کیٹیگری: مضامین

میراث مصطفی کیا ہے؟

جس تعلیم کے فروغ کے لئے ہم شب و روز محنت کر رہے ہیں یہ وہ تعلیم ہے کہ جس کو نبی کریم ﷺ نے اپنے تمام اصحاب کے سامنے بیان نہیں فرمایا۔ چند مخصوص صحابۂ کرام کو یہ نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی اُن میں سے ایک ابو ہریرہ بھی ہیں۔ابو ہریرہ بالکل آخر میں اسلام قبول کرنے والے تھے جنھیں چند سال حضور ﷺ کی صحبت کے ملے۔ اور جب حضورﷺ اس دنیا سے رُخصت ہوئے تو اُس کے بعد اکثر ابو ہریرہ مدینے کی گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتے اور لوگوں کو بازاروں میں جا کے یہ کہتے کہ تم یہاں کاروبار میں لگے ہوئے وہاں مسجدِ نبوی میں میراثِ مصطفیٰ ؐ تقسیم ہورہی ہے۔ اشاروں میں انہوں نے اُس علم کا ذکر کیا۔ تو ایک دفعہ انہوں نے یہی کیا بازاروں میں جا کے نعرے لگانے شروع کردئیےکہ تم یہاں اپنے کاروبار میں مست ہو وہاں مسجدِ نبوی میں حضوؐر کی میراث تقسیم ہورہی ہے ۔ تو لوگ گئے اور جا کے واپس آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ تو یہیں کاروبار میں مست ہیں تو کہا تم گئے نہیں انہوں نے کہا جی ہم تو گئے تھے تو وہاں تو کوئی میراث تقسیم نہیں ہورہی تھی۔ تو انہوں نے پوچھا ! اچھا تم نے وہاں جا کے کیا دیکھا ؟ تو لوگوں نے بتایا کہ بس یہ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور وہ زور زور سے ذکرِ الٰہی کر رہے تھے یہ اصحابِ صفہ کی طرف اشارہ تھا ۔ تو آپ نے شدتِ جذبات میں آ کے زور سے نعرہ لگا کے یہ کہا کہ جو لوگ بیٹھ کے ذکر کے حلقے منعقد کر رہے تھے خدا کی قسم وہی تو میراثِ مصطفیٰ ہے۔ اب اشارہ یہ تھا کہ وہ جو دل میں ذکر ہوتا ہے وہ دل کا ذکر کرنا میراثِ مصطفی ہے۔ تو جب اس طرح کے یہ اشارے دینے لگےتو صحابہ کرام نے ان سے پوچھا کہ بھئی تم کو حضورؐ سے کتنی طرح کا علم ملا ہے جو تم اس طرح کے اشارے دیتے ہو! تو انہوں نے کہا کہ مجھے حضورؐ سے دو طرح کا علم ملا ہے ایک تو تم کو بتا دیا ہے ذکر کرنے والا اگر میں دوسرا علم تمہیں بتاؤں تو تم مجھے قتل کردو۔

روحوں اور نفس کا اپنا اپنا مشغلہ اور مزا ہے:

یہ جو دل والا علم ہے یہ علم نہ صرف یہ کہ انسان کو اللہ سے جوڑ دیتا ہے بلکہ اِس علم کے ذریعے انسان کچھ مست بھی ہوجاتا ہے ۔جس طرح اب ہمارے منہ میں زبان ہے زبان کے اوپر ٹیسٹ بڈز ہیں۔ اگر وہ ٹیسٹ بڈز ختم ہوجائیں تو آپ کی زبان کو کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوگا۔اسی طریقے سے یہ جو ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے سماوی ارواح اور لطیفہ نفس رکھا ہے،ان روحوں اور نفس کا اپنا اپنامشغلہ اور اپنا اپنا مزہ ہے۔جس طرح ہم لوگوں کو پاؤں دبوانے میں مساج کروانے میں مزا آتا ہے اسی طرح ان روحوں کے بھی اپنے اپنے مزے ہیں۔ نفس کا بھی اپنا مزہ ہے۔ تو جو لطیفہ قلب ہے اِس کو مزہ اُس وقت آتا ہے کہ جب اس کی دھڑکنوں میں اللہ ھو کا ذکر گونجے اُس میں یہ مست ہوجاتا ہے۔ اگر ہمارے جسم کو بھی عبادت میں مزہ آتا تو ہمارا جسم کبھی بھی چون و چرا نہ کرتا تو ہمارے جسم کا مزہ عباد ت میں نہیں ہم زبردستی اس کو عبادت میں لگاتے ہیں اور پھر ساری زندگی یہ جسم عبادت کرتا بھی نہیں ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس جسم کے ذریعے پہلے ہم دنیا میں خوب عیاشی کرلیں۔ اور جب بڈھے ہوجائیں چلنے کے لئے چھڑی کی ضرورت ہو تو اُس وقت پھر جائے نماز کے اوپر تسبیح لے کے بیٹھ جاتے ہیں جسم بھی خوش ہوتا ہے کہ میں اپنے مزے کرچکا ہوں اس کا لگا رہنے دو۔ تو جسم کا جو مزہ وہ کچھ اور ہے اس لئے عبادت کرنے میں یہ سستی کرتا ہے۔ جب تک آپ ذاکرِ قلبی نہیں ہوتے ہیں تو جسم کو آپ لگا کے رکھتے ہیں نماز بھی پڑھو یہ بھی کرو اور وہ بھی کرو اور جسم جو ہے وہ بس زبردستی کرتا رہتا ہے لیکن جونہی آپ کے قلب میں ذکر داخل ہوتا ہے اور دل اللہ اللہ کرنے لگ جاتا ہے تو نفس جو ہے وہ جسم کو یہ کہتا ہے کہ اب جس کا کام ہے عبادت کرنا اب وہ چیز عبادت کر رہی ہے اب میری جان چھوڑ دو۔ یہ قدرتی عمل ہے۔ اب بات یہاں پر دین کی نہیں ہورہی ہے کہ بھئی نماز جسم کو پڑھنی چاہئے یا نہیں بات یہاں جسم کی فطرت کی ہورہی ہے۔ میں یہ نہیں کر رہا ہوں کہ ذاکرِ قلبی بننے کے بعد آپ جسمانی عبادت چھوڑ دیں بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ جونہی ذکرِ الٰہی دائمی طور پر استقرار پکڑ لیتا ہے قلب میں ، تو جسم جو ہے وہ بغاوت پر اُتر آتا ہے وہ کہتا ہے اب ہو تو رہی ہے اللہ اللہ اب مجھے تم کیوں لگا رہے ہو؟ اب پڑے رہو ہوتی رہے گی اللہ اللہ ۔ قلب کا مزہ جو ہے وہ روح میں ہے۔ جب اس میں وہ آجاتا ہے تو قلب مست رہتا ہے۔

