کیٹیگری: مضامین

عام انسانوں کی ارواح کن پیغمبروں اوررسولوں کی قوم میں ہونگی؟

جب اللہ تعالی نے روحوں کی تخلیق کی تو پہلی صف میں سارے انبیاء تھے۔ پھراُدھراللہ نے فیصلہ کیا کہ جواب انسانوں کی روحیں ہیں توکسکو کس کے ساتھ لگانا ہے! اس کیلئے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم موسٰیؑ کے ساتھ لگ جاوٴ یا عیسٰیؑ کے ساتھ لگ جاوٴ کیونکہ ایسے زیادتی ہوجاتی۔ اسی لئے پھریہ ہوا کہ سب سے پہلے اللہ نے اپنے ناموں کےنورکا اظہارکیا ہوا تھا تو پہلے جو اسمِ ذات کا نور تھا اُس کا اظہارکیا۔ جب اُس کا اظہارہوا توجوجوروح اُس کی زد میں آگئی اُن کوکہا کہ الگ ہوجائیں۔ وہ اسمِ ذات والے تھے اوراسمِ ذات اللہ نے حضورؐکودیا ہوا تھا تونام لگا کراللہ نےفرمایا کہ اےحبیب! جس جس روح میں اسمِ ذات چمک رہا ہے وہ تیرا اُمتی ہے۔ پھراُس نےدوسرےاسماء کا اظہارکیا اور وہ ایسا ہورہا تھا جیسے پٹاخوں کی رات ہوتی ہے توایسے وہاں پٹاخےچل رہےتھے۔ ایک دفعہ امام مہدیؑ نے فرمایا کہ ہم نےاسمِ ذات کی کنجی فضا میں پھینک دی ہے۔ یہی جملہ ہم نےعرش پرسنا۔ جب ازل میں دیکھا تواُدھربھی رب نے کہا کہ اب میں یہ کنجی فضا میں پھینک رہا ہوں اورجوجواِس کی زد میں آگیا وہ اُس کا ہوگیا۔ پھر”یا رحمٰن” کا اظہارہوا اور یا رحمٰن کا نورجن پرپڑا توکہہ دیا کہ موسٰیؑ کے پاس چلےجاوٴکیونکہ موسٰیؑ کےپاس یا رحمٰن تھا۔ اُس کےبعد “یا قدوس” کا نام پھینکا اورجو اُس کی زد میں آگئے توکہا کہ تم عیسٰیؑ کےپاس چلےجاوٴ۔ وہ روحیں اب اُن کے اُمتی بن گئے۔ اس لئے حضور پاکؐ نے فرمایا کہ میں ادھر آنے سے پہلے بھی نبی تھا یعنی یومِ ازل میں نبی تھے۔ اب یہ ساری اُمتیں بن گئیں۔

کرّہٴِ عشق کا راز:

جو دنیادار تھے اُن کے اوپر اللہ نے اپنے غضب کا اظہار کیا۔ جس کے بھی اوپراُس کے چھینٹے پڑے انہوں نے ہی پھربعد میں دنیا کوپسند کیا۔ لیکن ابھی بھی روحوں کا بہت بڑا مجمع لگا ہوا تھا۔ پھر رب یہ سوچ رہا تھا کہ یہ مجمع کیسے رہ گیا کہ جب اسمِ ذات کا اظہارہوا یہ اُن کی زد میں نہیں آئے، یارحمٰن کا اظہارہوا تواُس کی زد میں بھی نہیں آئے، یاقدوس کا اظہار ہوا تو اُس کی زد میں بھی نہیں آئے لیکن پھریہ کہاں جائیں گے! پھر اتنے میں ایک نورکا گولہ پھٹا توجواُس کی زد میں آگیا تو اُن کوکہا کہ تم یہاں آجاوٴ۔ جب وہ آگئے توانہوں نے پوچھا کہ ہمارا امام کون ہے؟ اللہ نے پھرفرمایا کہ انتظار کرو کیونکہ میں بھی انتظار کررہا ہوں۔ جویہ نورکا گولہ پھٹا تھا اس کے اوپرکوئی نام نہیں تھا لیکن اس کی چمک اسمِ ذات سے بھی زیادہ تھی۔ وہ ایسے پھٹا جیسے سورج نکل آتا ہے۔ جب نور کا گولہ پھٹا تواُس کی روشنی اتنی تیز تھی کہ جو کچھ دنیادارروحیں تھی تودوچار نورکی کِرنیں اُن پر بھی پڑگئیں۔ اُس میں اتنا زیادہ نورنکلا کہ حدِ نگاہ سے دورجہاں عورتوں کی روحیں کھڑی تھیں وہاں تک بھی اُس کی کرنیں پہنچ گئیں۔ اب دنیادار روحیں پہلے غضب کی زد میں آئے اور اُس کے بعد جب نور کا گولہ پھٹا تووہ بہت زورآور تھا توجوپہلے سے زد میں آئے ہوئے تھے اُن کے اوپربھی نورکی کِرن پڑگئی۔ اسی لئے اُدھرکہا کہ جن گنہگاروں نے امام مہدیؑ کے ماننے والوں اور امام مہدیؑ کے پرچارکرنے والوں کا ساتھ دیا تووہ بھی بڑے بڑے مرتبوں پرفائزہوجائیں گے۔ وہ وہی لوگ تھے جو وہاں نور کے گولے کی زد میں آگئے تھے۔ جب امام مہدیؑ دنیا میں آئیں گے تو پھروہی نور کا گولہ اُن کے قدموں میں ہوگا۔ اس لئے جس کے بھی دل میں نور ہوگا وہ سب سے پہلے اُن کے قدموں کی طرف جھکے گا کیونکہ ازل میں وہ نور کے گولے کی زد میں آگئے تھے۔ یہ تعلیم کتاب میں نہیں ہے۔ اُس نور کے گولے سے جوشعائیں نکلی تواُس مرکز کے درمیان میں جو روحیں تھی وہ بہت زیادہ منور ہوگئی۔ پھراُس کے چاروں طرف گھیرا لگا ہوا تھا تواُس پرپڑکرشعائیں اُچھلی ہیں توجو گیارہ بارہ روحیں تھی وہ اُس کی زد میں آگئیں۔ یہ نور کا گولہ نہ طفلِ نوری تھا اور نہ جثہٴِ توفیقِ الہی تھا بلکہ یہ “الرٰ” تھا۔ الف سے اللہ، ل سے باقی سب کی نفی اور “رٰ” اُس ذات کے نام کا پہلا حرف ہے۔

روح کی حقیقت اور مقصد:

جو بھی اُس گولے کی زد میں آیا ہے اُسے یہاں آنا ہے اور باقی یہ خانہ پوری ہے کیونکہ زد میں روح آئی تھی اور روح دل میں بند ہوتی ہے، اس لئے سب کو ذکرِ قلب سے گزرنا پڑے گا۔ یہ لطائف ایک دوسرے کے اندر بند کرکے رکھے ہیں۔ اب جس پرگولے کی تجلی پڑی ہوئی ہے وہ روح اندربند ہے۔ اس لئے سب کو ذکرِقلب سے گزرنا پڑے گا۔ ذکرِ قلب سے گزرکے پھرامام مہدیؑ نے فرمایا کہ “روح تک پہنچے گا”۔ جب روح تک پہنچ گیا تو دینِ الہی میں داخل ہوجائے گا۔ قلب سے گزرنا پڑے گا کیونکہ جوگولے کی زد میں چیزآئی ہے وہ قلب نہیں تھا۔ جوروح تھی یہ گولے کی زد میں اُس وقت سے آئی ہوئی ہے جس وقت نہ آدم، نہ حوا، نہ ابراہیم اور نہ موسٰی تھے کیونکہ اُس وقت کوئی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اُس وقت تو الہ بھی نہیں تھا۔ اب انہوں نے زمین پرآکریہ پتہ لگانا ہے کہ اِن کے اوپرکونسی بارش ہوئی تھی۔

جب یا قدوس کا پٹاخا پھوٹا تو جواُس کی زد میں آگیا وہ عیسٰیؑ کے ساتھ لگا دیا گیا۔ جو یارحمٰن کی زد میں آئے وہ موسٰیؑ کے ساتھ اور جو اسمِ ذات اللہ کی زد میں آئے اُن کو حضورؐکے ساتھ لگادیا گیا۔ آخرمیں پھرایک بڑا گولہ پھٹا تو اُس میں کوئی نام نہیں تھا۔ اُس گولے کو کرّہٴِ عشق کہتے ہیں۔

جواُس گولے کی زد میں آگیا ہے تواُس کوسکون ہی اِس پیغام سے ملے گا۔ اُس کوکسی اورچیزمیں مزہ نہیں آئے گا لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ غلط ہے بلکہ یہ اُس کیلئے نہیں ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اُسے آگے جانا ہے اور اُس کیلئے کچھ اور ہے۔ اب تم نیچے آگئے لیکن اب کسکوکیا خبرکہ تم کون ہو اورتمہاری جو روحیں تھی جیسا کہ کسی کی شادی ہوئی اور بچہ ہوا توابھی تک کچھ نہیں پتہ کہ کون ہے! پھروہاں سےاللہ روح بھیجے گا اور وہ روح زمین پرآگئی۔ جب وہ روح زمین پرآگئی لیکن اُدھرتووہ ہشاش بشاش تھی کیونکہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا کمرہ ہو جس کے اندرجگہ جگہ خون ہی خون پڑا ہوا ہو اور تم وہاں آرام سے جاکربیٹھ جاوٴاور تمہیں کراہیت نہ ہو، ایسا نہیں ہوسکتا تووہ روح جب اِس خون والے جسم میں گئی تو بے ہوش ہوگئی کیونکہ پہلے جواُن کا ماحول تھا وہ نور والا تھا تو جب جسم میں گئی ہے تووہ خون بدبو ہے جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئی۔ اب روح کا تعلق خون سے توڑنا ہے توسب سے پہلے اُس کواللہ اللہ میں لگاتے ہیں توجب اُس کواللہ اللہ سے نور ملتا ہے تواُسے لگتا ہے کہ اب آکسیجن آرہی ہے۔ اُس کے بعد پھرروح زورزور سے للہ اللہ کرنے لگتی ہے، اُچھلتی اور بہت بے چین ہوتی ہے کہ مجھے یہاں سے نکالو۔ روح کی بے چینی انسان برداشت نہیں کرسکتا اسی لئے احتجاجاً کسی نے کھانا پینا چھوڑدیا، پتے کھائے، جنگلوں میں چلا گیا اور مراقبے لگائے کہ جلدی سے اُس کا وقت گزرجائے کیونکہ وہ آنکھ اُٹھا کردنیا کونہیں دیکھنا چاہتا۔ پھرروح کومراقبہ کرنا سکھایا اور مراقبے کے ذریعے روح باہر آنا شروع ہوگئی۔ جب وہ باہرآنا شروع ہوگئی توپھراُس کومزہ آنے لگا کہ اُسے کچھ گھنٹے کیلئے تو آرام ملے گا۔ وہ روح جسم میں رُکنا نہیں چاہتی۔ روح کو جسم میں بہت پریشانی ہے کیونکہ جب تک وہ جسم میں بے ہوش تھی تواُس وقت کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ ہوش میں نہیں ہے۔ پھرجب وہ بیدار ہوگئی تواب پریشانی پیدا ہوگئی۔ اُس کے بعد جب روح اوپرسے ہوکرآئی تو اُس کو پتہ چلا کہ وہ وہاں رہتی تھی لیکن بلاوجہ اُسے نیچے بھیج دیا۔ روح نے پھربہت ضد کی کہ اُسے واپس نہیں جانا تو پھرجبرائیلؑ اُس کے نبی کوبلا کرلاتے توپھراُس روح کونکالتے۔ پھرنبی اُسے کہتا ہے کہ دیکھوجو وقت زمین پر لکھا ہے وہ پورا کرنا پڑے گا تواب تم ضد نہ کروکیونکہ تم نے دوبارہ یہیں پرآنا ہے۔ پھرجب وہ راضی ہوجاتی ہے تواُسے اجازت ملتی ہےکہ ہفتے میں اتنی مرتبہ آجاوٴ۔ پھروہ اُدھرآنا جانا شروع ہوجاتا ہے۔
اُس کے بعد جب روح کواللہ کی طرف سے ڈیوٹی پرلگادیتے ہیں توجوروح سب سے زیادہ بے چینی کا اظہارکرتی ہے اُس کودکھایا جاتا ہے کہ یہ تمہاری عمرہے، اتنا عرصہ تم نے دنیا میں رہنا ہے لیکن اگروہ روح کہے کہ اُسے جلدی بھیجوتوپھراُس کوڈیوٹی پرلگادیتے ہیں۔ جب اُس کوڈیوٹی پربٹھا دیتے ہیں تواُس کےبعد جواُس کی ازلی عمرہوتی ہے وہ کاٹ دیتے ہیں۔ پھراب رب کی مرضی ہےکہ اُس کوجب تک زمین پررکھے۔ اُن لوگوں کوہی اللہ نے یہ تعلیم دی کہ جیسے یہ موٴمنین ہیں یہ سارے چاہتے ہیں کہ جلدی جلدی مرجائیں اوراپنے رب سے ملاقات کرلیں۔ جو مسلمان موٴمن ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں اِن کو یارسول اللہ کہو۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 94
ترجمہ: اگرتم سچے ہوتوموت کی تمنا کرو۔

