کیٹیگری: مضامین

عمل صالح فی نفسہی کیا ہے اور صالحین کس کو کہا جاتا ہے :

دل میں اللہ کا اسم داخل ہو جائے اورہر وقت دل کی دھڑکنیں اللہ کا نام پکارنا شروع کر دیں، یہ اللہ کی ایک بہت بڑی عطا ہے ۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں گزرا آج تک جس نے اپنی محنت اور اپنے بل بوتے پر اپنے دل کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگا لیا ہو ، نہ کوئی نبی ایسا گزرا ہے اور نہ کوئی ولی ایسا گزرا ہے۔ یہ تو اللہ کا رحم و کرم اور اسکی عنایت و فضل ہوتا ہےاور جس کے اوپر یہ فضل ہوتا ہے اس کے ساتھ اللہ یہ معاملہ فرما دیتا ہے ۔ اس کے لئے اللہ نے ایک محکمہ بنایا ہوا ہے جس کے اندر موکلات اور جبرائیل ہیں اور یہ اللہ کا وہ اسٹاف ہے جو عرش الہی پر اللہ کے کام سر انجام دیتا ہے اور ایک اسٹاف اللہ کا زمین پر ہے جن کو اللہ نے اپنی دوستی سے نوازا ہے اور اُن کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے ، حرف عام میں اُن کو صدیقین ، صالحین ، فقراء و اولیاء کے القابات دئیے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پرجو جس کام میں ماہر ہوتے ہیں وہی اُن کا لقب بن جاتا ہے جس طرح کچھ لوگ ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن جاتے ہیں ، کچھ لوگ خون کو پڑھنے کی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تو وہ پیتھالوجسٹ کہلاتے ہیں ۔کچھ لوگ دل کے امراض کا علاج کرتے ہیں تو وہ اس میں ماہر ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح یہ روحانیت کا راستہ ہے جس میں کچھ صالحین ہوتے ہیں ، صالحین وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی روحیں بیدار ہو کر وہ عبادات کرنا شروع کر دیں جو کہ اُن کا جسم کرتا ہے ۔
عمل صالح وہ عمل ہے جس میں آپ کی روح شامل ہو ، پاکستان میں لوگ اچھے کام کو عمل صالح کہتے ہیں اور عمل صالح کی اللہ کی نظر میں بڑی قدروقیمت ہے ، اللہ اس کا بڑا اجر دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک آدمی غریبوں کو کھانا کھلا رہا ہے اور اس کی اخبارات میں تصویریں شائع ہو رہی ہیں لیکن اگر وہ بندہ اُسی وقت غریبوں کو کھانا کھلائے جب اخباروں میں تصویریں چھپیں تو کیا اس کو عمل صالح کہیں گے ؟ جو دکھاوے کے لئے اچھا کام کرے تو پھر وہ اچھا کام تو نہیں ہوا اور نہ ہی وہ مقبول بارگاہ ہو گا ، اسی لئے آپ ہر کام کو عمل صالح نہیں کہہ سکتے۔ جو جسم کے اعمال ہیں اور اچھے اعمال ہیں اُن کو “حسنات “کہتے ہیں اور وہ اعمال جن میں آپ کا دل اور روح بھی شامل ہو جائے پھر وہ “عمل صالح ہے” تو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو صالحین کہا جاتا ہے ، اگر وہ نماز پڑھ رہے ہیں تو اُ ن کی روح اور قلب کے جثےبھی جسم سے باہر نکل کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ جب روحیں جوان ہو کر جسم سے باہر نکل جاتی ہے تو پھر بھلے جسم پڑا سوتا رہے روحیں وہ کام کر رہی ہیں یہ ہے اصل آزادی ۔آزادی کس سے ؟ تم ابھی اپنے وجود میں محبوث یا قید ہو ، یہ جسم ایک قید خانہ ہے ۔ نبی کریمؐ نے بھی فرمایا تھا کہ ” یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے “۔ تو وہ مومن کون ہوا وہ انسان کی روح ہے جس کے لئے یہ جسم ایک قید خانہ بنا ہوا ہے ، جب یہ ساری روحیں تمھارے جسم سے نکل گئیں تو اب کیا موت آئے گی۔ جو کام جسم نے کرنے ہیں وہی کام روحیں بھی کر رہی ہیں ، ایک روح یہاں موجود ہے تو دوسری خانہ کعبہ میں بیٹھی ہوئی ہے ۔ مجدد الف ثانی کے پاس کچھ لو گ آئے اور کہا کہ حضرت ہم نے فلاں دن آپ کو خانہ کعبہ میں دیکھا ، مجدد صاحب نے فرمایا میں تو کہیں نہیں گیا میں تو یہیں تھا ۔ کچھ عرصے بعد ایک اور گروپ آیا اور اس نے کہا کہ ہم نے آپ کو مدینے پاک میں دیکھا ہے، مجدد صاحب نے کہا میں تو نہیں گیا میں تو یہیں موجود تھا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم قسم اُٹھانے کے لئے تیار ہیں کہ ہم نے آپ کو ان مقامات پر دیکھا ہے ، پھر لوگوں نے پوچھا کہ اگر آپ نہیں گئے تو پھر وہ کون تھے ؟ پھر مجدد صاحب نے بتایا کہ وہ میرا اندر تھا ، اندر وہی روحیں ہیں جو بیدار ہو گئیں ہیں اور ہر جگہ جار ہی ہیں ، وہ روحیں جسم کی پھر محتاج نہیں ہیں ، یہ خاص تعلیم ہے ۔ بہت سے بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ
خاصاں دی گل عماں آگے نہیں مناسب کرنی
میٹھی کھیر پکا کر محمد بخشا کتیا ں آگے دھرنی

جب خاص باتیں عام لوگوں کے سامنے کرتے ہیں تو پھر وہ اس علم کی مخالفت کرتے ہیں ،گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں کیونکہ یہ خاص باتیں عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں ، خا ص لوگوں کی باتیں عام لوگوں میں کرنا ایسے ہی ہے جیسے میٹھی کھیر بنا کر کتے کو آگے رکھ دیں اور پھر یہ توقع رکھیں کہ اس کی طرف سے جواب آئے گا۔یہ خاص باتیں عام آدمی کی سمجھ میں اس لیے نہیں آتیں کیونکہ یہ ان کے مقدر میں نہیں ہے، اب اللہ ہر آدمی کو تو اپنا محبوب نہیں بنائے گا لیکن جس کو وہ محبوب بنانا چاہے گا سب سے پہلے اس کی دھڑکنیں اللہ اللہ میں لگ جائیں گی ، دل کی دھڑکنوں کا اللہ اللہ میں لگنے کا صرف یہ ہی مطلب ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنی دوستی کے لیے چن لیا ہے، اب آہستہ آہستہ انسان کی روحانی ترقی ہوتی جائے گی اور اللہ کے قرب میں اضافہ ہوتا ہی جائے گا۔ جیسے جیسے وقت گذرے گا اور جیسے جیسے خون میں نور شامل ہوتا جائے گا ذہن، قلب اور سمجھ کی طہارت بڑھتی جائے گی ۔

“اس علم کے بارے میں سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا ، شریعت والے کسی کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے اور طریقت والوں کے لیے اللہ فرماتا ہے میری مخلوق کو دیکھ ان کے دیکھنے سے نور لوگوں کے دلوں میں داخل ہو اور اللہ کی ان پر رحمت نازل ہو ۔ تو شریعت اور طریقت والے مختلف ہو گئے نا۔ایک ایسا ہے جو اپنی بخشش کے لیے بے چین ہے اور دوسرا ایسا ہے جس کا گھومنا پھرنا اپنی بخشش کے لیے نہیں ہے وہ لوگوں کو اللہ سے ملا رہا ہے “

ہر آدمی لوگوں کو اللہ سے نہیں ملا سکتا کیونکہ جس کو اللہ تعالی چن لیتا ہے پھر ان کو یہ علم اور طاقت بھی عطا کرتا ہے کہ جس سے وہ لوگوں کو اللہ سے ملا سکتا ہے۔ اللہ کا نام خود بخود دل میں داخل نہیں ہوتا ، جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دل کا اللہ اللہ کرنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے ہم خود بھی کر سکتے ہیں تو وہ کر کے دکھائیں ۔ دل کو اللہ اللہ میں لگانا۔ انسان تو انسان ہے یہ توکسی نبی ، کسی فقیر ، کسی خاص الخاص دوست کے بس کی بات بھی نہیں ہے یہ تو صرف اس وقت ہوتا ہے جب اللہ چاہے، اور جب اللہ چاہتا ہے تب ہی اس کے نبیوں اور اس کے دوستوں کا وسیلہ کام آتا ہے، اللہ نہ چاہے تو سب بے کار اور اللہ چاہ لے تو کسی کو بھی وسیلہ بنا دیتا ہے۔

روحانی سلاسل اور اُن کے فیض کا دائرہ کار:

سیدنا گوھر شاہی نے 1980میں اس خاص علم کی تحریک شروع کی تاکہ ان ازلی ارواح کو تلاش کر سکیں جنہوں نے رب کے سامنے کلمہ پڑھ لیا تھا ، جن ارواح نے رب کے سامنے کلمہ پڑھ لیا تھا ان کو “ازلی مومن” کہتے ہیں ۔ دنیا میں آنے کے بعد ازلی مومنوں کے دلوں میں ہی وہ آگ ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کو رب کا سراغ مل جائے۔یہ ازلی مومن لوگ جب جوان ہوتے ہیں تو اندر وہ آگ تو اللہ کے عشق کی ہوتی ہیں لیکن سمجھ کچھ نہیں ہوتی کیونکہ ان کی روحیں خفتہ ہیں تو کبھی وہ آگ انہیں ڈانسنگ فلور پر لے جاتی ہے کبھی بوتل میں گم کر دیتی ہے لیکن وہ پیاس انہیں رب کے عشق کی ہوتی ہے پھر جب اس بندے کا وقت آتا ہے تو اللہ اس کو کسی ولی مرشد سے ملا دیتا ہے ۔ اللہ کا کوئی کام اتفاقیہ نہیں ہوتا، اللہ بڑا منصوبہ بندی اور تدبیر کرنے والا ہے، اللہ کا ہر کام طے شدہ منصوبہ کے مطابق ہوتا ہے۔سیدنا گوھر شاہی نے کرم فرما دیا کہ اس تعلیم کو عام کیا اور پھر اجازت بھی مرحمت فرمائی ۔بہت سے بزرگ آئے جن کو ہم کہتے ہیں یہ سلسلہ قادریہ سے ہیں ، یہ بزرگ سلسلہ نقشبندیہ سے ہیں ، اور بہت سے بزرگ ایسے بھی ہیں جن کا روحانی شجرہ النصب سلسلہ سہروردیہ سے ملتا ہے اور بہت سے بزرگوں کا شجرہ نصب سلسلہ چشتیہ سے ملتا ہے۔ایک گروہ تو ایسا ہے جو مولی علی کے نعرے لگاتا ہے ہم انہیں اہل تشیع کے نام سے جانتے ہیں ، جنہیں واقعتاً مولی علی کا فیض ہوا ہے اس سلسلہ کا نام سلسلہ چشتیہ ہے۔ ایک تو وہ ہیں جو ظاہری طور پر مولی علی سے نسبت رکھنے والے ہیں لیکن ایک وہ ہیں جو سلسلہ طریقت میں مولی علی سے نسبت رکھنے والے ہیں عام طور پر انہیں چشتیہ خاندان بھی کہا جاتا ہے۔ چشتیہ خاندان کے بزرگوں میں عثمان ہارونی، ان کے مرید خواجہ معین الدین چشتی ، خواجہ بختیار الدین کاکی، بابا فرید شکر گنج شامل ہیں۔ویسے تو روحانیت میں کہا جاتا ہے کہ سلسلہ قادریہ سب سے افضل سلسلہ ہے اور ہماری ابتدائی تعلیم بھی سلسلہ قادریہ ہی ہے لیکن ذاتی طور پر ہمیں چشتیہ خاندان بڑے اچھے لگتے ہیں ، قادریہ اور نقشبندیہ بزرگ بڑے خشک مزاج رہے ہیں اور سلسلہ چشتیہ خاندان کے بزرگ جیسے خواجہ معین الدین چشتی، امیر خسرو، نظام الدین اولیاء، بابا فرید، میرا سلسلہ نہیں ہے لیکن مجھے ان بزرگوں کے روحانی مزاج کی وجہ سے ان سے خاص رغبت ہے۔ ان کا روحانی ڈھب بڑا انوکھا بڑا رومانٹک ہے اور دوسرا سلسلہ جو ہمارا ابتدائی سلسلہ ہوا وہ سلسلہ قادریہ ہے ، قادریہ سلسلے میں فیض شیخ عبد القادر جیلانی سے آیا ہے اور نقشبندیہ سلسلے میں سیدنا ابو بکر صدیق سے فیض آیا اور سہروردیہ سلسلہ ہاف کاسٹ کی مانند ہے ، چشتیہ اور نقشبندیہ بزرگ کے خاندانوں کے فیض سے مل کر ایک نیا سلسلہ سہروردیہ بنا،جیسے شہاب الدین سہروردی تھے اور یہ تمام سلسلے نبی کریم کے سینہ مبارک سے جا کر ملتے ہیں ۔پاکستان میں آخری غوث الزماں جو ہوئے وہ آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر محمد اسحاق تھے پھر انہوں نے آرمی چھوڑ دی اور کوہاٹ میں خانقاہ بنا لی وہ نقشبندی سلسلے سے تھے۔
سلطان حق باھو کا سلسلہ قادریہ ہے، ان تمام روحانی سلسلوں میں سب سے بڑی فضیلت قادریہ سلسلے کو حاصل ہوئی کیونکہ نبی کریم نے اسم ذات اللہ ھو کی کنجی کسی اور کو نہیں دی وہ کنجی صرف شیخ عبد القادر جیلانی کو دی اس لیے انکا مقام ولیوں میں سب سے بڑا ہوا، چشتیہ ،نقشبندیہ ،سہروردیہ سلسلہ ہو کا کوئی بھی ولی ہو ، یا دیدار الہی والا ولی ہی کیوں نہ ہو اس کو بھی ذکر قلب چلانے کی اجازت اللہ کی طرف سے نہیں ہوئی۔ذکر قلب کی اجازت کے لیے اللہ نے ایک ہستی کو مقرر فرما دیا جن کا نام” شیخ عبد القادر جیلانی” ہے اور انہوں نے پھر آگے اس پاور کو ڈیلیکیٹ کیا۔ یعنی سیدنا گوھر شاہی کی آمد سے پہلے ایسا ممکنات میں سے نہیں تھا کہ براہ راست کسی کا قلب جاری ہو جائے۔

ذکر قلب جاری ہونے سے پہلے کی شرائط:

1۔ ذکر قلب کی اجازت سے پہلے نفس کو پاک کرنے کے لیے چشتیہ ،نقشنبدیہ، سہروردیہ سلسلوں میں سے کوئی روحانی سلسلہ اپنانا پڑتا تھا ۔
2۔ سالک بارہ سال کے لیے جنگلوں میں جاتے اور لطیفہ نفس کی پاکی کے لیے سخت ترین چلہ کشی کے مراحل سے گزرتے تھے۔
3۔ حرام حلال کا خیال رکھنا پڑتا تھا، اگر ایک لقمہ بھی حرام کا چلا گیا تو بیعت ٹوٹ جاتی۔
4۔ شریعت کی پابندی کی شدت اتنی تھی کہ اگر ایک گالی بھی منہ سے نکلی تو ایک تو روحانیت سے خارج اوپر سے موئکلات سے پٹائی ہوتی تھی۔
5۔ جب نفس پاک ہوجاتا تو ان سلسلوں میں سے کوئی بزرگ خود غوث پاک سے عرض کرتا کہ اب آپ اس کو ذکر قلب کے لیے قبول فرمائیں پھرغوث اعظم کی اجازت سے وہ ولی ذکر قلب کی تعلیم دیتے تو اسم اللہ ھو کی وہ کنجی صرف شیخ عبد القادر جیلانی کے پاس تھی۔

اسم ذات اللہ کی کنجی گوھر شاہی کے پاس ہے:

جس دن سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا، جب ہم لال باغ کے جنگل میں تھے تو ایک دن امیر کلال جو کہ غوث اعظم کے پوتے تھے انہوں نے ا کر غوث پاک کا سلام دیا اور اسم اللہ ھو کی کنجی بھی دے دی تو پھر مجھے یہ خیال آیا کہ اسم ذات کی کنجی تو غوث پاک نے امام مہدی کو دینی تھی ، یہ سرکار کے حوالے کیوں ہوئی؟ پھر یہ خیال آیا کہ سرکار امام مہدی ہونگے تب ہی حوالے کی۔
اگر کسی تاکے کی چابی صرف میرے پاس ہو تو کوئی اور تالا نہیں کھول سکتا، جب تک یہ چابی غوث پاک کے پاس تھی تو قادری ،چشتی، سہروردی، نقشبندی ، یہ چاروں سلسلے اسم ذات بانٹتے تھے کیونکہ غوث پاک کی طرف سے ان کو اجازت تھی۔جب اسم ذات اللہ کی چابی غوث پاک سے امام مہدی کو منتقل ہو گئی تو اب یہ چاروں سلسلے اسم اللہ نہیں بانٹ سکتے۔ہے کوئی نقشبندی جو اسم اللہ کی چابی لگا کر دل کو جاری کر سکے؟ہے کو سہروردی بزرگ جو ایسا کردے؟ہے کوئی قادری بزرگ جو ایسا کر دے؟ہے کوئی چشتی بزرگ جو ایسا کر دے؟اگر کوئی ایسا کر کے دکھا دے تو پہلے میں یہ کہوں گا مجھے غلط فہمی ہو گئی کہ میں نے سرکار کو امام مہدی مانا، پھر کہوں گا میری گردن اتار دیں ۔آپ کسی بھی سلسلہ میں چلے جائیں کوئی بھی اب دل پر اسم اللہ نقش نہیں کر سکتا کیونکہ اسم اللہ کی کنجی اب غوث اعظم کے پاس نہیں ، گوھر شاہی کے پاس ہے۔اس دور میں کلب جانے والوں کے دل بنا کسی شرط بنا کسی چلے کے اللہ اللہ میں لگ رہے ہیں ،اگر یہ کنجی ابھی تک غوث اعظم کے پاس ہوتی تو وہ کہتے اتنے بڑے شیطانوں کو اسم ذات کیسے دے سکتے ہیں۔ اگر کسی کا دل اس دور میں اسم اللہ سے جاری ہوا ہے تو فقط سیدنا گوھر شاہی کی نظر سے جاری ہوا ہے۔غوث پاک کا معیار تو یہ تھا کہ پہلے بارہ سال کی چلہ کشی کرواتے نفس پاک کرتے اس کے بعد بھی ذکر قلب جاری ہونے میں بہت سے مراحل تھے۔غوث پاک کی کتاب میں لکھا ہے کہ میں اس کو بیعت نہیں کرتا جس کے جسم میں حرام کا ایک لقمہ بھی ہو، اور آپ اپنا حال دیکھ لیں ؟ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کے جسم میں حرام تو حرام یہ ہی بتا دیں حلال لقمے کتنے ہیں ؟ صوفی کے لیے رزق حلال خطرناک حد تک ضروری کیوں ہے؟اس لیے کہ خون میں ہماری روحیں تیر رہی ہیں، حرام خوری کی وجہ سے اگر ہمارا خون ہی ناپاک ہو گا تو پھر کامیابی نہیں ہو سکتی۔

وقتی اور دائمی سکون کیا ہے؟

ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے کہ جن کا صرف ایک ہی لطیفہ بیدار ہوا، کچھ ایسے بھی گزرے جن کے قلب اللہ ھو کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی یا اللہ کے ذکر میں لگی ہو۔ دل اللہ ھو اور روح یا اللہ کر رہی ہے، پھر تیسرا لطیفہ سری یا حی یا قیوم کر رہا ہو۔ کیسا لگتا ہو گا کہ جب سینے سے پانچوں روحیں ایک ہی وقت میں الگ الگ ذکر کر رہی ہوں ، کتنا نور بن رہا ہوگا، کیا اس انسان کا دھیان کہیں اور جائے گا؟ انسان کے لطیفہ نفس اور زبان دونوں کا ذکر ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، اصل میں لطیفہ نفس کو مسلمان کرنا ہوتا ہے، سب سے زیادہ دشوار علم بھی لطیفہ نفس کا ہی ہے، نفس پاک ہو گیا تو باقی صرف خانہ پوری ہے۔ اللہ نےکہا وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۔۔۔ سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا، ہم روحانیت کے لیے تمہیں جنگل میں نہیں بھیجیں گے، اس اللہ کے پیغام کو پھیلاتے رہو ہم اس کو ریاضت میں شمار کریں گے۔سیدنا گوھر شاہی کی اجازت ہے کہ کلب جانے والا وہاں جا کر اس پیغام کی دعوت دے اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ ہم اس کے محافظ ہیں ۔نہ جانے کتنی روحیں ہیں جن کو علم نہیں ہے جو محبت اور عشق کی پیاسی ہیں جن میں تڑپ ہے وہ اس محبت اور عشق کے لطف کو انسانوں میں ڈھونڈ رہی ہیں ، لیکن جب ان کے دل کے تالے کو اسم ذات اللہ کی کنجی لگے گی اور اللہ ھو ان کے دلوں میں جائے گا تو ایسا سکون آ جاتا ہے کہ وہ کہنے کگتا ہے یہ ہے وہ سکون جو میں ڈھونڈ رہا تو یہ سکون مجھے کہیں ملتا نہیں تھا۔سکون کیا ہے؟
اللہ تعالی نے تین چیزوں میں سکون رکھا ہے ، ایک سکون وقتی اور ایک دائمی سکون ہے۔ ایک سکون انعام کے طور پر ملے گا اور دوسرا سکون حرام ہے۔سکون اللہ کے ذکر میں ہے اگر وہ دل میں ہو اور ایک سکون حوروں میں ہے۔ شہوت میں بے قراری اور بے چینی ہوتی ہے لیکن جنت میں حوروں کا ہاتھ ہی پکڑا تو تم سکون میں آ جائو گے ، کوئی شہوت نہیں ہو گی، یہ جو ملاحضرات حوروں کے قصے سناتے ہیں یہ سب بکواس کی باتیں ہیں ۔ اسی طرح اللہ نے عورتوں میں بھی سکون رکھا ہے لیکن اس کے لیےشادی کرنا پڑتی ہے۔ کچھ لوگ اس سکون کو حرام کے ذریعے حاصل کرتے ہیں کچھ حلال طریقے سے حاصل کرتے ہیں لیکن یہ سکون چلے جانے والے ہیں ۔

“جو سکون دل کے نور سے آتا ہے وہ ایسا سکون ہے کہ پیٹ میں غذا ہو نہ ہو، جیب میں پیسہ ہو نہ ہو دل مطمئن ہے۔ تن پر کپڑے نہیں لیکن آسمان کو اشارہ کیا تو بارش برس گئی یہ اللہ کی طاقت ہے جس کا اظہار بندے کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی رحمت ہے جس کا دروازہ اس کے محبوبین سے کھلتا ہے، لیکن یہ ہوتا اس وقت ہے جب اللہ کا قبضہ تمہارے اوپر ہوجائے”

سرکار گوھر شاہی نے کبھی کہا نہیں کہ وہ امام مہدی ہیں ، سب سے بڑی بات جس نے ہمیں قائل کیا کہ سرکار گوھر شاہی ہی امام مہدی ہیں وہ یہ تھی کہ ۔جس کو ذکر قلب دینے کی اجازت ہو جاتی ہے تو اللہ کے یہاں اس کو ولی لکھا جاتا ہے کہ اب وہ ولائت میں چلا گیا جتنے لوگ اللہ سے واصل ہوتے جائیں گے اللہ کی نظروں میں اس ولی کی قدر و منزلت بڑھتی جائے گی۔ اصل بات ہی یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کا اللہ سے تعلق جڑ جائے، نمازوں کی قبولیت کا دارو مدار اللہ سے تعلق جڑنے پر ہے، اللہ سے لینا دینا نہیں تمہارا تو پڑھتے رہو نمازیں ، یہ نکاح جو تم کرتے ہو اس نکاح سے پہلے اس عورت کے ساتھ سو جائو بچہ پیدا کر لو تو کیا معاشرہ آرام سے اس کو گوارا کر لے گا؟ نہیں نا، پہلے تعلق ضروری ہے نا اس کے بعد ہی حقوق آئیں گے ۔ جس سے نکاح ہوتا ہے فکر بھی اسی کی ہوتی ہے کیونکہ تعلق قائم ہو گیا، اسی طرح جب اللہ سے تعلق ہو جاتا ہے پھر ہی اللہ ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ ورنہ تو فٹ پاتھوں پر ادھر ادھر مخلوق بھوکی پھر رہی ہے، کہاں ہے ستر مائوں والی ممتا ؟ کہاں ہے وہ خالق جو مخلوق کا خیال رکھتا ہے؟ پہلے مخلوق ، مخلوق تو بنے ، مخلوق نے خالق سے منہ موڑا ہوا ہے اور شیطانیت اور فتنہ فساد سے اللہ ہی کی مخلوق کو تنگ کرتے ہو، اللہ تمہارا خیال کیسے رکھے گا؟ اللہ سے تعلق جوڑنا پڑے گا ناں، یہ جتنے بھی نبی پیغمبر آئے ان کو اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تم انہیں چومو انہیں پوجو، اللہ نے ان ہستیوں کو اس لیے بھیجا تھا کہ یہ تم کو اللہ سے تعلق جوڑنے کا طریقہ سکھا دیں ۔جیسے ہی تیرا اللہ سے تعلق جڑا اب تجھے وسیلے کی ضرورت نہیں ہے اب تو براہ راست اللہ سے مانگ، کیونکہ اب تیرا تعلق جڑ گیا، اب تو جانے اور تیرا خدا جانے ، تیرے دل میں خیال آیا تو وہ بنا کسی وسیلے کے اللہ تک پہنچ جائے گا۔ کیونکہ اب تیرا دل وسیلہ بن گیا، تیری آواز اب تیرے ذریعے اوپر پہنچے گی۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 28 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس