوتااور ہم یہ رخ آئینہ کی کیفیت اپنے گھر کے اندر ہی بیٹھ کر کے دو چارلوگوں کو سناتے رہتےاور یہ سارا علم دو چار لوگوں تک ہی محدود رہتا ۔
یہ سارا جوکھیل بنایا اتنے انبیا ء کو ولیوں کو بھیجا اور لوگوں نے مانا ہی نہیں کیوں ،کیوں کیا یہ سب کچھ ؟ایسی مخلوق بنائی ہے،خونخوار اتنے بڑے کافر زندیق مردود بنائے ہیں کہ جنہوں  نے نہ آدمؑ صفی اللہ سے فیض لیا، نہ ابراہیمؑ خلیل اللہ کی کوئی قدر کی، نہ موسی ؑکو چین سے رہنے دیا، عیسیؑ کوسولی پہ لٹکا دیا، محمد رسول اللہ ﷺ کو بولنے نہیں دیا ،محمد ﷺ کے اہل بیت کو کا ٹ کاٹ کررکھ دیا، کس نے کاٹا ؟ یہودیوں نے عیسائیوں نے ،یہ تمھارےہی جیسے مسلمانوں نے کاٹا اور پھر اب امام مہدی گوھر شاہی پوری دنیا کو فیض دنیے کے لیئے آگئے،بیس سال محنت کی لاکھوں لوگوں کےدلوں میں اللہ کا نور بسایا جن کے دلوں میں نور تھا وہ بھی بھاگ گئے۔
پھر دوبارہ از سر نو اس مشن کو شروع کیا۔جن لوگوں کو اللہ اللہ کرنے اور دلوں میں نور بسانے کا بتایا تھا وہ سب توغیبت ہوتے ہی بھاگ گئے۔اب کس بنیاد پر لوگوں کو بلاؤں،دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کرتی ہیں دل، قلب ،روح اللہ اللہ کرے گی یہ ساری باتیں تو سن لیں لوگوں نے بھاگ گئے۔اب کیا کہہ کے بلاؤں لوگوں کو؟اسی لئے اب عالم غیب کے راز عریاں کر رہے ہیں اور اللہ کی طرف سےیہ اعتراض ہے کہ غیب کی باتیں کیوں بتاتے ہو۔جو اللہ نے بھیجا ہے اُس میں سے کون ٹکا، کون کامیاب ہوا۔کوئی ایسا نبی یا مرسل آیا ہے جس نے دین پھیلایااور لوگوں نے بخوشی قبول کر کے اللہ کے متوالے ہو گئے ۔کیوں عالم غیب کے راز نہ بتائے جائیں؟
امام مہدی پوری دنیا میں انقلاب بپا کر دیں گے اور اللہ کی طرف سے جوامام مہدی کا تعارف آیا کہ”ایک شخص میری اہل بیت سے آئے گااور پوری دنیا کو انصاف سے بھر دے گا“سپریم کورٹ کےجج ہیں کیا امام مہدی جو پوری دنیا کو انصاف سے بھردیں گے۔انصاف کے لیئے آرہا ہے وہ؟اور پھر کوئی راہ فقر میں لگ جائے تو اللہ میاں اس کی ماں کو مار دیں گے، اسکی بہن کو مار دیں گے،اسکے بچوں کو اٹھا لیں گے،اسکی ٹانگیں توڑ دیں گے اسکو آزمائش میں امتحان میں ڈال دیں گے تاکہ وہ بے چارہ وہیں چُپ ہو جائے۔اس دنیا کو ان لوگوں کو اور یہاں جو کچھ ہو رہا ہے صدیوں سے اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے اس دنیا کے اوپر ابلیس کا قبضہ ہے اللہ کی تو چلتی ہی نہیں ہے۔اچھائی کو پذیرائی نہیں ملتی ہےاور اگر کوئی غلطی سے اچھا انسان ہو جائے تو پوری دنیا اُسکو مارے گی۔دنیا میں ہے کوئی ایسا بندہ جو عیسیٰ کی اِس تعلیم پہ عمل کرے کہ”کوئی تجھے ایک تھپڑ مارے تُو دوسرا گال بھی آگے کر دے“۔کیا اس دور میں یہ باتیں عملی لگتی ہیں!یہاں تو لوگ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔

اللہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کا دیدارکریں،عبادت کریں،چاہیں اور پھر جو آپ کی خواہش ہے اُس خواہش کو پذیرائی بھی نہیں دیتے۔نبیوں کو بھیج کے پھر انہی کی کاٹ بھی کرتے ہیں۔یہ چکر مکر کیا ہے!!

اللہ ھو،یا رحمان ،یا قدوس،یہ سب زمانے بھر سے ہوتا آرہا ہے اسکے باوجود بھی اچھائی کو کوئی پذیرائی تو نہیں ملی ۔تو بہتر نہیں ہے کہ اب ”را ریاض“ کریں ،بہترنہیں ہے کہ اب لا الہ الا ریاضکے اوپر بھروسہ کر کے دیکھ لیں ،بہتر نہیں ہے کہ اپنا ماتھا اب سیدنا گوہر شاہی کے قدموں میں جھکا کر دیکھیں،اب گو ہر شاہی معبودہیں یا نہیں ہیں پتا چل ہی جائے گا۔

جو خواہشات تمھارے دل میں ہیں کہ یہ پروردگار دے گا،معبود تسلیم نہ کرو مگروہ خواہشات گوھر شاہی سے مانگ کر دیکھو۔

آدم صفی اللہ سے لے کر امام مہدی کا دور آ گیا ہے لیکن اللہ کو ابھی تک انسانیت کو چلانا نہیں آیا کیونکہ جو حکمت عملی اللہ کی ابھی تک نظر آئی ہے اُس سے یہی معلوم ہوتا ہے ابلیس کامیاب ہے،ہر طرف نفرتوں کا دور دورہ ہے۔محبت کا رنگ غالب نظر نہیں آتااور نہ اس کی پزیرائی ہے۔
سیدنا گوھر شاہی کی تصنیف لطیف ” دین الہی “ کا یہ جملہ اُٹھا کر دیکھ لیں جو چغلی کر رہا ہے کہ آپ کی ذات کون ہے ”ہر آدمی ،ہر امتی اپنے اپنے نبی کا تصور کرے اور جب کوئی بھی اُن کے تصور میں آکر اُن کی مدد نہ کرے تو پھر گو ہر شاہی کو آزمانا“ یہ الفاظ بتا رہیں کہ اُن نبیوں کو پرواہ نہیں ہے وہ نہیں آئیں گے لیکن تمہاری وہاں پہ نسبتیں قائم ہیں تو تم اُن سے مانگ تو لو ورنہ میں کہوں گا کہ آؤ مجھ سے لے لو تو تم مانو گے نہیں۔جاؤ بلا لو جس کو بھی بلانا ہے عیسی کو،موسی کو اور جب کوئی نہ آئے تو پھر مجھے آزما لینا۔یہ تو یوں سمجھ لیں آپ کہ کھلا چیلنج ہے کہ جس بندے کےبھی دماغ میں خناس ہے نا کہ یہ عظمتِ گوہر شاہی جو بیان ہو رہی ہے یہ حقیقی ہے یا غیر حقیقی ہے تو آجائے مانگ کے تو دیکھے یہ سیدنا گوھر شاہی جانب سے کھلا چیلنج ہے۔پہلے اُن کو بلا لو جنکی محبت میں تم مرے جا رہے ہو تم،سانس نہیں آرہا جن کی محبت میں اور جب کوئی بھی نہیں آئے تو پھرسیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں ہمیں آزما لینا۔ہم نے تو بلایا ہے سب کو کوئی بھی نہیں آیا اور جب گوہر کو بلایا ہے تو ایک دفعہ تکلیف ہوئی ہے دس دفعہ آئے ہیں۔گوہر کی تو ادا ایسی ہے کہ آدمی بار بار اپنی جان نچھاور کرے،اپنا خون بہا کرانکے قدموں میں لوٹائے اور پھر اپنی جان قربان کرےاور بس یہی سلسلہ چلتا رہے۔

متعلقہ پوسٹس