جومسلمان موٴمن ہونے کادعویٰ کرتےہیں اُن کوکہوکہ تم کہاں موت کی تمنا کرتے ہوکیونکہ جوموٴمن ہوتے ہیں وہ موت کی تمنا کرتے ہیں کہ اب نکلوں اور یار کو دیکھوں اور واپس ہی نہ آوٴں۔ اُن کی ہر وقت یہی تمنا ہوتی ہے کہ یہاں سے نکل جاوٴ کیونکہ اُن کا دنیا میں دل نہیں لگتا۔ ہمارا ایک شعر بھی ہے کہ
فراغت نہیں دیدِ گوھرسے جن کو
وہ دنیا کو مثلِ رسم دیکھتے ہیں

وہ صرف رسمی طورپرجی رہے ہیں کیونکہ اُن کی دلچسپی کا سامان کہیں اور ہے۔ اصل چیز وہ روح ہی ہے کیونکہ باقی لطائف اُس گولے کی زد میں نہیں آئے تھے۔ باقی لطائف صرف مدد کیلئے ہیں یعنی مرتبے بڑھانے کیلئے ہیں کیونکہ جب تمہارے لطائف زندہ ہوگئے اور تم مرجاوٴ گے تو تمہاری صرف روح اوپرجائے گی اور تمہارے لطائف قبرمیں ولی بن کربیٹھ جائیں گے۔ لوگ تمہارے مزار پرجائیں گے، منتیں مانگیں گے اور وہ جو لطائف قبرمیں تمہارے شکل میں زندہ بیٹھے ہوئی ہونگے وہ ہاتھ اُٹھا کراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں گے کہ اےاللہ! یہ سوال لے کرآیا ہے اسے بخش دو اور اِس کی حاجت پوری کردو تو وہ جو ننھے ہاتھوں سے لطائف دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تواللہ رد نہیں کرتا۔ جوقبرمیں رہتے ہیں وہ یہی لطائف ہیں۔ جب لطائف قبرمیں ذکرکررہے ہیں توروح اوپر اس سے بھی زیادہ مصروف ہوگی۔

اُمتی کی پہچان کیا ہے؟

یہ سب اُمتی وہاں بن گئے اور ایک تعداد مخصوص ہوگئی۔ جتنی روحیں اُس کی زد میں آئیں تھی وہی اُمتی ہیں۔ اب فرض کیا کہ وہاں یارحمٰن کا جواظہارہوا تھا تو اُس نام کی جوشعائیں تھی وہ دس ہزار روحوں پرپڑی تووہ دس ہزارروحیں اُمت بن گئیں۔ جس پر شعائیں نہیں پڑی وہ اُمت میں شامل نہیں ہے۔ جب تم تبلیغ کرتے ہوکہ اس کومسلمان بنائیں توتم نےاُس کوکلمہ توپڑھا دیا لیکن تجھے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اِس کے اندرجوروح ہے اُس روح کےاوپربھی اسمِ ذات کا اظہارہوا ہے اور اِس روح کو بھی یومِ ازل میں حضورؐ نے اپنی اُمت میں شامل کیا ہے تو یہ تجھے کیسے پتہ چلے گا! اگر یہ تمہیں نہیں پتہ چلے گا توتم کلمہ پڑھاتے رہو تو یہ کلمہ پڑھ پڑھ کرکوئی طالبان بن جائے گا اور کوئی داعش بن جائے گا لیکن اُمتی نہیں بنے گا۔ کوئی سنی، شیعہ، وہابی اور کوئی بریلوی بن جائے گا کیونکہ اُمتی تواوپرختم ہوگئے۔ اب تم کلمہ پڑھا پڑھا کر یا تو قادیانی بناؤ گے یا بریلوی بناؤ گے لیکن اُمتی نہیں بن سکتے کیونکہ اُمتی کی تعداد پوری ہوگئی ہے۔ یہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ
سورة الاٴعراف آیت نمبر 34
ترجمہ: ہراُمت کے اختتام کا ایک وقت مقرر ہے۔

اس آیت کی مزید تشریح یہ ہے کہ اُمتیوں کی ایک تعداد ہے۔ اگر آپ کلمہ پڑھ کرخود ہی اُمتی بن بیٹھیں تو یہ آپ کی مرضی ہے لیکن اللہ اِس کواُمت میں شمار نہیں کرےگا۔ اُمتی ہونے کیلئے ضروری ہے کہ یومِ ازل میں تم حضورؐ کے ریوڑ میں تھے۔ جوحضورؐکا کیمپ تھا تم اُس میں تھے۔ جن کے اوپراسمِ اللہ کی تجلی کا اظہارہوا تھا اُن کوحضورپاکؐ کے ساتھ کردیا توپھریہ ہوا کہ وہ روحیں حضور پاکؐ کے ساتھ رہیں تو خودبخود اُن میں حضورؐکی عشق و محبت پیدا ہوگئی۔ محبتِ رسول سیکھنا نہیں پڑتی بلکہ وہ تو روح کے اندر محمد الرسول اللہ کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ یومِ ازل میں تووہ ساتھ ہی رہتے تھے۔
جب مسلمان کا انتقال ہوتا ہے اورقبر میں جاتا ہے تواِس کوحضورپاکؐ کی شبیہ کیوں دکھائی جاتی ہے کیونکہ اگرحضورپاکؐ کےزمانے میں جنھوں نےحضورؐکا دیدارکیا تھا اُن کے مرنے پراُن کی قبرمیں دکھائی جائےتوبات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ پہچان لیں گے، اب اُس زمانے کے بعد جولوگ پیدا ہوکر مسلمان ہوئے ہیں وہ جب مرکے قبروں میں جائیں گے تواُن کو حضورؐکی شبیہ کیوں دکھا رہے ہوتو وہ کیسے پہچانیں گے! پھریہ پتہ چلا کہ جتنے بھی اُمتی ہیں اُنہوں نے اوپریومِ ازل میں حضورؐکو دیکھا تھا، دیکھا ہی نہیں تھا بلکہ وہ حضورؐکی صحبت میں تھے۔ اگرہم یہ تعلیم تم کوبتادیں توہروہ شخص جویومِ ازل میں حضورؐکےساتھ تھا وہ کسی بھی زمانے میں پیدا ہوجائے وہ صحابی ہے۔ وہ کسی بھی زمانے میں پیدا ہوجائے وہ اِس دنیا سے جو بہتر جگہ تھی جہاں حضورپاکؐ کی روحِ انور تھی توتمہاری روح اُس وقت حضورپاکؐ کی صحبت میں تھی تواِدھرکی صحبت سے بہترتوروح کی صحبت ہے۔ ہم توکہتے ہیں کہ پوری اُمتِ محمدؐ صحابیِ رسول ہے۔ اگروہ صحابی رسول نہیں ہے تو اُمتی ہی نہیں ہے کیونکہ اُمتی ہے ہی وہ جو اُدھرحضورؐکی صحبت میں تھا۔ جو وہاں صحبت میں نہیں تھا وہ ادھربھی نہیں ہے اور نہ ہی بعد میں ہوگا۔

عالمِ ارواح میں کیا ابھی بھی کوئی اُمتی روح ہے؟

جوموسٰیؑ کی اُمت تھی جب اُن کی تعداد پوری ہوئی تواُن میں بھی ولایت ختم کردی۔ ولایت کی ضرورت اس لئے پڑی کہ اگراُمت کی تعداد دس ہزار تھی اور نبی کا وقت پورا ہوگیا اورنبی کا وصال ہوگیا تواب تین ہزاراُمتی نبی نے بنا لئے لیکن سات ہزاراُمت کی روحیں باقی ہیں تواُس کیلئے ولیوں کو بھیجا کہ تم علمِ باطن کے ذریعے باقی روحوں کوبھی اُمتی بناوٴ۔ پھرکوئی ولی آیا، دوچارسواُمتی اُس نے بنائے اوراُس کے بعد ایک ولی آیا توپانچ چھے سواُمتی اُس نے بنائے اوراسطرح ولایت چلتی گئی۔ جب وہاں سب اُمتیوں کی روحیں نوازی گئیں اور اب اوپر خالی ہوگیا تواُس مذہب میں ولایت ختم ہوگئی کیونکہ اب اوپر روحیں ہی نہیں رہی تو ولی وہابیوں کی طرح نہیں ہیں کہ ہرکسی کو کلمہ پڑھاتے رہیں کیونکہ اللہ کے ہرکام کا مقصد ہوتا ہے۔ جب اللہ نے دیکھا کہ زمانے میں صرف ایک ہی ولی کی ضرورت ہے اورولی دوچارآگئے ہیں تواُس نے کچھ ایسا کیا کہ ایک کوحالتِ سہو میں رکھا اور باقیوں کو مجذوبی میں ڈال دیا کہ تم جنگل میں بیٹھے رہو۔ کچھ توایسے تھے کہ جوخود ہی چاہتے تھے کہ اُنہیں مجذوب بنادیں جیسا کہ ایک ولی نے کہا کہ اے اللہ مجھے مجذوب بنادوتواللہ نے کہا کہ کیوں تواُس نےکہا کہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتا تووہ مجذوب ہوگیا۔ ایک وقت میں ایک ہی ڈیوٹی والا ہوتا ہے کیونکہ اُس کی تعداد مقررہے۔ پھراللہ نے زمانے کےساتھ ساتھ چلانا ہے کہ اِس زمانے میں اتنے موٴمنوں کوبھیجوں گا تاکہ کوئی بھی زمانہ موٴمنوں سے خالی نہ رہے۔ اب اوپرحضورؐکی جواُمت تھی وہ ریوڑخالی ہوگیا ہے اوراب کوئی اُمتی نہیں بن سکتا کیونکہ جتنی بھی روحوں کے اوپراسمِ ذات کی تجلی پڑی تھی وہ سب نوازدئیے گئے اوراپنےاپنےمقام کوپہنچ گئے۔ اب عالمِ ارواح میں جومحلہ نشستِ محمدی ہے وہاں اب کوئی روح نہیں ہے۔ اب نہ موسٰیؑ کی روح باقی ہے، نہ عیسٰیؑ کی روح باقی ہے اورکسی کی روح باقی نہیں رہی۔ عالمِ ارواح میں سارے محلے خالی ہوگئے۔ اب جن محلّوں سے جوآدھے تیترآدھےبٹیرآرہے ہیں یہ دنیادارمحلوں سے آرہے ہیں۔ اگرکوئی سیدنا سرکارگوھرشاہی کے کرم میں آگیا اورکسی نے اُن کی خدمت کودی تونوازا جائے گا، نہیں توکوئی بھی مذہب اختیارکرلے بیکارہے کیونکہ وہ سب روحیں توکام میں آگئیں۔

یومِ محشرمیں اُمتیوں کی پہچان کیسے ہوگی؟

اس لئے ایک وقت تھا کہ عیسائیوں میں بھی ولی تھے، یہودیوں میں بھی ولی تھے، ہندووٴں کے اندربھی ولی بھیجے گئے۔اُس کے بعد جب اُمتوں کا کوٹہ پوراہوگیا تواب باری گولے والوں کی آئی ہے۔ اُس نور کے گولے والوں میں سینکڑوں لوگ ایسے ہیں کہ جن کا ذکرچلتا ہے اوراُن کومحسوس ہی نہیں ہوتا جبکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اُن کا ذکرچل رہا ہے۔ اُن کو ذکرمحسوس اس لئے نہیں ہوتا کہ اُن کو اُس گولے کی طلب ہے۔ اُن کو ابھی ذکرِقلب ہی ملا ہے توہم جانتے ہیں کہ اُن کا مقام آگے کا ہے لیکن وہ جو جس ماحول میں رہے ہیں ابھی اُن میں تاب نہیں کہ ہماری اُس خاص بات کو سمجھ جائیں۔ اس لئے ابھی ہم اُن کوبتا نہیں رہے کہ تمہارا ذکرچلتا ہے لیکن اِس میں مزہ اس لئے نہیں آرہا کہ تمہارا تعلق گولے کی نورکی تجلیوں سے ہے۔ آہستہ آہستہ جب بات تمہاری سمجھ میں آئے گی پھرتم کواُس کا فیض دیں گے۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ

یومِ محشرمیں اُمتیوں کی پہچان نور سے ہوگی۔

اگریہ یاودود سے چمک رہا ہے تویہ داوٴدؑ کی اُمت، یاقدوس سے چمک رہا توعیسٰیؑ کی اُمت، یارحمٰن سے چمک رہا ہے توموسٰیؑ کی اُمت اور جو اللہ ھو سے چمک رہے ہیں وہ حضورپاکؐ کی اُمت میں سے ہیں۔ تمہاری شکلوں اورنام کے ہزاروں لوگ ہونگے لیکن تمہاری شکلوں اور ناموں سے پہچان نہیں ہوگی بلکہ جوجس نورسےچمک رہا ہوگا وہ اُسی کی اُمت ہوگا۔ جو بغیرشناخت کے سب سے زیادہ چمک رہے ہونگے یہ امام مہدیؑ کے پیروکارہیں۔ اُن کا کوئی نام نہیں ہوگا لیکن چمک سب سے زیادہ ہوگی۔ نام اس لئے نہیں ہوگا کہ نام تو تب ہوگا جب نام کا نورہوگا۔ تم کواسمِ ذات کا ذکرِقلب اس لئے نہیں دیا تھا کہ تمہاری منزل تھا بلکہ وہ جو منور روح ہے اُس تک پہنچنے کیلئے دیا تھا کیونکہ وہ دل کا ذکرہے لیکن روح کا نہیں ہے۔ دل کواس لئے دیا تاکہ راستہ بنے اورروح تک رسائی ہو۔ جیسا کہ جب سردی ہوتی ہے توکچھ لوگوں نے نیچے ایک بنیان پہنا، پھراُس کےاوپرایک بنیان پہنا، پھراُس کے اوپرایک شرٹ پہنی توکپڑے یا تو سردی سے بچنے کیلئے پہنتے ہیں یا اپنے جسم کو ڈھانپنے یعنی حیاء کیلئے پہنتے ہیں تویہ تین کپڑے اس لئے نہیں پہنے کہ شرٹ کے نیچے والی شرٹ کوسردی لگ رہی ہے بلکہ اصل چیزجسم کوڈھانپنا ہے تاکہ اُس جسم کی جوگرمی ہے وہ جسم میں ہی رہے اس لئے دودوتین تین بنیان یا شرٹیں پہنی ہوئی ہیں۔ اسی طرح اصل چیز روح تک پہنچنا ہے توروح تک پہنچنے کیلئے اب قلب کی شرط یہ ہے کہ اِس کوبیدارکریں۔ اللہ ھو تمہارے قلب کو کھولنے کیلئے دیا ہے تاکہ اِس کوکھول کرروح تک پہنچو۔

اللہ سے دوبارہ تعلق کن کا جڑے گا؟

جب روح تک پہنچ جاوٴگے توپھرآخری زمانے میں اللہ ایک خاص روح کوبھیجےگا اوروہ تم کویاد دلائے گا جیسےآج یاد دلایا ہے کہ کبھی تم نے بھی رب سے محبت کی تھی۔ وہ “کبھی” کون سا وقت تھا کیونکہ وہ اِس دنیا کی بات نہیں ہورہی بلکہ وہ اُدھرکی بات ہورہی ہے کہ کبھی تم نے بھی اُس سے محبت کی تھی۔ وہ رب کا ایک خاص نام عطا کرے گا جودل سےہوتا ہوا روح تک پہنچ جائے گا۔ وہ نام ایک نیا جوش، ایک نیا ولولہ اورایک نئی محبت پیدا کرے گا اورتمہارا رب سے دوبارہ تعلق جڑجائے گا۔ دوبارہ تواُس وقت جڑتا ہے جب پہلے بھی ہو۔ پہلے تمہارا رب سے تعلق اُدھرہی تھا جہاں گولہ پھٹا تھا جس کی زد میں آئے تھے اور وہاں بھی اُسی آبشارمیں نہائے تھے توپھرجب اِدھرآگئے تواِدھربھی اُسی آبشارسےنہا لئے توتمہارا رب سے تعلق دوبارہ جڑجائے گا۔ دوبارہ تبھی جڑتا ہے جب پہلے کٹ گیا ہوتووہ تعلق ایسے کٹا کہ جب تمہاری روح اس دنیا میں آئی تو بے ہوش ہوگئی تورابطہ کٹ گیا۔ پھرجب روح خاص نام کے ذریعے بیدارہوگی توپھرتعلق جڑجائےگا۔

کیا آج بھی کوئی اُمتی بن سکتا ہے؟

یومِ ازل میں اللہ نےسب سے پہلے اپنے اسماءِ الہی کا اظہارکیا توسب سے پہلے اُس نے انبیائے کرام پراظہارکیا۔ جب اسماءِ الہی کوسامنے رکھا تووہ اُن کے اندرگُھس گئے۔ جب گُھس گئے توپھرقطار لگ گئی جیسے عیسٰیؑ (یاقدوس)، موسٰیؑ (یارحمٰن) اورحضورپاکؐ (اللہ ھو) تواب ایک ایک اسم کا اظہار ایک ایک نبی پرہوا تواُس اظہارکا سارا نوراُس نبی میں چلا گیا۔ پھراُس کےبعد اُس ایک اسم کا اُن ہزاروں روحوں پراظہارہوا تووہ پوری اُمت میں بٹ گیا۔ جوپوری اُمت میں نوردیا وہ سارا کا سارا اجتماعی طورپراُس نبی میں بھی ہے جو پوری اُمت میں نورہے توکوئی نبی کےبرابراس لئے نہیں ہوسکتا کیونکہ اُس اکیلے پورے اِسم کا اظہار اُس نبی کے سامنے اکیلےہوا ہے۔ اُس کے بعد جو روحیں اُن کیلئے منتخب ہونے والی ہیں تواُس ایک اِسم کا اظہار سب کیلئے ہوا ہے۔ پھراِن نبیوں کو کھڑا کیا اورجوجواُس نام کی زد میں آیا وہ اُس کا اُمتی بنتا گیا۔ وہیں سے محلے جُدا جُدا ہوگئے۔ اب فرض کیا کہ محمد الرسول اللہ کے اردگرد ساری روحیں اکٹھی ہوگئیں جن کے اوپراسمِ ذات کا اظہار ہوا تھا تواب حضورؐنے اپنے زمانے کےحساب سے کچھ روحوں کے اپنے ساتھ اردگرد رکھا اور تخمینہ لگایا کہ میرے اس 23 سالوں میں کتنی روحیں آئیں گی۔ فرض کیا کہ حضورپاکؐ کی جواُمت تھی وہ ایک ہزارروحوں پرمبنی تھی توحضورپاکؐ نےاُن میں سے پچس لے لیں کہ یہ اُن کی زمانے میں آئیں گی۔ باقی 975 روحوں کیلئے جودوسری صف میں ولی کھڑے ہوئے تھے اُن کوبلایا تواُن کے اوپربھی اُسی اسمِ ذات کا اظہارکیا گیا۔ پھراُن کوبلایا جیسا کہ حسن بصریؓ کے ساتھ کچھ روحیں لگا دیں، مولا علیؓ کے ساتھ کچھ روحیں لگادیں اور غوثِ اعظم کے ساتھ کچھ روحیں لگادیں توجو روحیں مولا علی کے ساتھ لگائیں اُن میں خودبخود مولا علی کی محبت آگئی کیونکہ وہ مولا علی کے ساتھ رہتی تھی۔ انصاف کرواوراِس علم کودیکو، یہ حق ہے۔ جوروحیں مولاعلی کی صحبت میں تھی اُن میں خود بخود مولاعلی کا رنگ چڑھ گیا۔ اُنہی کیلئے حدیث میں آیا ہے کہ

مَن کُنتُ مَولَاہُ فُعَلِی مَولَاہُ
مشکوة شریف – جلد پنجم – حضرت علی بن ابی طالب حدیث 719
ترجمہ: جس کا میں مولا اُس کا علی مولا۔

یہ سب کیلئے نہیں کہا گیا۔ پھرجن کوغوثِ اعظمؓ کےساتھ یومِ ازل میں لگایا تھا اُن پرغوث پاک کا رنگ چڑھے گا، مولا علی کا نہیں چڑھے گا۔ اب آپ کہیں کہ سب میں ایک ہی جیسا رنگ ہوتوایسا کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ جن کویومِ ازل میں غوث پاک کے ساتھ لگایا تھا اُس کے اوپرغوث پاکؓ کا رنگ ہوگا۔ جس کواوپرسلطان حق باھوکےساتھ لگایا ہوگا اُس میں باھوکا رنگ ہوگا اور وہ باھوکا ذکر زیادہ کرے گا اورغوث پاک اور مولا علی کا کم کرےگا۔ جنھوں نے محمدالرسول اللہ کواپنے ساتھ لگایا اُن میں محمدؐ کا رنگ زیادہ ہوگا۔ اس طرح یہاں پراولیاء کی بھی تقسیم ہوگئی اور تخمینہ لگ گیا کہ اتنے بندے ہیں اوراتنے ولی چاہئیے تواگراُن کی اُمت میں دوہزارولی بن جاتے ہیں تواُس کے اندر سے پانچ سو کو ڈیوٹی پرلگانا ہے اورپندرہ سوکوجنگلوں میں رکھویا مجذوب بناوٴ۔ فرض کرلیا کہ اب حضورؐ نے تخمینہ پہلے ہی لگالیا کیونکہ جب حضورؐنے چودہ صدیوں تک کا حال بیان فرمایا ہے تو چودہ صدیوں میں کتنے موٴمن ہونگے اورکسکے ذریعے فیضیاب ہونگے اِسکا اُن کونہیں پتہ ہوگا! اُن کوسب پتہ ہوگا کہ یہاں تک آکراُن کی اُمت فارغ ہوجائے گی تواُس کے بعد ولایت کی ضرورت نہیں لہذا ولایت ختم ہوگئی جب وہ اُمت پوری ہوگئی۔ جب ولایت ختم ہوگئی تواُمتیں ختم ہوچکی ہیں۔ پھرامام مہدیؑ تشریف فرما ہوگئے کیونکہ اُمتیں توختم ہوگئیں اوراب کوئی اُمتی نہیں بنے گا، نہ کوئی آدمؑ کا اُمتی بن سکتا، نہ ابراہیم کا اُمتی بن سکتا، نہ عیسٰیؑ کا اُمتی بن سکتا اورنہ حضورؐکا اُمتی بن سکتا کیونکہ اُمتوں کا اعداد پورا ہوگیا۔ پھراللہ نے فیصلہ کرلیا کہ اب کوئی نبی اوررسول نہیں آئے گا۔ جب اُمتیوں کا اعداد پورا ہوگیا تواب نہ کوئی ولی آئے گا۔ لیکن پھراب امام مہدی کوکیوں بھیج رہے ہیں کیونکہ اب وہ آئیں گے جوگولے کی زد والے تھے۔ اس لئے سیدنا گوھرشاہی نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ

جورب کے عشق اور وصال کیلئے بے چین ہیں، یہ تعلیم اُن کیلئے ہے۔ جنت کے متلاشیوں کیلئے یہ تعلیم اورراستہ نہیں ہے۔

اُمتوں نے توجنت میں جانا ہے لیکن یہ توگولے والے ہیں، جنتوں والے نہیں ہیں۔

بیت المامور کا باطنی منظر:

اگرآپ یہاں سے بیت المامورکا نظارہ کریں تویہ نظرآتا ہے کہ محمدالرسول اللہ کا نام جامنی رنگ میں چمک رہا ہے، پھریہ روحوں کے سفید نکتے نظرآئیں گے کہ یہ محمد الرسول اللہ کی ذات کا تسبیح کے دانوں کی طرح طواف کررہے ہیں، کوئی غوث پاکؓ کی قمیض سے جڑا ہوا ہے، کوئی مولا علی کی قمیض سے اور کوئی خواجہ صاحب کی قمیض سے جڑا ہوا ہے اورپیچھے پیچھےگھوم رہے ہیں۔ جب یہ نظارہ تم دیکھوگے توتم کوحقیقت پتہ چلےگی۔ بیت المامورمیں انبیاء کا طواف ہوتا ہے تواگر محمد الرسول اللہ کی اُمت ہے تومحمد الرسول اللہ کا طواف ہورہا ہے۔ اگرکعبہ بھی ہواور محمدالرسول اللہ کی ذات بھی ہوتوتم محمد الرسول اللہ کی ذات کوچھوڑکرکعبےکا طواف کروتوتمہاری زندگی پر لعنت۔ محمد الرسول اللہ کی ذات توکعبے کی بھی کعبہ ذات ہے تواُن سے بڑا کعبہ کون ہوگا! بیت المامور سب کیلئے برابر نہیں ہے کیونکہ ہرآدمی کا وہاں مختلف مقناطیس ہے توجوکسی بھی نبی کے دائرے میں شامل ہے یعنی جودائرہٴِ حُب میں شامل ہے تواُسی کا وہاں کام ہے۔ اسی دائرے کیلئے ایک شاعرنےکہا تھا کہ
نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہرسورقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
خدا خود میرِمجلس بود اندرلامکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

اس شعر کی تشریح یہ ہے کہ نمی دانم کہ مجھے نہیں پتہ تھا کونسا مقام تھا اورآدھی رات کا وقت تھا۔ شب جائے کا مطلب ہے کہ آدھی رات گزگئی تھی۔ من بودم کا مطلب ہے کہ میں بھی وہاں تھا۔ جب مرغی کےاوپرچھُری پھیرتے ہیں اورآدھی گردن کٹ جاتی ہے تووہ پھڑپھڑاتی ہے تواُس کورقصِ بسمل کہتے ہیں۔ بسمل کا مطلب جب زبح کرنے کیلئے بسم اللہ پڑھتے ہیں تو بسم اللہ کے وقت جب وہ تڑپتی ہے تواُس تڑپ میں ہر آدمی مبتلا تھا۔ ہرکوئی رقصِ بسمل کررہا تھا۔ اُس محفل میں ہرشخص جیسے مرغی تڑپتی ہے اسطرح وہ تڑپ رہا تھا۔ اور کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ خدا اُس کا خود صدرِمجلس تھا۔ وہ رقصِ مسمل کررہے تھے اورصدارت خدا کی تھی۔ اگریہ سارے مبتدی رقصِ مسمل میں تھے توخدا کیا کررہا تھا! خدا بھی مصروفِ رقص ہوگا اور وہ شمع جس کے گردطواف ہورہا تھا وہ محمدؐ کی ذات تھی۔ پروانوں اور دیوانوں کی طرح محمدؐ کی ذات کے اطراف میں لوگ طواف کررہے تھے اوراُن طواف کرنے والوں کا صدرخود خدا تھا۔ اب یہ شمع جل رہی ہے جس کا خود قرآن نے ذکرکیا ہے کہ

الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ
سورة النورآیت نمبر35

چمنی کے اندر چراغ جل رہا ہے اور یہ چراغ، چراغِ مصطفوی ہے۔ یہ چراغ مصطفی کے عشق کا ہے اور روحیں اس کے اطراف میں دیوانہ وارمحوِرقص ہیں اوراسطرح تڑپ رہے ہیں جسطرح مرغی کی آدھی گردن کٹنے پرتڑپتی ہے۔

راہِ سلوک پر کیسے گامزن ہوسکتے ہیں؟

کرّہٴِ عشق اللہ کے وجود کا ہی نام ہے۔ بائبل میں بھی یہی لکھا ہواہےکہ رب عشق ہے اورعشق رب ہے۔ اللہ اورمحمدؐ ایسے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ سکہ پر(Head) اور (Tail) ہوتا ہے لیکن وہ سکہ ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کہو یا محمدؐ کہو سکہ ایک ہی ہے لیکن دو رُخ ہیں۔ جن کا تعلق نہیں ہوتا وہ Tail کہتے ہیں اور Head کوزیادہ عزت دیتے ہیں۔ جن کوپتہ ہے کہ یہ سکہ ہے اس کے یہ دونوں رُخ ہیں تووہ کہتے ہیں کہ اللہ اورمحمدؐ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے سارے اچھے اچھے گُڑنکال کرایک اچھا کرداربنا کرسامنےرکھ دیا۔ یہ اللہ کی خوبصورت ترین تصویرہےجس کا نام محمدؐ ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ محمدؐ رب ہیں بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا جو خوبصورت ترین رُخ ہے اگروہ دیکھنا ہے تومحمدؐ کودیکھو۔ محمدؐ حسنِ خدا کا چُھپ جانا ہے تاکہ کوئی اصل حقیقت پا نہ لے۔ اس لئے کہا کہ آپ محمدؐ ہیں لیکن وہ خود ہی ہیں۔ جس نے محمدؐ اوراللہ میں فرق رکھا تووہ کافراورمرتد ہے۔ سکےّ کوآپ نہ Head کہہ سکتے ہیں اور نہ Tail بلکہ یہ کہیں گے کہ یہ ایک سکہّ ہے جس کا ایک رُخ Head ہے اور دوسرا رُخ Tail ہے، اسطرح اللہ کی تشریح یہ ہے کہ اللہ ایک ذات ہے جس کا ایک رُخ معبود ہے اوردوسرا رُخ محمدؐ ہیں۔ اس لئے حضورؐ نے فرمایا کہ

مَنْ رآنی فَقَد رَأَی الحَقَّ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا اُس نے اللہ کے سوا کسی اورکونہیں دیکھا۔

جب بابا بلھے شاہ کویہ بات سمجھ آئی توانہوں نے بھی کہا کہ
اے عشق بلھے شاہ اوکھا اولا
صورت ہے صنم دی عرشِ معلیٰ
یاربنا کوئی اللہ ہے پویں رب نال جھگڑا پیجاوے

پھرایک دفعہ یہ بھی کہا کہ
کھا کباب پی شراب پربال ہڈاں دی اگ
چوری کرپربھن گھررب دا اُس ٹھگاں دے ٹھگ نوٹھگ
شرع شریعت دے محل اُچیرے نیوی فقردی موری ھو
عالم فاضل لنگن نہیں دیندے جولنگیا سوچوری ھو

اس کا مطلب ہے کہ جوبھی شراب اورکباب کا متلاشی ہے ہماری طرف سے اُس کواجازت ہوجائے گی لیکن شرط ایک ہی ہے کہ اپنی ہڈیوں میں آگ لگا کر دکھا۔ چوری کرو اور جو رب کا گھر ہے اِس کو توڑتووہ رب کا گھرتمہارا دل ہے جس کا تالا توڑو۔ تم بہت کہتے ہوکہ میں یہ ہوں اور وہ ہوں لیکن دل کے راستے داخل ہوتوتمہیں برابرمیں بیٹھا نظرآجائے گا۔ اگرتم اس راستے سے نہیں گئے تو وہ تمہیں کبھی بھی نظرنہیں آئے گا۔ یہ راب کا گھرتمہارا دل ہے جس کے تالے توڑواورچوری چوری اندرداخل ہوجاوٴ۔
پھرلعل شہبازقلندرنےکہاہےکہ
ایا عثمان مروندی چرا مستی درایں عالم
اے لعل شہباز قلندر یہ ہر وقت جوآپ کیف اور مستی میں رہتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے اوریہ مقامِ مستی کیسے حاصل ہوا تو پھر فرمایا کہ
کہ جزیا ھو ویا من ھو دگرچیزی نمی دانم
ذاتِ الہی اورذکرِ یاھو کے علاوہ میں کچھ جانتا ہی نہیں، اسی لئے میں فنا ہوگیا ہوں۔
اسی تعلیم کوآسان بنا کرہمارے لئے سرکارگوھرشاہی نے رکھ دیا ہے۔ ایک دفعہ سرکارنےفرمایا کہ ہم چوراورڈاکووٴں کوساتھ لگائیں گے توہم نےپوچھا کہ چوراورڈاکوکون ہونگے توفرمایا کہ وہ بہادر ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد پتہ چلا کہ چوراورڈاکو وہ ہوگا جوگوھرشاہی کی محبت میں جائے گا اوراُس محبت سے دل کا تالا ٹوٹ جائے گا تووہ چورہوگا۔ جوبھی اِس دل کےاندرگھرکرگیا وہ چورہے۔ جو بھی نظرِگوھرشاہی میں آیا اوردل کا تالا ٹوٹ گیا اوردل کا دروازہ کھل گیا تووہی چورہوگیا۔ جس کو بھی راستہ مل گیا اُس نے یہی کہا کہ
نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبا کھڑکایا
بلھے نوں ملیا مرشد جوایویں جا بخشایا

سلطان حق باھو نے فرمایا کہ
اساں مرشد پھڑیا کامل باھو
آپے لاسی سارا ھو

ساری کی ساری چیزمرشد کے اوپرسےشروع ہوتی ہے اورمرشد کے اوپرہی ختم ہوجاتی ہے۔ مرشد کی ذات سے شروع اور مرشد کی ذات پرختم ہی راہِ سلوک ہے۔ مرشد سے ہٹ کرراہِ سلوک نہیں ہے۔
راہ دے راہ دے ہرکوئی آکھے میں وی آکھاں راہ دے
بن گوھردے تے نوں راہ نہیں لبنی رُل مرسیں وِچ راہ دے

ہرکوئی کہتا ہے کہ مجھے ہدایت دے۔ جس طرح سورة الفاتحہ میں کہتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہرکوئی آکھے۔ میں وی آکھاں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۔ پربِن مرشد تمہیں راستہ نہیں ملنا یعنی بغیرمرشد کے تمہیں ہدایت نہیں ملے گی۔ رُل مرسیں وِچ راہ دے یعنی اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پڑھتے پڑھتے ہی تم مرجاوٴگے لیکن راستہ نہیں ملے گا۔ راستہ اُن کوہی ملے گا جن کومرشدِ کامل مل گیا۔ اب جومرشد دنیا میں آیا ہے اِس کومرشد کہنا راہِ طریقت کی توہین، لفظ مرشد کی توہین، رب کی توہین اور رب کےحبیب کی توہین ہے کیونکہ یہ مرشد نہیں ہے یہ رُشد ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی سیدی یونس الگوھر سے 16 جنوری 2020 کو یو ٹیوب لائیو چینل الرٰ ٹی وی پر کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس