کیٹیگری: مضامین

جو کچھ محمد الرسول اللہ کی آل کےساتھ کربلا میں کیا گیا وہ اسلام کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے ۔ یہ وہی لوگ تھے کہ جو امام حسین کے نانا کا کلمہ پڑھتے تھے اور اُن کے نواسے کو بھوکا پیاسا رکھا اور پھر کربلا کی تپتی ہوئی ریت میں پورے خاندان کے جوانوں کو شہید کر دیا ۔اگر ان کے دل میں اللہ کے رسول کی عزت و احترام ہوتا تو کیا وہ ایسا کرتے؟ یہ وہی لوگ تھے کہ جن کی زبانیں کلمہ پڑھتی تھیں اور دل میں کلمہ سرائیت نہیں ہوا تھا۔صرف ظاہری شریعت تھی ، طریقت کا علم ، دل کی تصدیق اور قلب میں نور موجود نہیں تھا۔اگر قلب میں نور ہوتا تو پھر یہ امام حسین کو شہید نہ کرتے بلکہ اُن کی نعلین مبارک کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ۔

محبتِ الہٰی کا حصول اتباع محمد سے مشروط:

جو کردار اُس دور میں ہوئے وہ کردار کسی بھی دور میں ہو سکتے ہیں کیونکہ مومن بننے کی جو ترکیب ہے اگر وہ حاصل نہیں ہو گی تو کسی دور میں بھی اس طرح کے لوگ آ جائیں گے ۔اور مومن بننے کی ترکیب ظاہری علم کے ساتھ ساتھ باطنی علم کا ہونا لازم ہے۔اسلام کا تو یہی پیغام ہے “اقرار باللسان وتصدیق بالقلب”۔ زبان سے صرف توحید کا اقرار نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رسالت ، نبوت اور ولایت کا بھی اقرار ہو ۔جو جو حقائق اللہ کی طرف سے مشتہر ہوں اُن سب کا اقرار زبان سے لازم ہے ۔عظمت مصطفی کا اقرار لازم ہے ، تحریم و تکریم اہل بیت کا اقرار لازم ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی محبت ، مومن بننے کے لئے شرط ہے۔اللہ کی محبت بھی حاصل کرنے کے لئے محمد الرسول کی چاکری اور اتباع کرنا شرط ہے۔اگر حضورؐ کی اتباع اور اطاعت نہیں ہو گی تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی محبت عطا نہیں کرے گا۔قرآن مجید میں آیا ہے کہ

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(سورۃ آل عمران آیت نمبر 31 )
ترجمہ: اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو یارسول اللہ آپ کی اتباع کریں ۔تو آپ کی اتباع کے نتیجے میں اللہ ان لوگوں سے خود محبت کرنے لگے گااور تمھاری خاطر تمھیں تمھارے گناہوں سے پاک کر دے گا۔

اب اللہ کی محبت کا حصول اور مغفرت کا حصول قرآن مجید کی روشنی میں براہ راست محمد الرسول کی اتباع سے مشروط ہے۔اگر محمد الرسول اللہ کی اتباع ہو جائےگی تو اللہ کی محبت کا قرآن نے یہ واحد راستہ بتایا ہے ۔ایمان کے لئے خود آپؐ نے فرمایا ہے کہ

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّه عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكونَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعينَ
(حدیث بخاری شریف، متفق علیہ)
ترجمہ: تم میں سے ایک بھی شخص مومن نہیں بن سکتا جبتکہ میں محمد اُسے ماں، باپ اور کل انسانیت سے محبوب ترین نہ ہو جاؤں۔

لا يُؤْمِنُ یہ قطعی انکار ہے ۔ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ تمھارا ایمان کامل نہیں ہو گالیکن یہ بات بہت بڑا جھوٹ کا پلندا ہے ۔اگر حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو اس میں قطعی طور پر انکا ر ہے لا يُؤْمِنُ مومن بنو گے ہی نہیں اور یہ قانون کسی خاص اور عام کے لئے نہیں ہے۔ أَحَدُكُمْتم میں سے ایک بھی مومن نہیں بن سکتا ، خواہ وہ مولا علی ہوں ، سلمان فارسی ہوں، عثمان غنی ہوں یا کوئی اور صحابی یا ولی ہوں ۔ حَتَّى أَكونَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعينَ کہ جب تک تم اپنی ماں ، باپ اور اس کے بعد کسی رشتے کا ذکر نہیں کیا بلکہ پوری انسانیت کا ذکر کر دیا ۔ تم میں سے ایک بھی شخص مومن نہیں بن سکتا جبتکہ میں محمد اُسے ماں، باپ اور کل انسانیت سے محبوب ترین نہ ہو جاؤں۔جب تک حضورؐ سے محبت نہیں ہو گی مومن نہیں بنیں گے۔ اور پھر فرمایا کہانا من الفاطمہ و الفاطمہ منی ۔۔۔۔۔میں فاطمہ سے ہوں اور فاطمہ مجھ سے ہیں۔جس نے فاطمہ الزہرہ کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی ۔اور پھر تکلیف پہنچانے کے لئے قرآن کیا کہتا ہے ۔

انَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
(سورةالاحزاب آیت نمبر 57 )
ترجمہ : جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت و تکلیف پہنچانتے ہیں تو اللہ تعالی ایسے لوگوں پر لعنت بھیجتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اُن لوگوں سے وعدہ ہے اللہ کا کہ ان لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔

واقعہ کربلا کی وجوہات:

تو کربلا کے میدان میں جو لوگ تھے ، جو امیر معاویہ کے بیٹے کے حکم پر آئے تھے اور زبردستی کر رہے تھے کہ تم یزید بن معاویہ کو امیر المومنین تسلیم کرو۔کربلا کے میدان میں جو معرکہ ہوا ہے اس کی اصل وجہ کیا تھی کہ امیر معاویہ کا زانی ، شرابی بیٹا اس کو امیر معاویہ نے امیر المومنین مقرر کر دیا اور پھر اس نے تمام مسلمانوں سے بیعت لینا شروع کر دی کہ مجھے تسلیم کرو ۔اب یہ کوئی سیاسی فیصلہ تو نہیں تھا بلکہ دین کا معاملہ تھا اور امیر معاویہ کون ہوتا ہے اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کرنے والا ۔اس حرام کام کے لئے اس نے زبردستی لوگوں سے بیعت لی اور کہا کہ حسین اور اُن کے گھرانے سے بھی بیعت لو کہ وہ مجھے تسلیم کریں میں خلیفہ ہوں ۔اس کو یہ ڈر تھا کہ لوگ امام حسین کے پیچھے چلے جائیں گے ۔اُس کی خلافت کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ آل محمد کا گھرانہ تھا۔ کیونکہ وہ روحانی ہستیاں تھیں۔ اُنکے کردار اور گفتار سے لوگ محضوظ ہوتے تھے۔اس کو یہ ڈر تھا کہ زبردستی حسین اور اُن کے گھرانے کو روکا نہ گیا تو پھر اس کی خلافت اُلٹ جائے گی ۔ لہذا اس نے اپنے فوج کے سپہ سالار ابن زیاد کو یہ حکم دیا کہ تم ہر حال میں حسین کو یا تو بیعت کرواؤیا پھر سر کاٹ کر لاؤ اور پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ مولویوں سے سنتے رہتے ہیں ۔ اس میں بھی مولویوں نے لاف زنی سے کام لیا ہے اور ایسے معرکہ کربلا کو بیان کرتے ہیں جیسے کرکٹ میچ کی لائیو کمنٹری ہو رہی ہوخواہ وہ سنی مولوی ہوں یا شیعہ ہوں۔
جو اس وقت کربلا کے واقعہ کے وقت موجود تھا صرف وہی جانتا ہے امام حسین اور پورا حضورؐ کا جو گھرانہ تھا ان کی کتنی شدت کے ساتھ توہین ہوئی ، کتنی شدت کے ساتھ اُن کی گستاخیاں کی گئیں ہیں اور اُن کو کسطرح بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کر دیا گیا ہے ۔یہ اسلام کی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھااور اسلام اس واقعہ پر شرمندہ ہے۔دیو بندی وہابی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو امام حسین کے قاتل کو جہنمی کہتے ہیں ، یزید بن معاویہ کے ساتھ رحمتہ اللہ لگاتے ہیں اس کو جنتی کہتے ہیں اور اسکی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایک حدیث ہے حدیث قسطنطنیہ کہ اس میں درج ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ “مسلمانوں کا ایک لشکر قسطنطنیہ پر چڑھائی کرے گا اور اس میں جتنے بھی لوگ جہاد میں شامل ہوں گے وہ سب جنتی ہوں گے”۔ لیکن اگر آپ احادیث کا مطالعہ کریں تو قسطنطنیہ پر اٹھارہ مرتبہ چڑھائی کی گئی ہے ۔حضورؐ نے پہلی دفعہ چڑھائی کرنے والوں کے لئے کہا تھا۔ایسے کیسے ہو سکتا کہ نبی کے نواسے کو کوئی دنیا کی لالچ اور خلیفہ بننے کی خاطر بے دردی سے شہید کرے اور پھر اللہ تعالی اس کو جنت میں بھیج دے ۔

مندرجہ بالا مضمون 16 مئی 2017 کی نشست میں کئے سوال سے ماخوز ہے۔

متعلقہ پوسٹس