شریعتِ ناقصہ کے حامل لوگوں نے ہر دور میں اولیاو فقراء کی مخالفت کی ہے:

نفس کا جو مزہ ہے ساز اور آواز میں ہے۔ کچھ ولیوں نے جب اس راز سے پردہ اُٹھایا تو موسیقی کے ساتھ اللہ اور اُس کے رسول کا ذکر بھی لگا دیا کہ یہ نفس کی مرغوب غذا ہے چلو اس بہانے سے ہی ان کو اللہ کی طرف راغب کیا جائے۔ اب جو مسجدوں میں مدرسوں میں پڑھے ہیں حدیثیں اور قرآن ، نہ اللہ کے کسی ولی نے اُن کو سمجھایا دین نہ کسی صالحین کی صحبت میں بیٹھے، نہ کسی فقیر کی نظروں سے فیض پایا اُن کو کیا پتہ ہے کہ انسان کی فطرت کیا ہوتی ہے ؛ اور انسان اپنی فطرت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن چیزوں کو رب کی عبادت میں لگائے جو آسانی سے لگ جائیں گی اور جو آسانی سے نہیں لگیں گی اُن کے لئے بہانہ ڈھونڈے۔ اب یہ موسیقی کے ساتھ اللہ اللہ کرنا اللہ کے حبیب کا ذکر کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دوائی پلاتے ہیں جب ، کڑوی ہوتی ہے تو دودھ میں ڈال دیں یا اورنج جوس میں ڈال دیں کسی اور جوس میں ڈال دیں جوس کے ساتھ جوس کی برکت سے دوائی بھی پی گیا۔ اسی طرح نفس جو ہے اب آپ اُس سے کیا بحث کرینگے آپ تو اُسے دیکھ بھی نہیں سکیں گے ۔ اسی لئے بزرگانِ دین نےنفس کو اللہ اللہ میں لگانے کے لئے وہ راستہ اختیار کیا جونفس کو مرغوب تھا ، اُس کے ساتھ اللہ اللہ لگایا تو نفس بھی خوش ہوتا رہا تو جب نفس نے دیکھا کہ اللہ کا ذکر ہورہا ہے ہاں ہاں ، لیکن چلو ناچو! لیکن اس کی مرغوب غذا ہے۔ یہ ایک دین کا الگ محکمہ ہے جس میں ارواح کوڈیل کیا جاتا ہے ۔ اور جو دوسرا محکمہ دین کا ہےوہ شریعت کا ہے۔

“جن لوگوں نے بغیرطریقت کے شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کی وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ جب طریقت کا علم بیان کیا گیا تو وہ لوگ جو شریعت پر عمل پیرا تھے وہ اس کو سمجھ نہ پائے اور حضورﷺ کے دور سے لے کر آج تک جو صرف شریعت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں وہ اِس علم کو سمجھ نہیں پاتے ہر دور میں اِس علم کی وجہ سے اولیا ءاللہ پر فقراء پر مولویوں نے کفر کے فتوے دئیے۔ کوئی ایک دور بھی ایسا نہیں

امام ابو حنیفہ کو ہی دیکھ لیں اُن پر بھی کافی کفر کے فتوے لگے۔ شروع سے ہی یہ ہوتا آرہا ہے اور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے زمانے میں طریقت کی اثر پذیری کا یہ عالم تھا کہ دس لوگوں میں سے پانچ ذاکرِ قلبی ہوتے تھے۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے جب کوئی راز کی بات کہی تو پانچ سو فتوے کفر کے لگ گئے۔ سیدنا امام مہدی سرکار گوہر شاہی علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے کم و بیش اڑتیس اُنتالیس سال پہلے جب یہ تصوف ،روحانیت ،طریقت باطن کے علم کا افتتاح فرمایا تو یہ وہ دور تھا کہ دنیا میں کسی کامل ذات کو آئے ہوئے چار سو سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ طریقت تو طریقت پورا علم ہے سرکار گوہر شاہی نے بیس سال صرف ایک نکتہ سمجھانے کے لئے لگا دئیے پاکستان میں ۔ کیا نکتہ تھا وہ ، کہ یہ جو دل ہے یہ بھی اللہ اللہ کرسکتا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ کوئی جانتا نہیں تھا۔ آج آپ دیکھیں لائن لگی ہوئی ہزاروں پیروں کی سرکار گوہر شاہی کی تقاریر سن سن کے ذکرِ قلب کے ایسے ایسے انہوں نے مورچے بنائے ہوئے ہیں کہ بس اُن کی عیاشی لگ گئی کہ لو جی ایک نکتہ تصوف کا مل گیا ہے اس کو بیان کردو۔ رہ گئی بات فیض کی ، فیض کون پوچھتا ہے؟ لوگوں کو جھانسہ دیتے رہو بس ۔ جیسے آج انجمن سرفروشانِ اسلام کے لوگ ہیں۔ نہ ان کے خود کے قلب ذکر کرتے ہیں نہ کسی اور کے کرینگے۔ یہ خود ملعون ہیں ۔ خود زندیق اور کفر کا شکار ہیں۔ سیدنا امام مہدی سرکار گوہر شاہی نے ایک نکتے کی وضاحت فرمائی کہ یہ جو دل ہے یہ بھی اللہ کا ذکر کر سکتا ہے؛ اور آپ نے مثالیں بھی دیں۔ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دل اللہ اللہ کیسے کرے گایہ درویشوں کا خیال ہے ۔ اس کی زبان ہی نہیں ہے یہ کیسے اللہ اللہ کرے گا۔ پھر سرکار نے مثالیں دے کے سمجھایاکہ یہ جو مرغی کا انڈہ ہوتا ہے یہ عبرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ تاکہ تم اس سے عبرت حاصل کرو تاکہ تم اس سے سبق حاصل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑوں میں بنایا ہےیعنی جو چیز باطن میں بنائی ہے اُس کی طرف تمہارا دھیان جائے اس لئے ظاہر میں اُس کی نقل بنا دی۔ اور پھر آپ نے جو ہے وہ مثال دی۔ فرمایا کہ جو شخص انڈے کی خاصیت سے بے خبر ہو اگر اُس کو یہ کہیں کہ یہ چوں چوں کرے گا یہ ہوا میں اُڑے گا تو وہ یہ کہے گا ناں کہ یہ انڈا چوں چوں کیسے کرے گا ۔ یہ ہوا میں کیسے اُڑے گا۔ نہ اس کی چونچ ہے نہ اس کے پَر ہیں۔ تو فرمایا کہ وہ جو چوزہ ہے وہ اس انڈے کے اندر بند ہے اس کو نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح کا انڈہ تمہارے اندر بھی ہے اس کو بیضہ ناسوتی کہتے ہیں۔ یہ جو مرغی کا انڈہ ہے اس کے اوپر تین جالے ہیں اور وہ جو بیضہ ناسوتی تیرے سینے کے اندر انڈہ ہے اس کے اوپر ایک لاکھ اسی ہزار جالے ہیں۔ اس انڈے میں سے چوزہ نکالنے کے لئے مرغی چاہئے اور اُس انڈے میں سے فرشتہ نکالنے کے لئے مرشد چاہئے۔ مرغی کیا کرے گی اُس کو گرمی پہنچائے گی مرشد کیا کرے گا اُس کے سینے کے حساب سے اُس کو نور کی گرمی پہنچائے گا۔ وہ مرغی کا انڈاہ پھٹے تو اُس میں سے ایک چوزہ نکلے گا بغیر سیکھے سکھائے چوں چوں کرے گا۔ کیونکہ چوں چوں اس کی فطرت ہے ۔ جب یہ انڈہ پھٹے گا تو اس میں سے ایک فرشتہ برآمد ہوگا بغیر سیکھے سکھائے اللہ ھو اللہ ھو کرے گا کیونکہ اللہ ھو اس کی فطرت ہے۔ طریقت کا ایک نکتہ جو ہے وہ سمجھانے کے لئے بیس سال لگ گئے۔ پوری طریقت تو بیان نہیں ہوئی ایک نکتہ سمجھایا ۔

“اب جب سرکار گوھر شاہی نے تصوف پر عملی طور پر جہاد شروع کیا تو وہ جو شریعتِ ناقصہ کے دلدادہ تھے انہوں نے وہی کام شروع کردیا جو انہوں نے امامِ حسین کے خلاف کیا تھا جو انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ کے خلاف کیا تھا جو انہوں نے مولانا روم داتا علی ہجویری ، غریب نواز معین الدین چشتی ، غوثِ اعظم، منصور حلاج جنید بغدادی ابوالحسن خرقانی ابو بکر شبلی ان ہستیوں کے خلاف جو کچھ انہوں نے پروپیگنڈہ کیا اور ان کو زندیق اور کافر قرار دیا اور ان کے اوپر جو ہے کفر کے فتوے لگائے اور ان کو واجب القتل قرار دیا وہ سب کچھ انہوں نے سرکار گوہر شاہی کے خلاف کہنا شروع کردیا۔ سرکار امام مہدی گوہر شاہی نے جب سے اس علم پر گفتگو شروع کی اور اس کا فیض عطا فرمانا شروع کیا اس وقت سے لے کر غیبت میں جانے تک ایک لفظ شریعت کے برعکس نہیں فرمایا”

آپ کا جو منظوم کلام ہے تریاقِ قلب اس میں سرکار نے جو فرمایا ہے وہ آپ اُٹھا کرکے دیکھ لیں کہ شریعت کو کیا اہمیت دی ہے۔ شریعت کی کتنی افادیت بیان کی ہے: “شریعت ہے فرضِ اولین تیرا”۔ پڑھیں اُٹھا کے ۔ تو جو بدبخت سیدنا امام مہدی گوہر شاہی پر فتوے لگاتے ہیں ، آپ یہ نہ سوچیں کہ یہ کفر کے فتوے اور یہ واجب القتل کے جو فتوے لگائے گئے ہیں یا لگائے جا رہے ہیں یا لگائے جائینگے وہ کسی ایسی وجہ کی وجہ سے ہے کہ جو غیر شرعی ہوں یا اسلام کے خلاف ہوں۔ ایسا نہیں ہے یہ سارے کے سارے کفر اور واجب القتل کے فتوے صرف اس لئے ہیں کہ شرع اور عشق کا بیر پرانا ہے۔ ہر دور میں شریعت کے دلدادہ لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے صوفیوں پر فقرا ءپر اولیاء پر کفر کے فتوے لگائے ہیں۔ منصور بن حلاج کو مردود کہا گیا معاذ اللہ ، کسی صوفی کو زندیق کہا گیاتوکسی کو کافر کہا گیا یہ مسلمانوں کی زبان درازی ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ سیدنا امام مہدی گوہر شاہی نے جو تنظیم بنائی انجمن سرفروشانِ اسلام اُس کے جو کارکنان تھے اُن کی اکثریت ننانوے اشاریہ نو نو فیصد لوگ اُن پر جب ہم نے طریقت کے ابواب کھولنا شروع کئے تو انہوں نے بھی انکار کردیا۔ سرکار گوھر شاہی نے مجھے حکم دیا 1996 میں کہ پورے پاکستان کا دورہ کرو اور سب کو طریقت کے رموز بتاؤ ، سب کومرشد کی محبت کیا ہوتی ہے یہ بتاؤ۔ جب میں گیا تو سب نے آستانوں کے دروازے بند کرلئے ، تالے لگا دیئے ۔ کیا فیصل آباد کا آستانہ کیا لاہور کا آستانہ۔ فیصل آباد سے نکل کے جب لاہور گیا ابھی میں داتا صاحب کے مزار تک ہی پہنچا تھا کہ وہاں کا ذمہ دار بائیک پر بیٹھ کے داتا صاحب کے مزار کی طرف آگیا اور مجھے کہا کہ بھئی آستانہ تو بند ہے آپ کے پاس کوئی لیٹر نہیں ہے تنظیم کا تو آپ جا نہیں سکتے۔ لہٰذا آج کے ہم نے درود شریف کی محفل بھی ختم کردی ہے۔ پھر سرکار نے مجھے واپس بلا لیا۔ اور فرمایا کہ پاکستان کے جو ذاکرین ہیں یہ شریعت سے آگے کچھ اور جانتے نہیں ہیں اور نہ جاننا چاہتے ہیں ۔ یہ سرکار کا فرمان ہے۔ نہ یہ شریعت کے علاوہ کچھ جاننا چاہتے ہیں نہ ان کو کوئی علم ہے۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے تمہیں اپنے آستانوں سے نکالا ہےیہ گوہر شاہی کا کرم ہے جاؤ اور تقریر کرو پہاڑی پہ جا کے۔ انجمن سرفروشانِ اسلام میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی تھی کہ جو صرف شریعت کی ہی بات کرنا چاہتے تھے اور آپ یقین کریں شریعت سے کسی کو خدا نہیں ملا۔
اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ان سے پوچھیں کہ چلو شریعت کی تشریح بیان کرو تو ان کو شریعت کی تشریح بھی نہیں آتی ان بدبختوں کو اتنا نہیں پتا کہ شریعت کے دو حصے ہیں ایک ظاہری شریعت ہے اور ایک باطنی ۔ ظاہری شریعت کو شریعتِ ناقصہ کہا گیا ہے یعنی عیب دار شریعت نقص والی شریعت، یعنی اُس کے اندر برائی ہی برائی ہے۔ ظاہری شریعت کو شریعتِ ناقصہ کہا گیاہے اور جو باطنی شریعت ہوئی وہ نفس کو پاک کرنا باطنی شریعت کہلائی۔ یہ جو نفس کو پاک کرنے والی شریعت ہے اس شریعت کو شریعتِ حقہ کہا گیا۔ جب نفس بھی پاک ہوجائے اور جسم بھی پاک ہوجائے اُس کو کہتے ہیں شریعتِ کاملہ ۔ اور جو صالحین نے صوفیا نے فقرا نے یہ جملہ جو فرمایا ہے کہ شریعت کے بغیر طریقت نہیں تو وہ شریعتِ باطنی کی طرف اشارہ ہے کہ نفس پاک کئے بغیر ذکرِ قلب نہیں۔ اور ہمارے اپنی ہی تنظیم انجمن ہذا کے جو رُکن ہیں اُن کو ہی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا ،داڑھی رکھنا ،نہانا دھونا وضو کرنا یہ ہے شریعت ۔ ہے کوئی ایسا ولی کامل اس وقت پاکستان میں جو یہ بتا دے کہ نماز روزہ شریعت کی عبادت ہے یا طریقت کی؟ جو نماز روزہ نہ کرے تو کہتے ہیں کہ یہ شریعت سے باغی ہے۔ بھئی شریعت سے باغی ہونے کا نماز سے کیا تعلق۔ اگر یہ شریعت کی عبادت ہے تو معراج شریف پر کیوں نازل ہوئی ؟ پہلے شریعت کامل نہیں تھی کیا؟ جب تک نماز فرض نہیں ہوئی تھی تو اُس وقت تک صحابہ جو تھے وہ سب غیر شرعی حرکتوں میں تھےکیا نماز شریعت کی عبادت ہے ۔ شریعت کا عبادت سے تعلق ہی نہیں ہے۔ شریعت تو دین کا قانون ہے۔ جیسے آپ ڈرائیونگ کر رہے ہیں تو اُس کے لئے جو ہے ٹریفک کے قانون ہیں تیس پہ گاڑی چلانی ہے آپ نے ، کہیں پر بیس میل فی گھنٹہ چلانی ہے کہیں پر ستر میل کی سپیڈ ہے ۔ پیلا ڈبہ بنا ہوا ہے اگر آگے کی ٹریفک کلیئر نہیں ہے گرین لائٹ ہونے کے باوجود بھی آپ یہیں رکے رہیں پیلے ڈبے میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ وہ پیلا ڈبہ اس لئے بنایا ہے کہ دائیں اور بائیں کی ٹریفک جو ہے وہ وہاں سے گزر سکے ۔ آپ پیلے ڈبے میں اگر جا کے کھڑے ہوجائیں گے تو اِس ٹریفک کو بھی آپ نے روک دیا اِدھر کی ٹریفک کو بھی روک دیا۔ سات سیکنڈ سے زیادہ پیلے ڈبے میں اگر گاڑی رہی تو ٹکٹ گھر میں آجائے گا۔ تو یہ قوانین ہیں۔ تو شریعت کا عبادت سے تعلق نہیں ہے بلکہ شریعت کا دین سے تعلق ہے۔ دین کے ہر معاملے کو شریعت نے قانون کا پابند بنایا ہے ، خواہ وہ معاملہ نماز کا ہو خواہ وہ معاملہ روزے کا ہو یا وہ معاملہ طلاق اور شادی کا ہو ، یا وہ معاملہ جائیداد بچوں میں تقسیم کرنے کا عورتوں میں مردوں میں تقسیم کرنے کا ہو الغرض یہ کہ دین کی جو پوری عمارت ہے اُس دین پر عمل پیرا ہونے کے لئے اللہ نے قوانین بنائے ہیں کہ ایسے چلو ایسے مت چلو ۔ وہ جو قوانین دین کے ہیں اُن کو شریعت کہا جاتا ہے۔ آج کا جاہل مسلمان سمجھتا ہے کہ یہ نماز روزہ حج زکوٰۃ یہ سب شریعت میں ہیں۔ جو یہ نہ کرے تو وہ شریعت سے باہر ہے اور زندیق ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ شریعت قانون ہے۔ اب یہ قرآن مجید کی آیت ہے

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 238

تمہاری یہ جو نمازیں ہیں ان کی نگرانی کرتے رہو ۔ ہو رہی ہیں نہیں ہورہی ہیں چیک کرتے رہو۔ اب لوگوں نے اس کے ترجمے کیے ہیں کہ ان کی حفاظت کرو۔ اوہ بھئی نماز کیا چوری ہورہی ہے جو تم ان کی حفاظت کرو گے؟ فرمایا کہ اپنی نمازوں کی نگرانی کرتے رہو کہ تمہاری نماز کی صحت کیسی ہے ؟ اور پھر کہا کہ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ اور جو بیچ میں لٹک رہی ہے نماز اُس کی بھی نگرانی کرو ۔ وہ جو بیچ میں لٹک رہی ہے نماز وہ کیا ہے؟ وہ جو پسلیوں کے بیچ میں قلب لٹکا ہوا ہے ، صلوٰۃ کا بیج اسمِ ذات کی شکل میں قلب میں استقرار پکڑتا ہے نماز جو ہم پڑھتے ہیں جس میں قیام اور رکوع اور سجود ہوتے ہیں اس کی جو بنیا دہے وہ قلب کا اللہ ھو کا ذکر کرنا ہے۔ جو ہم نماز کی ادائیگی کرتے ہیں کھڑے ہوکرکے قیام کی حالت ہے نماز میں قعد ہے رکوع ہے سجود ہیں اِن تمام کی جو بنیادہے جو اساسِ صلوٰۃ ہے وہ قلب میں اللہ کے ذکر کا جاں گزیں ہونا ہے اور اُس کو دائمی صلوٰۃ کہا گیا ہے ۔الحمد للہ رب العالمین مالک یوم الدین ایاک نعبد و ایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولاالضالین۔ یہ پوری کی پوری سورہ فاتحہ ہے۔ دوسری طرف “اللہ ھو”۔ دونوں میں کون سی چیز افضل ہے۔ قرآنِ مجید جو ہے اللہ کے نور کی کم شدت والی شکل ہے ۔ یعنی اُس کی طاقت کم ہے۔ اور اللہ ھو اس کی روح ہے۔یعنی جو پورا قرآنِ مجید ہے اُس کا جو عرق ہے اُس کا جو ماخذ ہے محاصل ہے وہ اللہ کا اسمِ گرامی ہے کیونکہ بائبل ہو یا کوئی اور کلام ہو سارے کلام اسمِ اللہ سے نکلے ہیں ،توریت زبور انجیل قرآن سب وہیں سے نکلے ہیں۔ امام مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کل انسانیت کو اسمِ ذات پر جمع کرینگے یہ ایک روایت ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسمِ ذات کے اوپر کیسے سب کو جمع کرینگے ہر مذہب والا اسمِ ذات پر آکر کیوں متحد ہوگاکیونکہ اسمِ ذات کے اندر انجیل بھی ہے توریت بھی زبور بھی ہے قرآن بھی ہے سب کتابیں اسی نام سے نکلی ہیں تو جب سب کے قلب میں اللہ کا اسم آجائے گا تو سب کے قلب میں توریت زبور بائبل قرآن بھی آجائے گا۔ جس کا بائبل سے تعلق ہوگا اُس کو بائبل کی ہدایت اسمِ ذات سے ملے گی۔ جس کا توریت اور زبور سے ہوگا اُس کو وہ بھی وہیں سے ملے گی۔ جس کا قرآن سے تعلق ہے اُس کو قرآن کا فیض بھی اسمِ ذات کے ذکر سے ہی ملے گا۔ یہ چھوٹی سی چیز نہیں ہے ۔ دل کا اللہ ھو اللہ ھو کرنا صرف ذکر نہیں ہے اساسِ ایمان اوراساسِ دین ہے۔توحَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے رہو ۔ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وہ خاص طور پر صلوٰۃ جو تمہارے اندر لٹکی ہوئی ہے ۔ اب اُس کے بعد اللہ نے کہا وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ کیونکہ اللہ کے سامنے تمہیں کھڑا ہونا ہے تو تمہارے وجود میں جو کچھ بھی ہے بس کو اُس کے حضور میں جھکا کے کھڑے ہو۔ اب اللہ کے سامنے اگر کھڑے ہونا تو کیا تمہیں یہ زیب دے گا کہ تمہارا جسم تو رب کے سامنے کھڑا رہے اور تمہارے اندر کی روحیں دنیا میں لگی ہوں۔
تیرا دل کھڈاوے منڈے کڑیاں توسجدے کریں مسیتی
رب دے نال وی دنیا داراں چار سو ویہہ توں کیتی

اور صرف تیرا جسم ہی وہاں حاضر ہو تیرا دھیان کہیں اور ہو تیرا دل کہیں اور ہو ، سوچوں میں کسی اور کی غلطاں ہواور حضور رب کے کھڑا ہو، ایسی حالت رب کو پسند نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاوَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو تو اپنے اور باہر دونوں کو حاضر کرکے اُس کے سامنے کھڑے ہو۔ تیرا سارا کا سارا ظاہر اور باطن اُس کے سامنے حاضر ہو تب تو مزہ ہے۔ باہر کی صلوٰۃ ہو اور اندر کی صلوٰۃ نہ ہو ایسی حالت میں رب کے سامنے کھڑے نہ ہونا رب کے سامنے حاضر ہونا ہے تو ایسی حالت میں حاضر ہوتو اندر اور باہر ، ظاہر اور باطن، جسم اور دل اور روح سب کچھ اسی کی طرف متوجہ ہو۔ یہ اس آیت کا مطلب ہے۔ اب جب سیدنا امام مہدی گوہر شاہی نے دین کے ہر شعبے کی کنجی باطنی علم میں مضمر قرار دی تو وہ فرقہ وارانہ عناصر وہ جاہل اور شر پسند علما ء کہ جن کے باطن کو بھی کبھی علم کی ہوا نہ لگی وہ کفر اور شرک اور بدعت کے فتوے لگانے لگے۔ سیدنا گوہر شاہی ؛ کہاں آپ کی ذات اور کہاں آپ پر یہ بہتان کہ جی نبوت کادعویٰ کیا ہے ۔ اب وہ لوگ کون ہیں جنہوں نے سیدنا امام مہدی گوہر شاہی پر نبوت کے دعوے کا بہتان لگایا ہے کتنے بدبخت لوگ ہیں۔ اور پھر ہمارے لوگوں کی آئی ڈیز پر بھی لکھا ہوا ہے کہ ہم ختمِ نبوت کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں۔ اُس کے باوجود بھی شر پسند ملا جس کے لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ کہ آج مولوی کا دین کیا ہے کہ فی سبیل اللہ فساد کرو۔ بار بار وہی بہتان اور جھوٹے الزامات لے کرکے کھڑے ہوجاتے ہیں گستاخیاں کرتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال آتا ہے کہ بھئی سرکار گوہر شاہی کی اتنی مخالفت کیوں ہے کیا کیا ہے آخر ۔ سرکار گوہر شاہی نےاُس علم کو بیان کردیا جس علم کو ابو ہریرہ نے قتل کئے جانے کے خوف سے چھپائے رکھا تھا یہ مخالفت اس لئے ہے۔ اور اب دیکھیں پھر انہیں باتوں کی تشریح اور مزید بیان کی ہم نے آگے ۔ انجمن سرفروشانِ اسلام نے بھی فتوے لگانے شروع کردئیے حالانکہ ان میں تو مولوی بھی نہیں ہیں ۔میں خود بڑا پریشان ہوتا تھا ابتدائی دور میں ، بھئی یہ کیوں مخالفت ہو رہی ہے ۔ چلو امام مہدی کا ذکر تو اب ہوا ہے۔ عالمِ غیب کی باتیں تو اب بیان ہوئی ہیں۔ وہ اُس وقت سن 85 اور سن 86 میں ا تنی شدید مخالفت لوگ اس وقت بھی کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ تم کیا شرک کر رہے ہو ۔ اچھا بھئی کیا شرک ہورہا ہے؟ یہ اللہ ھوکیوں کر رہے ہو؟ جس قوم کو یہ پتہ نہ ہو کہ اللہ ھو کرنا توحید ہے یا شرک اُس قوم کے تو آپ ایمان اور دین پر تو انا للہ واناعلیہ راجعون پڑھ کر ضائع نہ کریں۔ جس کویہ نہ پتہ ہو کہ اللہ ھوکرنا توحید کا اقرار ہے یا شرک اُس کو کیا مسلمانی کا پتہ ہوگا۔

سرکار گوھر شاہی نے مرتبہ مہدی لا ل شہباز قلندر کی درخواست پر قبول کیا:

سیدنا امام مہدی گوہر شاہی انگلی کا اشارہ بھی نہیں کرتے صرف اتنا کہتے چلو آنکھیں بند کرو غوث پاک کو ملنا ہے ؟ ہاں جی ملنا ہے۔ چلو پہنچ گئے ۔ حضور پاکﷺ کو دیکھنا ہے ؟ جی سرکار۔ حضور پاکﷺ کے پاس لے گئے۔ کیا ہے وہ ذات؟ جنہوں نے انتہائی شدید گنہگار لوگو ں کوایسی مقدس بارگاہوں میں پلک جھپکتے پہنچا دیا ، ہمارا گمان تو یہ ہے کہ دنیا میں ہم سے بڑا کوئی گنہگار پیدا نہیں ہوا ۔یہ جو پیغامِ حق پھیلا یہ سرکار گوہر شاہی کی ذاتی کاوشیں ہیں۔ سرکار گوہر شاہی جب لال باغ میں تھے آپ نے روحانی سفر میں وہ تو پڑھا ہے کہ گنبدِ خضریٰ جو ہے اُڑتا ہوا آیا پھر اُس میں سے کچھ رقاصائیں نکلیں جو حضورﷺ پر درود وسلام پڑھ رہی تھیں پھر اُن کے جھرمٹ میں حضوؐر نکل کے آئے تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام ہے کہ یہ مرتبہ مہدی آپ کی خدمت میں حاضر ہے ۔ تو سرکار گوہر شاہی نے ارشاد فرمایا کہ ہمارا موڈ نہیں ہے۔ ہم بس جنگل میں رہنا چاہتے ہیں ہمیں نہیں چاہئے کوئی مرتبہ۔ پانچ دفعہ آمد ہوئی۔ گیارہ مرتبہ شیخ عبدالقادر جیلانی آئے منع کردیا۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے لعل شہباز قلندر کو کہا کہ تم گوہر شاہی کے ہم مزاج ہو ، تو تم ذرا کہو۔تو لعل شہباز قلندر جو ہے اُن کو ڈیڑھ سال لگا۔ یہ بات لب پر لانے والی نہیں تھی جو کہنا پڑ رہی ہے لعل شہباز قلندر کو ڈیڑھ سال لگا ۔ اُس ڈیڑھ سال میں سارے لطائف جثہ توفیق الٰہی تجلیات سب کچھ پہن کے ، سنور کے ، سج کے ، سارے جو باطنی تمغے ہیں وہ لگا کے آفیشل طریقے سے پھر وہ سرکار کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو عشق کا صدقہ ہے عشق کا واسطہ ہے۔ اس کو مرتبہ مہدی کو مرتبہ نہ سمجھیں یہ عشق کی التجا ہے مرتبہ مہدی کو مرتبہ مہدی نہ سمجھیں یہ عشق کی التجا ہے (ہاتھ جوڑ کے) ، عشق کے واسطے آپ جو ہے اس کو قبول کرلیں۔ تو سرکار نے فرمایا کہ لعل شہبار قلندر نے عشق کا واسطہ دیا تو پھر ہم نے قبول کرلیا۔ قبول کرنے کے بعد آپ جب دنیا میں آئے جنگل سے نکل کرتو فرمایا کہ ہم نے کہا کہ ہم دیکھ لیں جن لوگوں پر ڈیوٹی لگ رہی ہے ایک نظر دیکھیں تو سہی تو حیدرآباد شہر میں ایک چوک پر کھڑے ہوگئے صبح سے لے کر رات تک کے لئے اور ہر آنے جانے والے اسکین کر رہے ہیں۔ کوئی ایک بندہ ایسا نہیں گزرا آپ کے سامنے سے ، ہزاروں گزرے ایک بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس کے اندر شیطانی جنات کی بھر مار نہ ہو۔ تو فرمایا کہ ہم سوچنے لگے کہ ان کا ذکر کیسے چلے گا۔ اور چلا بھی دیا تو ان کے اندر سرایت کیسے کرے گا چلنے کے بعد یہ بھاگ گئے تو کیا ہوگا؟تو پھر اُس کے بعد سرکار امام مہدی گوہر شاہی نے اللہ کے سامنے کچھ نکات رکھےکہ روحانیت کے قوانین میں یہ یہ چیزیں جو ہیں ، اِن اِن پابندیوں کو ختم کیا جائے۔
پابندی نمبر 1 ۔۔۔۔کہ اس سلسلے میں کوئی مجذوب نہیں بنے گا۔
پابندی نمبر 2 ۔۔۔۔کوئی جنگل نہیں جائے گا۔
پابندی نمبر 3 ۔۔۔۔کہ ذکر چلنے سے پہلے اُس کی منظوری ہمیں دی جائے تاکہ رّد نہ ہو۔
تو اس طرح کے نکات پیش کئے۔ اب بتائیے یہ جو مخلوقات ہے یہ جو انسان ہے یہ گوہر شاہی کی مخلوق ہے یا اللہ کی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی آسانی کے لئے فوراً اُن نکات کو قبول کرلیتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا انہوں نے کہا کہ یہ چھوٹ ہم دے دینگے تو اُس کے لئے گوہر شاہی آپ کو قربانی دینی پڑے گی، مخلوق تیری اور قربانی اور قیمت ادا کریں گوہر شاہی۔ اللہ کی عظمت کو سلام۔ ہم سلامی دے سکتے ہیں۔ مخلوق اللہ کی ، ذکر اللہ کا ، عشق بھی اللہ کا سرکار گوہر شاہی کو ہمدردی کہ ایسا کوئی پلان بنا کے دیں ان لوگوں کو کہ جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی راندہ درگار نہ ہو اس کی محنت ضائع نہ ہو اور اللہ کو پانے میں یہ کامیاب ہوجائیں ۔ اور لوگوں کی کامیابی کے لئے جو کہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ کو چاہنا چاہ رہے ہیں قیمت گوہر شاہی نے دی۔ اُن لوگوں کے لئے قیمت ادا کی جن کو وہ جانتے نہیں تھے۔ نہ تمہیں جانتے تھے نہ مجھے جانتے تھے۔ نہ اُس کو جانتے ہیں جو آج سے دس سال بعد مشن میں آئے گا۔ نہ اُس کو جانتے ہیں جو دس سال پہلے آیا تھا کتنا بڑا احسان ہے یہ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہو رہی ہے آج کہ یہ جو مخلوق ہے یہ جو انسانیت ہے اس انسانیت کی گوہر شاہی کو اللہ سے زیادہ پرواہ ہے۔اللہ کو اپنی مخلوق کی اتنی پرواہ نہیں جتنی پرواہ مخلوق کی گوہر شاہی کو ہوئی ہے۔ تبھی تو اللہ نے اپنی مخلوق کی خاطر گوہر شاہی سے سودے بازی کی۔ اگر تم بے غیرت اور بے حیا ہو تو الگ بات ہے۔ جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ ہمارے دل میں اللہ اللہ ہو جائے اس کی قیمت گوہر شاہی نے ادا کی ہے اللہ نے ہمارے لئے یہ چیز فری نہیں دی تو پھر کہا کہ اب تو وفاداری اس کی کرنی ہے ۔ اگر آپ بے غیرت اور بے حیا ہیں تو ٹھیک ہے آپ وہ کریں جو آپ کا من کرتا ہے لیکن جس کے اندر حیا ء نامی کوئی شے ہے پتہ بھی چل جائے کہ میرے رب نے میرے لئے آسانی نہیں دی ایک انسان ایک شخص آیا جس کو دنیا گوہر شاہی کہہ رہی ہے اُس نے اللہ کو یہ قیمت دی ہے کہ یہ لو قیمت اپنی مخلوق کو میرے ذریعے عشق دے دو ۔ آج کی بیعت نہیں پوری انسانیت کی بیعت سرکارگوہر شاہی نے لال باغ میں خرید لی تھی ، جب سب کی قیمت ادا کی وہ بیعت تھی پوری انسانیت کی، اُس کے بعد انسانیت پر حق زیادہ اُس ذات کا ہے جس نے قیمت دی ہے۔مخلوق اُس کی ، قیمت یہ دیں۔ تو پرواہ اس مخلوق کی کس کو ہوئی؟ اگر آپ کی سمجھ میں نہیں آتا ہے تو آپ اپنا نام انجمن سرفروشانِ اسلام والوں میں لکھوا دیں۔
مان نہ تُو ہم نے احسان چڑھا دیا
جھکا ہوا تھا سر تیرے محبوب کا ہم نے بلند کرادیا

یہ ہیں میرے سرکار گوہر شاہی۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ بھئی اتنی خاص خاص باتیں نہ کیا کرو ، یہ خاص لوگوں کی ہیں لیکن خاص لوگوں نے اگر کوئی گروپ بنایا ہوا ہے تو اُس کا پتہ دے دیں۔ اب خاصوں کو کوئی پتہ نہیں ہے کہاں ہیں؟ عام اور خاص دونوں ملے ہوئے ہیں جب یہ علم اُن کے اندر اُترے گا تب وہ خاص بنیں گےاس علم سے پہلے تو کوئی بھی خاص نہیں ہے۔ مخالفت کے خوف سے حق گوئی تو چھوڑی نہیں جاسکتی۔ مخالفت کے خوف سے حق پرستی حق گوئی مفقود نہیں ہوگی۔ ہمارا جو پیغام ہے وہ عشق کا پیغام ہے۔ اب یہ انجمن والے اپنی ای میلز میں لکھتے ہیں کہ سرکار نے فرمایا کہ تیسرے اور چوتھے علم کی بات کرنے والے گمراہ ہیں توتم تیسرے علم کی بات کیوں کرتے ہو؟ اچھا اُن سے اگر یہ پوچھ لیں کہ تیسرا علم کیا ہے؟ تو اُن کو پتہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے پاکستان میں کراچی میں کوئی اگر نئی بات بھلے غوث پاک کی کتاب میں پڑھ کے ہی میں نے آگے بیان کی، تو وہ کہتے ہیں ارے معرفت کی باتیں مت کرو ۔ اچھا اُن کو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ معرفت کیا ہوتی ہے۔ اچھا اب تیسرا علم کیا ہے۔ یاد کرو سرکار نے فرمایا کہ حضور پاکﷺ نے فرمایا ہمیں تین علم عطا ہوئے ، ایک خاص کے لئے ، ایک عام کے لئے ، ایک صرف میرے لئے۔ وہ جو صرف میرے لئے علم ہے وہ کونسا ہے ؟ دیدارِ الٰہی کا۔ دیدارِ الٰہی کا علم تیسرا ہے۔ اگر تیسرا علم حرام ہوتا تو دیدارِ الٰہی کسی کو بھی نہ ہوتا ۔تو سرکار نے یہ نہیں فرمایا کہ تیسرا علم حرام ہے بلکہ اُن لوگوں کی نسبت کہا ہے کہ یہ زندیق جو تیسرے علم سے تعلق رکھتے نہیں ہیں اور صرف زبانی دعوے کرتے ہیں یہ تیسرے علم کی باتیں کرنے والے گمراہ ہیں تیسرا علم نہیں ہے۔ تیسرا علم تو دیدارِ الٰہی کا علم ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 15 جون 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس