کیٹیگری: مضامین

اہل تشیع مولا علی کے خطبات کو مکمل علم سمجھتے ہیں :

اہل تشیع حضرات کا مولا علی کرم اللہ وجہہ اور اہل بیت کے حوالے سے گمان بہت اچھا ہے لیکن مولا علی اور اہل بیت عظام کی تعلیم کیا یہ اُس سے نابلد ہیں ۔ وہ تعلیم جس کیلئے آقائے دو جہاں سرور قونین محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ “میں تو علم کا شہر ہوں لیکن اُس علم کے شہر کا جو دروازہ ہے وہ مولا علی ہیں” ۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بعد کے دور کے آنے والوں کیلئے ہیں کیونکہ جس دورمیں یہ حدیث ارشاد ہوئی ہے اُس دور میں تو محمد الرسول اللہ خود ہی موجود تھے دروازے کی ضرورت تو نہیں تھی اگر اُس دور کیلئے ہوتا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے پہلے کافروں کو مولا علی کو ماننا پڑتا بعد میں وہ کلمہ پڑھتے ،لیکن ایسا تو نہیں ہوا ۔ اہل تشیع مولا علی کےجو خطبات ہیں انہی کووہ اُن کامکمل علم سمجھتے ہیں لیکن وہ علم تو مولا علی کے سینے میں باطنی علم کی صورت میں محفوظ ہے اُس باطنی علم کا اِن کو پتہ نہیں ہے ۔اب دوسرا یہ کہ جو باتیں روحانی کیفیات میں مولا علی نے فرمائیں اُن باتوں کو سمجھنا صرف اُس کیلئے ممکن ہے کہ جو تعلیماتِ فقر ،تعلیماتِ روحانیت سے واقفیت رکھتا ہے اور بہت ساری باتیں ایسی بھی ہیں کہ وہ باتیں اُن کو بھی سمجھ میں نہیں آئیں گی جو تعلیماتِ فقر سے واقفیت رکھتے ہیں جب تک اُنکے پس منظر کا پتہ نہ ہوں۔

حضرت علی کی انگوٹھی کا معمہ :

اب انگوٹھی کا جو مسئلہ ہے کہ جب حضورؐ معراج پر تشریف لے کر گئے تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی دیکھی جو حضرت علی کے ہاتھ میں تھی اور وہ انگوٹھی حضور پاک ﷺ نے ہی حضرت علی کو دی تھی ۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضورؐ کو اللہ کا دیدار نہیں ہوا تھا بس پردے میں سے دیکھا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معراج پر حضورؐ نے اللہ کا دیدار نہیں کیا تو پھر وہ انگوٹھی کیسے نظر آئی تھی !!! اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کوئی حجاب پہنا ہوا تھا صرف ہاتھ نکال کے آگے کیا تو ایسا ہر گزنہیں ہے۔ اب اِس کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے وہ ہم بیان کرتے ہیں ۔
ایک تو مقام اور مرتبہ باطن میں یہ ہے کہ انسان اللہ کے دیدار تک پہنچ جائے ، یہ کوئی بڑا مقام نہیں ہے بہت سے لوگوں کو اللہ نے اپنے دیدار سے نوازا اور جب اللہ نے اپنے دیدار سے بہت سارے لوگوں کو نوازا ہے تو کوئی خاص چیز تو نہیں ہے، بحیثیتِ مجموعی تو خاص ہے لیکن اگر ایسی خصوصیت ڈھونڈے جو خصوصیت ہونے کے باوجود اِمتیازی ہو ،تمام خصوصیات میں ممتاز ہو تو وہ خصوصیت دیدارِ الہی میں نہیں ہے ۔ایک تو اللہ کو دیکھنا ہے یہ تو عام ہے بیشمار اولیاءِ اکرام کو اللہ کا دیدار ہوا اور ایک ہے اللہ ہونا اور ایک اللہ کو دیکھنا ہے ۔ اللہ ہونا چیزِ دیگر وہ کچھ اور ہی چیز ہے ،اب یہ جو اللہ کو دیکھنا ہے یہاں تو طریقت کی انتہا ہو جاتی ہے اللہ کا دیدار کر لیا ولی بن گئے 360 تجلیات روز پڑ رہی ہیں۔ایک نظرِ رحمت 60 گناہوں کو روز جِلا رہی ہیں یہی دیدار حضرت علی کرم علی وجہ کو بھی ہوا اُنہوں نے بھی اللہ کا دیدار کیابلکہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ولایت وہیں سے ارتقاء پذیر ہوئی ہے ۔

مقام وصل کیا ہے ؟

لیکن ایک چیز ہے مقامِ وصل اور مقامِ وصل والوں کیلئے ایک حدیث شریف آئی اُس میں لکھا ہے کہ “میرے بندے پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ میں اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اُس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہےاور یومِ محشر میں اُس کی زبان بن جاؤں گا جس سے وہ بولے گا” تو اب یہ جو مقام ہے وہ کون سا ہے کہ جس میں اللہ بندے کے ہاتھ بن جائے ،بندے کے کان بن جائے ،بندے کی انکھیں بن جائے یہ جو مقام ہے مقامِ وصل کا ہے اور یہ جو مقامِ وصل ہے اِس کا جو ادنی ترین اِعزاز ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی مقامِ وصل والی ہستی ہے اُس نے اگر کوئی کپڑا پہناتو یوں سمجھ لو کہ وہ اللہ نے پہنا، اب وہ کپڑے اللہ کیسے پہنے گا ؟ جس طرح آپ لوگوں نے سنا ہوگا ایک تو رشتہ ہوتا ہے خونی بہن بھائی کا ایک ہی ماں ایک ہی باپ سے پیدا ہوئے تو خونی بہن بھائی ہوگئے لیکن اگر کسی غیر بچے کو تمھاری ماں اپنا دودھ پلا کے پرورِش کرے تو وہ بھی آپ کا بہن اور بھائی بن جاتے ہے اوراُس کو رضائی بہن ،رضائی بھائی بولتے ہیں اور اُس سے بھی نکاح نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کی ماں کا دودھ اُس کے جسم میں دوڑ رہا ہے لہذا وہ اِس رشتے سے بھائی ہوگیا۔ یہی طریقہ وصل کا بھی ہے

“جب اللہ تعالی اپنے وجود کا کوئی حصہ کسی انسان میں داخل کر دیتا ہے تو جزوی طور پر اُس انسان میں اللہ موجود ہوگیا۔ ایک تو اللہ کی موجودگی ہے کُلی طور پرکہ عرشِ الہی پر موجود ہے لیکن جزوی موجودگی یہ ہے کہ اپنی صفات کے ذریعے وہ ہر جگہ موجود ہے یہاں بھی موجود ہے اوروہاں بھی موجود ہے ”

جس طرح یہ ہندووں میں ذکر ہوتا ہے اوم اوم اوم اوم ، اوم کا مطلب کیا ہے انگریزی کا ایک لفظ ہے ، اوم کا مطلب وہی ہے جو اُس لفظ کا مطلب ہے اور اُس لفظ کے پہلے دو جو لفظ ہیں وہ بھی “اوم ”ہے اور وہ لفظ ہے ” omnipresent” کا مطلب یہ ہوا کہ جو ہر جگہ موجود ہو ۔ ہم یہ مانتے اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ بھئی اللہ ہر جگہِ موجود ہے اُس کے باوجود بھی ہمیں نظر تو نہیں آتا لیکن پھر بھی مانتے ہیں ۔ اگر ہم کسی مسلمان سے پوچھیں کہ کیا ہر شے اللہ کا ذکر کرتی ہے تو اس کا جواب اثبات میں ہو گااور وہ اس آیت کا قرآن سے حوالہ دیں گے کہ

سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
سورۃ الصف آیت نمبر 1
ترجمہ : زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہےاور وہ غالب اور حکیم ہے ۔

پھر مسلمانوں کو کہیں اللہ ہر جگہِ موجود ہے نظر آتا ہے ؟ تو وہ کہیں گے ضروری تھوڑی ہے کہ نظر آئے لیکن ہمارا ایمان ہے اللہ ہر جگہ موجود ہے ۔ اب اگر اللہ ہر جگہِ موجود ہے تو کعبے کی طرف رُخ کرکے نماز کیوں پڑھی ہے بھئی اللہ تو ہر جگہِ ہے نا تو پھر تو کعبے کی طرف منہ کرکے نماز کیوں پڑھ رہا ہے جب اللہ ہر جگہِ ہے تو۔ با یذیدبسطامی جنگلوں میں اپنی عبادتوں میں مصروف تھے تو آپ نے دیکھا ایک آدمی اِدھر اُدھر بولایا بولایا پھر رہا ہے آپ مخل ہوئے یعنی آپ تنگ ہو رہے تھے تو آپ نے اُسے بلایا اور پوچھا کہ کیا وجہ ہے جو تم اِدھر اُدھر پھررہے ہو، کوئی مسئلہ ہےکیا؟ اُنہوں نے کہا بھئی میں کوئی پاک صاف جگہ ڈھونڈ رہا ہوں نماز پڑھنی ہے ۔ بایزید بسطامی نے کہا کہ“ اپنے دل کو پاک کرلے پھر کہیں بھی کھڑا ہو کے نماز پڑھ لے ”۔ یہ تعلیم جو ہے یہ اندر کو صاف کرنے والی تعلیم ہے یہ واصلین سمجھاتے ہیں ۔ اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے لیکن ہمیں نظر تو نہیں آیا، کیوں نظر نہیں آرہا کہ جبکہ وہ تو ہر جگہِ موجود ہے ؟ اللہ جو ہر جگہ موجود ہے نا وہ اپنی صفات کے زریعے ہے اور صفات جو ہیں نظر نہیں آئیں ۔ صفات سے جو آگے کام ہوتا ہے وہ نظر آتا ہے لیکن وہ صفات نظر نہیں آتیں ۔ جس طرح بارش ہو رہی ہے تو یہ اللہ کا فضل ہے لیکن بارش نظر آرہی ہے اللہ کا فضل کہاں ٹپک رہا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ دیکھو مہ برس رہا ہے اللہ کا فضل ہو گیا لیکن اگر یہ کہیں کی یہ اللہ کا فضل ہے۔ نہیں یہ تو بارش ہے تو پھر تم بارش کو اللہ کا فضل کیوں کہہ رہے ہو؟ اللہ کی جو صفات ہیں وہ نظر نہیں آتی ہیں، جسطرح اللہ رحیم و کریم ہے جب رحم کرے گا، کرم کرے گا تو جو کرم ہوگا وہ کرم آپ کو نظر آئے گا لیکن وہ صفت ِ کریمی تو نظر نہیں آئے گی لہذا اللہ ہر جگہ اپنی صفات کے زریعے موجود ہے لیکن وہ نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طریقے سے

“جس انسان کو اللہ مقامِ وصل پر فائض کرتا ہے اپنے وجود کی کوئی چیز اُس کے اندر ڈال دیتا ہے جس کے زریعے وہ وہاں موجود ہوتا ہے جس طرح تیری ماں کا دودھ غیر بچے نے پی لیا تو وہ دودھ اُس کے خون میں چلا گیا لہذا اب وہ بھی اُس کے بچوں میں سمجھا جائے گا اِس طرح رب کی کوئی چیز کسی انسان میں چلی گئی تو وہ بھی رب کا حصہ تصور کیا جائے گا”

اب جن لوگوں کو یہ روحانی تعلیم نہیں آتی وہ یہ کہتے ہیں کہ دیکھو جی یہ تو اپنے مرشد کو اللہ کہہ رہے ہیں، یہ تو شرک ہے ۔کہاں ہے شرک کس نے کہا ہے کہ یہ شرک ہے قرانِ مجید میں لکھا ہے یہ جگہِ جگہِ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے جو مٹی پھینکی وہ مٹی آپ نے نہیں پھینکی وہ مٹی ہم نے پھینکی۔ آپ نے جو بیعت کیلئے ہاتھ بڑھایا بیعتِ رضوان میں وہ آپ کا ہاتھ نہیں تھا وہ اللہ کا ہاتھ تھا۔ جب یہ چیزیں آئیں تو مولویوں نے ایک نیا فتنہ اور فساد گڑھ لیا کہ یہ جو ہیں آیاتِ مستحیبات ہیں ان میں اللہ نے تشبیح دی ہے ورنہ ایسی بات نہیں ہے کہ حضور کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہو ۔ قطعی نہیں مولویوں کی یہ بات بالکل غلط ، من گھڑت اور بے بنیاد ہے ۔اس آیت میں کوئی تشبحات نہیں ہیں محمد الرسول اللہﷺ کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے جویہ بات نہیں مانتا وہ کافر ہے ۔ محمد الر سول اللہ کو دیکھنا اللہ کو دیکھنا ہے جو یہ نہیں مانتا وہ کافر ہے۔قرآن مجید میں آیا ہے کہ

وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ
سورة الا نفال آیت نمبر 17
ترجمہ : اے محبوب ! جو مٹی آپ نےپھینکی تھی وہ مٹی آپ نے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی۔

وہ جو اُس ذات تک پہنچ گئے جو مقامِ وصل پر فائض ہو گئے جب ان سے کسی نے پوچھا کہ ہاں جی اللہ کہاں ہے اللہ تو مدینے میں23 سال سے گھوم رہا تھا، اجمیر میں حضرت معین الدین چشتی کے روپ میں گھوم رہا ہے تم کو ابھی تک اللہ نظر ہی نہیں آیا۔ یہ باتیں سن کے وہ لوگ جن کو وہابی اِزم کا سبق پڑھایا جا چکا ہے ،جن کے دلوں میں شیطان گھس گیا ہے ،جن کی انکھوں میں ظلمت نے موتیا کر دیا ہے اُن کی سمجھ میں قرآنِ مجید کی جو اصل تعلیم ہے جو تشریحِ قرآنِ مکنون ہے وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں ان کے دلوں میں بت رکھے ہوئے ہیں شرک کے مشرک بن چکے ہیں کچھ لوگوں نے اپنے ذہن کا خدا بنا رکھا ہے اور اپنے من میں رکھ رکھا ہے اُس خدا کو گرانا ہے اور اُس خدا کو ما ننا ہے جس نے محمد الر رسول اللہ کو بھیجا ہے جس نے عیسی و موسی کو بھیجا ہے جس نے امام مہدی کو کہا ہے کہ جا کر میری مخلوق کو مجھ سے ملا دو ۔

حاصلِ کلام:

مقام وصل کی بات اس لئے ضروری تھی کہ انگوٹھی کے عقدے کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ محمد الرسول اللہ کی جو چہیتی صاحبزادی تھی فاطمتہ الزہرا وہ مقامِ وصل پر فائض تھیں ،حضور ﷺنے حضرت علی کو انگوٹھی دی کہ تم یہ لے لو اورمولا علی نے وہ انگوٹھی بی بی فاطمہ کو دے دی اور وہ بی بی فاطمہ نے پہن لی۔ بی بی فاطمہ سلُطانُ الفُقراء تھیں مقامِ وصل پر فائض تھیں وہ انگوٹھی بی بی فاطمہ کے ہاتھ میں تھی۔ جب حضورﷺمعراج پر گئے تو حضور پاک نے وہی انگوٹھی اللہ کے ہاتھ میں کیسے دیکھی جو سلُطانُ الفُقرا فاطمتہ الزہرہ نے پہنی ہوئی تھی۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنی بیٹی کی عظمت کا گوشہ عیاں کرنا تھا ورنہ محمد الرسول اللہ سے بڑا سلطان کون ہے !! اگر دکھانا ہوتا تو یہ بھی دکھا دیتے جب معراج پہ گئے تھےکہ اللہ نے بھی تین پتھر اپنے پیٹ کو باندھدے ہوئے ہیں لیکن اپنی عظمت کو اُجاگر نہیں فرمایا اگر فاطمہ کی انگوٹھی اللہ نے پہنی ہے تو محمدرسول اللہ کے پتھروں سے اللہ کو کیا بیر ہوسکتا ہے ۔ جسکی عظمت کو اُجاگر کرنا ہے اللہ کے رسول نے کی ہے فاطمہ کی انگلی میں انگوٹھی تھی مگر حضورؐ نے دی علی کرم علی وجہہ کو تھی ۔ اب جن کو یہ راز نہیں پتہ کہ وہ انگوٹھی علی نےکس کو دی تھی اور کس کے پہننے سے اُنگلی میں نظر آئی انگوٹھی یہ راز پتا ہی نہیں ہے ۔ حضرت علی مولا علی ہیں اللہ تعالی اُن کے درجات بلند فرمائے لیکن حقیقت تو حقیقت ہی رہتی ہے ۔ مولا علی تو مولا علی ہیں لیکن جو فاطمتہ الزہرہ کا مقام ہے مولا علی وہاں نہیں پہنچ سکتے اور مولا علی کی وہ اولاد جو بی بی فاطمہ سے ہوئی ہے صرف وہی سادات کے درجے پر فائض ہوتی ہے۔ مولا علی کی اور بھی اولاد تھی اُن کو آپ سادات میں شامل کیوں نہیں کرتے اگر حضرت علی کی وجہ سے سادات کی عظمت ہوتی تو علی کی اور بھی اولاد تھیں ان کو علوی کہتے ہیں۔ جو اولادفاطمہ کے بطن سے پیدا ہوئی وہ نوری اولاد کہلاتی ہیں وہ سیدزادے کہلاتے ہیں ،وہ سادات کہلاتے ہیں۔ علی کا اسمیں تو کوئی دوش ہی نہیں ہے اِس میں شک نہیں ہے کی مولا علی کو محمد الرسول اللہ نے بڑا نوازا اللہ نے بھی بڑا نوازا لیکن سب کچھ اللہ نے حضرت علی پر تو نہیں لٹا دیا ۔ محمد ﷺاپنے کزن مولا علی کو نوازا تو اپنی بیٹی کو بھول جائیں گے کزن سے پہلے تو بیٹی ہے یہ بھی ذہن میں رکھیے گا ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے11 اگست 2017 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس