کیٹیگری: مضامین

فتح مکہ سے پہلے خانہ کعبہ میں جو بت موجود تھے ان میں بہت سارے انبیاء کرام کے بت بھی تھے جو اُن کے ماننے والی قوموں نے یادگار کے طور پر بنائے تھے۔وہاں ابراہیم ؑ کا بت بھی رکھا ہوا تھا ۔اس سے کیا پتہ چلتا ہے کہ وہ یہودی تھے جنہوں نے ابراہیم ؑکا بت بنایا تھا ہندوؤں نے نہیں بنایا تھا وہ بت ۔ہندوؤں کاکیا کام ابراہیم ؑ سے ،ہندوؤں کا تعلق تو شنکر بھگوا ن سے ،گنیش جی سے ،گو ؤ ماتا سے ہے۔ اسماعیل ؑ کا بھی بت وہاں رکھا ہوا تھا تو اسکا مطلب ہے کہ اسماعیل ؑ کی امت نے بھی ان کی محبت ، ان کی یاد میں اُن کا بت بنا کہ وہاں رکھ دیا ۔

خانہ کعبہ میں لات اور منات کے بھی بت تھے اس کو اردو میں لات و منات کہتے ہیں لیکن عربی میں اسکو کو’’ لا اور منا ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ایک لفظ’’ اللہ‘‘ تو سریانی کا ہے اور یہ رب کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک لفظ’’ اللا‘‘ عربی کا ہے ۔عربی میں کسی خاص چیز کے لیئے’’ الف ‘‘ اور’’ ل ‘‘ آگے لگاتے ہیں ۔وہ جو خانہ کعبہ میں بت رکھا ہوا تھا ’’ لا‘‘ اسکی خصوصیت کی وجہ سے اس ’’ ل ‘‘ کے آگے بھی الف لگتا تھا اسکو یہ پڑھتے تھے ’’اللا‘‘ ۔ایک سریانی زبان میں ’’اللہ‘‘ ہےجو رب کی طرف اشارہ ہے اور ایک ہے ’’ اللا‘‘ یہ عربی زبان کا ہے۔ ’’اللا‘‘یہ عربی لفظ ہے اسکا اشارہ ان بتوں کی طرف تھا جو ’’لا ‘‘ بت تھا ۔

’’ لا اور منا ‘‘ دو ایسی ہستیاں تھیں ،’’منا‘‘ عورت تھی’’ لا ‘‘ مرد تھا ۔’لا‘ میں جو روح تھی وہ روح وہی تھی جو اللہ کے وجود سے جرثومہ نکل کے بنتی تھی ۔اللہ کے وجود سے جرثومہ نکل کے جو روح بن جائے اور پھروہ زمین پہ آ کر کسی کے جسم میں مقیم ہو جائے تو پھر وہ ’’دیوی اور دیوتا ‘‘کہلاتے ہیں ۔’’لا اور منا‘ ‘نے بڑی کرامتیں اور معجزے دکھائے تھے انہوں نے لوگوں کو اللہ کے راستے پرہی ڈالا تھا۔ لیکن بعد میں جب وہ اس دنیا سے چلے گئے تو لوگوں نے ان کے بت بنا کر کھڑے کر دئیے تو اُن لوگوں کی مخالفت کےبجائے سب کچھ غلط کہہ دیا گیا ۔
اسی طرح ایک عورت اور مرد کعبے میں سیکس کر رہے تھے تو لوگوں نے ان کو مار کے بھگا دیا ۔ان کے ماننے والے آئے اور انہوں نے ان کے بت بنا کے کعبے میں رکھ دئیے ، انکی بھی پوجا ہونے لگ گئی ۔لیکن ہم کو جو پتہ چلا وہ یہ تھا کہ جو یہودیوں نے بت بنایا ابراہیم ؑکا یہ انہوں نے عبادت کےلئے نہیں بلکہ یاد گار کے لیے بنا کہ رکھا تھا ۔ہم نے پھر حضور پاک ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ابراہیم کا ،اسماعیل ؑ کا بت تڑوانے کی کیا ضرورت تھی؟ تو جواب ملا کہ جب ابراہیم کا بت جو ہو بہو انکی صورت پہ بنایا ،اسکی عبادت نہیں کرتے تھے بس یادگار کے لیئے رکھا تھا ۔اسماعیل ؑ کے ماننے والے جن کے لیئے قرآن مجید میں دعاہے ۔ابراہیم ؑنے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ اسماعیل ؑ سے ایک ایسی قوم پیدا فرما جو تیری وفادار ہو، اسی نسل سے پھر حضور پاک ﷺ تشریف لائے ۔ یہ وہی نسل ہے جس نے اسماعیل ؑ کا بھی بت بنا کر رکھا جبکہ ان کے لیئے تو ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی کہ وہ پاک صاف رہیں گے تو پھر اسماعیل کا بت کس نے بنایا؟ پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب فتح مکہ ہو گئی اور جب پھر خانہ کعبہ میں داخل ہو گئے تو حضور ﷺنے جو بتوں کو توڑاتو اسکا ایک طریقہ اختیار فرمایا تھا ۔ آپ ﷺ بتوں کے پاس جاتے اور ایک آیت پڑھتے کہ

قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
سورة الااسراء آیت نمبر 81
ترجمہ : حق آ گیا ہے اور باطل جائے گااور باطل تو جانے کےلئے ہی ہے۔

جب حضور ﷺ بت کے سامنے جا کہ یہ آیت پڑھتے تو اگر اسکے اندر کوئی شیطان جن ہوتا تو نکل جاتا ۔پھر حضور پاکؐ فرماتے کہ اب یہ بت توڑ دو اور اگر آیت پڑھنے کے باوجود جس بت میں سے شیطان جن نہیں نکلتا تھا بلکہ نور نکلتا تو اسکے لیے فرماتے اسکو رہنے دو۔حضور پاک ؐ تو یہ فرما کے چلے گئے پھر اسکے بعد یہ جو تمہارے سب سے اعلی عمر بن خطاب تھے انہوں نے کہا کہ سب بت توڑ دو ،پتہ نہیں یہ حجر ِ اسود کیسے بچ گیا حضور ﷺ آ گئے اس موقع پر ورنہ وہ اسکو بھی توڑ دیتے ۔حضر ت عمر کے دل میں یہ کھٹکا تھا کہ یہ 360 بتوں میں سے یہ ایک حجر ِاسود کو کیوں چھوڑ دیا ہے ، اسکو کیوں نہیں توڑا ؟ زمانہ جاہلیت میں بھی اسکی پوجا ہوتی تھی۔تب ہی تو ان کے ذہن میں وہ بات آئی کہ’’ اے حجر ِ اسود مجھ پتہ ہے کہ تو بے کار چیز ہے فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا میں تو بس اس لیئے دوں گا بوسہ کہ حضور پاک ؐ نے دیا ہے ورنہ لوگ کہیں گے کہ یہ حضور کا گستاخ ہے ،حضور ؐ کی بات نہیں سن رہا ، ان کی سنت پر عمل پیرانہیں ہو رہا ۔ اس لئے میں بوسہ دوں گا۔

’’بہت سارے انبیاء کرام کے خانہ کعبہ میں مجسمے بنے ہوئے تھے اگر وہ نہ توڑتے تو ان کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے تھے کہ وہ انبیا ایسے تھے‘‘

یہ جو تم نے شیطان کا کہہ کر ایک مینار سا کھڑا کیا ہوا ہے وہ بھی تو بت ہے شیطان کا۔ وہ شیطان تو نہیں ہے ، بس یادگار ہے کہ یہاں شیطان تھا۔ اسی طرح وہ خانہ کعبہ میں موجود مجسمہ (بت) بھی یادگار تھے۔ جیسے مقام ِ ابراہیم ہے جہاں ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ بنایا ،وہ بھی یادگار ہے نا۔اب الصفا والمروۃ پر جو آپ بھاگتے ہیں وہ بھی یادگا ر ہےنا کہ بی بی حاجرہ ؓ وہاں پانی کی تلاش میں بھاگی تھی اور آپ کو بھی بھاگنا پڑتا ہے تیز دوڑ کے جانا پڑتا ہے، کیونکہ بی بی حاجرہ تیز تیز دوڑ کے گئی تھیں اگر ایسا نہیں کریں گے تو مناسک ِ حج قبول نہیں ہوں گے کیونکہ وہ بھاگی تھیں ،انکے بھاگنے کی ادا بھی آپ نے اپنا لی اور آپ کے لئے عبادت ہو گئی ۔جہاں کھڑے ہوئے تھے وہ جگہ بھی مقدس ہو گئی ۔شیطان نے جس جگہ آکر دھوکہ دیا، آپ نے اس جگہ اسکا بت بنا کہ پتھر مار رہے ہو ،ابراہیم ؑ کا جو مجسمہ بنایا تھا اسکے اندر کیاکفر اور شرک تھا ؟ خالد بن دلید ؓ نے جب ایک بت پہ تلوار چلائی تو اسمیں سے چنگھاڑتی ہوئی آگ نکلی وہ ڈر گئے آپ ﷺ کو بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ شیطان جن ان بتوں میں گھسے ہوئے ہیں ، تم گھبراؤ نہیں بس اس آیت کا ورد کرتےرہو ’’ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ ‘‘تو خالد بن ولید جب اس آیت کا ورد کرتےتو جہاں حق ہوتا وہاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بلکہ نور نکلتا ۔جہاں باطل ہوتا وہاں سے آگ نکلتی ۔
پھر خانہ کعبہ میں حضرت بلال کو اوپر چڑھا دیا کہ صفائی کرو ۔اب جب نماز کا وقت آیا تو حضور ؐ نے بلال کو حکیم دیا کہ اذان دو ۔ بلال حبشی پریشان ہو گئے کہ کعبے کے اوپر کھڑا ہوں اور ہم کعبے کی طرف منہ کر کے اذان دیتے ہیں ۔ تو انہوں نے حضور ؐ سے استفسار کیا کہ میں تو کعبے کے اوپر کھڑا ہوا ہوں ، اب کس طرف منہ کر کے اذان دوں ؟ تو آپؐ نے فرمایا میری طرف منہ کر کے اذان دو ۔یہ ہے محمد رسول اللہ کی شان ۔ اب یہ جو وہابی کہتے ہیں کہ نماز میں حضور ؐ کا خیال آ جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ لیکن حضور ؐ کا تو حکم ہے کہ جب کعبے پر چڑھے ہو تو میری طرف منہ کر کے اذان دو ۔ محمد کا حکم ہے کہ محمد کی طرف منہ کر کے اذان دو ۔ اب محمد ؐ کی طرف منہ کر کے اَذان دی جا سکتی ہے تو کیا نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔محمد ؐ کی اطاعت اور اتباع یہی تو اصل اسلام ہے ۔جس میں محمد ؐ کا عشق نہ ہو ، اتباع نہ ہو ، اطاعت نہ ہو وہ اسلام نہیں بکواس ہے ۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ
سورة آل عمران آیت نمبر 31
جو حضور ؐ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو محمدؐ کی اتباع میں آ جائیں ، آپ کے رنگ میں رنگ جائیں ۔ تو اللہ خود اُن سے محبت کرے گا۔

نوٹ: یہ راز نمائندہ مہدی سیدی یونس الگوہر کی بارگاہ سے عطا ہوا ہے۔ یہ علم کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو رد کر کے دکھائے۔

حالیہ پوسٹس