کیٹیگری: خبریں

سیدی یونس الگوھر کے دورہ نیپال کا خلاصہ اگر چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ مذہبی یکجہتی ، محبت ، امن و آشتی اور یگانگت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس نے تمام مذاہب کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر دیا۔تعلیم گوھر شاہی کی بدولت ہندو ،مسلم ، سکھ اور دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے سب ایک مرکز پر جمع ہو گئےاور یہی امام مہدی کی تعلیم کی خوبی ہو گی کہ تمام مذاہب اُن کی آواز پر لبیک کہیں گے اور دلوں سے ایک مرکز پر جمع ہو جائیں گے۔
دورہ نیپال میں یہ چیز دیکھنے میں آئی کہ ہندوستان کے ہر کونے ممبئی ، کلکتہ ، بہار انڈیا، کشمیر ، کیرلا ، احمد آباد، یو پی، بنگلوراور دیگر جگہوں سے لوگ دور دراز سے سفر کر کے ملنے آئےاور اُن میں جومحبت، جوش و ولولہ اوراس مشن کو پھیلانے کا جذبہ نظر آیا وہ قابل تحسین ہے۔یہ سیدی یونس الگوھر کی خاص کرم نوازی کا اس دورے پرتقریباً سب کو بہت زیادہ وقت ملااور تعلیم کے ساتھ ساتھ نور اور فیض کے جوہر سے بھی سرفراز فرمایا اور محفل میں کئی لوگ ایسے تھے جنھوں نے مخصوص خوشبوئے گوھر شاہی کو بھی محسوس کیا۔ نیپال میں سیدی یونس الگوھر کی ہوئی نشتوں میں ایک خاص رنگ نظر آیا جو کے لائیو دیکھنے والوں نے بھی محسوس کیا ۔کچھ مولوی حضرات بھی آئے ہوئے تھے اور انہوں نے کئی سوالات بھی کئے جس کا تسلی بخش جواب سننے کے بعد ان کے دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ ہمارے پیچھے اتنے لوگ نماز پڑھتے ہیں اگر ہماری بھی بارگاہ محمدی تک رسائی ہو جائے تو نماز مقبول بارگاہ ہو جائے گی۔اُن پر بھی کرم نوازی ہو گئی اور ُان کی اِس طلب کے اظہار سے پہلے ہی ان کے اندر کی چیزوں کو بارگاہ محمد ی میں پہنچا دیا۔
بہار سے تشریف لائے راجندر نگم جی کا بھی جذبہ قابل تحسین ہے آپ برہمن ہیں لیکن سیدنا گوھر شاہی اور سیدی یونس الگوھر سے بہت محبت کرتے ہیں اور اس مشن کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر کام کر رہے ہیں۔ نہ صرف ہندووں میں سرکارسیدنا گوھر شاہی کی تعلیم متعارف کروا رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی اللہ ھو کا ذکر دے رہے ہیں ۔ اور دورے کے اختتام پر انہوں نے جس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں جب چاہوں آپ کو دیکھ لوں اس کی کرم نوازی فرما دیں، یہ جذبہ بھی قابل ستائش ہے۔اس کے علاوہ کنگ سرکل ممبئی سے آئے ہوئے لوگ بھی بہت محبت والے ہیں اور جس جوش اور ولولے سے مشن کا کام کر رہے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہیں ۔ سیدنا گوھر شاہی کا فرمان ذیشان ہے کہ بعد میں آنے والے پرانے لوگوں سے سبقت لے جائیں گے ، راجندر نگم جی ، کنگ سرکل کے لوگ اور دیگر جگہوں سے آئے ہوئے لوگوں کے جذبات دیکھ کر کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔ نیپال کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا ہے اور ساتھیوں میں مزید جوش اور ولولے کا باعث رہا ہے اور قوی اُمید ہے کہ یہ لوگ اسی طرح بڑھ چڑھ کر مشن کا کام کرتے ہیں کیونکہ ہماری روحانی ترقی اس مشن کو پھیلانے سے مشروط ہے۔
آج کے اس دور میں لوگ علم تصوف کو بُھلا بیٹھے تھےاور جو عقیدت رکھنے والے تھے وہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سےحقیقت سے نا آشنا تھے لیکن سیدی یونس الگوھر نے علم تصوف کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اسطرح دلائل کے ساتھ پیش کیا ہےاور وہ بام عروج بخشا ہے کہ علماء سے لے کر پنڈتوں تک کوئی اس کو رد نہیں کر سکتا ۔ آج لوگ اس بات کے نعرے تو لگاتے ہیں ایک دوسرے سے محبت کرو لیکن اس کا عملی تصور اُن کے پاس موجود نہیں ہے ۔تما م مذاہب کا نچوڑ اللہ کی محبت ہے لیکن وہ محبت صرف کہنے سے تو نہیں آ جائے گی بلکہ جب رب کا نام دل میں سرائیت کر جائے گا تو دل سے ایک ہو جائیں گے۔تو یہ دلوں کو جوڑنے والی تعلیم ، اس کا طریقہ اور فیض بھی یہیں سے عطا ہو رہا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس