کیٹیگری: مضامین

سب سے پہلے تو آپ نے یہ جاننا ہے کہ یہ دنیا کئی مرتبہ بنی ، بگڑی اورتباہ ہوئی ہے اور ایک آدم نہیں آیا بلکہ اللہ تعالی نے مختلف وقتوں میں چودہ ہزار آدم اس دنیا میں بھیجے ہیں ، آپ خود سوچیں آج تو سفر کرنا بہت آسان ہے، جہاز کے ذریعے چند گھنٹوں میں ہم ایک براعظم سے دوسرے بر اعظم میں پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر ہم آج سے ہزار دو ہزار سال پہلے دیکھیں تو سفر کرنا اتنا آسان نہیں تھا خاص طور پر سمندر پار سفر کرنا تقریبا ناممکن تھا اور پھر یہ تصور کہ اللہ ایک آدم کو بھیج دے اور پوری دنیا میں پھر اس کی اولاد کو بسائے ۔ اُس پیادہ زمانے میں سفر کے لئے وسائل ہی موجود نہیں تھے نقل و حمل ایک بہت بڑا مسئلہ تھا ہمیں اس کی بات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ مثال کے طور پر ایک جاپانی کار ٹویوٹا کو دنیا بھر میں لوگ خریدتے اور استعمال کرتے ہیں اگر جاپان کی یہ پالیسی ہوتی کہ ٹویوٹا کار صرف جاپان میں ہی بنے گی اور وہاں سے ہی اسے بھیجا جائے گا تو ان کاروں کی نقل و حمل کا کتنا بڑا مسئلہ ہوتا ۔جو ماڈلز انگلینڈ میں ٹویوٹا کار کے ہوتے ہیں امریکہ جا کر دیکھیں تو وہ ماڈلز وہاں نہیں ہوتے، سائوتھ امریکہ کی کاروں کے ماڈلز نارتھ امریکہ میں نہیں ہوتے، افریقہ میں کچھ اور تو مڈل ایسٹ میں کچھ اور ہے اسی طرح پاکستان اور انڈیا میں کچھ اور ہے اور اگر بنکاک، ملیشیاء ،سنگا پور چلے جائیں تو وہاں کچھ اور ہے اسی طرح آسٹریلیاء میں کچھ اور ہے ، یہ کیا ہے؟ ٹویوٹا والوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پلانٹس لگائے ہوئے ہیں وہ کاریں وہیں پر بنتی ہیں امریکہ ، انگلینڈ سب جگہ پلانٹس لگے ہوئے ہیں کیونکہ نقل و حمل کا بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالی نے چودہ ہزار آدم مختلف خطوں میں بھیجے ہیں:

جس طرح اگر انسان کو یہ سوچ آ گئی ہے کہ مختلف ممالک میں گاڑی بنانے کے پلانٹس لگا دئیے جائیں تاکہ وہیں پر بنیں اور وہیں ان کی خرید و فروخت ہو تو اللہ تعالی نے تو پوری دنیا کو بنایا ہے، اللہ تعالی سب سے زیادہ اچھا نظام چلانے والا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے کوئی ایک آدم نہیں بنایا ، چائینیز کا آدم مختلف ہے، فار ایسٹ کی ساری پٹی پر دیکھیں سب کی شکلیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اس کے بعد سری لنکا چلے جائیں تو ان کی شکلیں جدا ہیں ، پاکستان اور انڈیا ، بنگلا دیش کے جو لوگ ہیں ان کی شکلیں سری لنکا کے لوگوں سے جدا ہیں وہاں سے اگر آپ یورپ آ جائیں تو یورپ والوں کی شکلیں مختلف ہیں ،اور نارتھ امریکہ کے ریڈ انڈین بھی مختلف شکل و صورت کے مالک ہیں ۔ یعنی اللہ تعالی نے آدم کو مختلف شکلوں اور مختلف خطوں اور بر اعظموں میں بھیجا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں انسان کی آمد و رفت ہو گئ ایسا نہیں ہوا کہ کسی ایک جگہ آدم آئے ہوں اور اس کے بعد اللہ نے ان کے گروپ بنا بنا کر ان کو کہا کہ تم اس جگہ رہو تم اس دوسری جگہ جا کر رہو۔ جب اللہ تعالی نے مختلف جغرا فیائی خطوں پر آدم کو بھیجا اور وہاں مختلف نبی آئے تو ان کے بعد اور نبی بھی آئے ہوں گے، سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ ایک مرتبہ امریکہ کی ریاست ایری زونا کے شہر ٹوسان میں قیام کے دوران ریڈ انڈین قبیلے کا سردار ملنے آیا تو سرکار نے اس سے پوچھا کہ تمہاری تہذیب کے مطابق تمہارے آدم کی کیا تاریخ ہے؟ تو اس نے بتایا کے بائیبل کے مطابق تو ہمارا آدم عرب ہی میں آیا تھا لیکن ہماری اپنی تہذیب کے مطابق ہمارا آدم سائوتھ ڈکوٹا سے آیا تھا۔ اسی طرح ہم بھی سری لنکا جاتے آتے رہتے ہیں ہم نے بھی وہاں کے مقامی لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہمارا آدم بھی یہیں سری لنکا کا ہی تھا۔

عظمت والے علم کا آغاز آدم صفی اللہ سے ہوا:

اللہ نے چودہ ہزار آدم مختلف خطوں میں بھیجے اس طرح انسان پوری دنیا میں مختلف خطوں پر آباد ہوا اور وہاں مختلف انبیاء کرام آئے ، اب چونکہ یہ بات بہت پرانی ہو چکی ہے اس لیے ان کا نشان نہیں ملتا یہ دنیا تو اربوں سال سے آباد رہی ہے اس کا اب نشان نہیں رہا ، آخری آدم جو اللہ نے اس دنیا میں بھیجا وہ آدم صفی اللہ تھے، اس سے پہلے جو 13999آدم دنیا میں آئے وہ اسی دنیا میں یہیں کی مٹی سے بنائے گئے اور ان کو باطنی علم نہیں دیا گیا لہذا ان میں نہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری کا عنصر تھا نہ کوئی نورانی صفت تھی،بغیر باطنی علم کے جسمانی خشک عبادات وہ کرتے تھے وہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ ان کے پاس ایسا علم نہیں تھا کہ جس کے بل بوتے پر وہ فرشتوں سے زیادہ نورانی ہوجائیں اور مقام میں فرشتوں اور ملائکہ سے بڑھ جائیں لہذا ابلیس کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ کوئی اس کی عظمت کو چھوئے گا ۔جس کے نتیجے میں ابلیس کی ان سے دشمنی نہیں تھی ان کو گمراہ کرنے کے لیے عام چھوٹے موٹے جنات ہی کافی تھے لیکن ساڑھے چھ ہزار سال پہلے جب اللہ تعالی نےآخری آدم صفی اللہ کو بھیجا جن کو جنت میں جنت کی مٹی سے بنایا اور عظمت والا علم ان کو دیا اور اس عظمت والے علم کے بل بوتے پر آدم صفی اللہ کی نسل سے بڑے برگزیدہ پیغمبر آئے، جن پیغمبروں کے نام بائیبل، تورایت، زبور، قرآن میں آپ پڑھتے ہیں یہ سارے پیغمبر وہ ہیں جو آدم صفی اللہ کی اولاد میں آئے اور جنہیں مشرق وسطیٰ میں اتارا گیا ، لیکن پہلے بھی پیغمبر آئے ہیں اور ہر خطے میں آئے ہیں ان کے نام آپ کے پاس نہیں ہیں کیونکہ شاید دنیا اتنی جدید تھی نہیں کوئی تاریخ لکھنے والا نہیں تھا ، ساڑھے چھ ہزار سال میں جتنے بھی پیغمبر آئے ہیں ان کے نام آپ کو تورایت ،زبور، انجیل اور قرآن میں آپ کو مل جاتے ہیں ، یہ بر گزیدہ ترین پیغمبر ہوئے ہیں ان سے پہلے جتنے آئے ان کے پاس باطنی علم نہیں تھا ، صرف آدم صفی اللہ کی قوم جو کہ مشرق وسطیٰ ہی میں آباد رہی ان کو اللہ نے عظمت دی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے خطوں میں نبی نہیں آئے۔ آئے ہیں لیکن وہ بات بہت پرانی ہو گئی ہے لہذا ان کا ریکارڈ نہیں ہے، امریکہ ، سائوتھ امریکہ، نیوزی لینڈ آسٹریلیاء میں چھوٹے چھوٹے جزیروں پر نبی آئے ہیں ۔ اللہ جب چھوٹے سے پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے تو اللہ کے لیے یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہو گی کہ دنیا کے دور دراز ترین جزیروں پر مخلوق نہ بنا سکےتو ہر جگہ اس نے انبیاء کو بھیجا ہے۔ آخری آدم کو عظمت والا علم دیا جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے اور ان کو سری لنکا میں اتارا پھر وہ کسی طرح عرب پہنچے اور عرب میں ان کی افزائش نسل کا سلسلہ چلا۔

آدم صفی اللہ کی دو طرح کی اولاد تھی:

دوسری اہم بات آدم صفی اللہ کی دو قسم کی اولاد تھی اللہ نے ان کو آج سے ساڑھے چھ ہزار سال پہلے سری لنکا میں اتارا تھا اس وقت ہوائی جہاز نہیں تھے نہ جانے کس طرح اور کتنے مہینوں میں سفر کر کے آدم صفی اللہ عرب پہنچے تھے ، مائی حوا کو اللہ نے جدہ میں اتارا تھا ، آبا و اجداد سے ہی “جد” نکلا ہے ،اس جگہ کو جدہ بھی مائی حوا کی وجہ سے ہی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ نے ان کو وہاں اتارا تھا لیکن اس سے پہلے کیا تھا؟ جب اللہ نے آدم صفی اللہ کو سری لنکا میں اتارا تھا تو آدم صفی اللہ سے اولاد کا سلسلہ سری لنکا میں ہی بغیر حوا کے شروع ہو گیا تھا ۔ آدم صفی اللہ کی ران سے بچے نکلتے تھے اور جب مائی حوا سے ملاقات ہو گئی تو ان سے بھی اولاد کا سلسلہ شروع ہوا تو کچھ آدم علیہ السلام کے بچے صرف آدم صفی اللہ کی ران سے نکلے تھے ان کی کوئی ماں نہیں تھی۔(غور کریں کہ ہم سب آدم صفی اللہ کی آولاد ہیں تو پھر تو ہم سب بہن بھائی ہیں تو بہن بھائی آپس میں شادی کیوں کررہے ہیں ؟ مولویوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے، ایک اور بات کہ کچھ لوگ خود کو سادات کہتے ہیں ارے بھائی بھنگی بھی نبی کی اولاد ہے ، آدم صفی اللہ نبی تھے ان سے نسل چلی تو ہر انسان نبی کی اولاد ہے۔ عربیوں کو یہ کہنے کا بڑا شوق ہے کہ ہم افضل ہیں کیونکہ ہم عربی ہیں ،عجمی ہم سے نیچے ہیں تو پھر آدم صفی اللہ بھی تو سری لنکا سےعرب آئے تھے ،اگر اللہ نے مائی حوا کو جدہ میں اتارا تھا تو آدم صفی اللہ کو بھی جدہ میں ہی اتار دیتے ان کو سری لنکا میں اگر اتارا ہے تو کوئی تو راز اس میں ہو گا!!)

“آدم صفی اللہ کی دو طرح کی اولاد تھی ایک وہ جو ران سے نکلی اور ایک وہ جو مائی ہوا کے بطن سے نکلی ، ران سے نکلی ہوئی اولاد کا بی بی حوا سے کوئی تعلق نہیں تھا لہذا وہ ان کی کوئی عزت بھی نہیں کرتے تھے”

پوری دنیا میں آجکل یہ رواج عام ہے کے مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں ،فیڈر سے دودھ پلا دیتی ہیں تاکہ انکا حسن خراب نہ ہو۔ سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا پہلے جب مائیں بچوں کو اپنی چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی تھیں تو ماں کی محبت بھی بچے میں منتقل ہوتی تھی آج کل کے بچے ماں باپ کو کچھ نہیں سمجھتے تو ہم سارا قصور بچوں پر ڈال دیتے ہیں ، آپ نے تو اپنی اولاد کو اس وقت ہی نظر انداز کر دیا تھا جب وہ پیدا ہوا تھا، اپنے حسن کو بچانے کے لیے آپ نے اولاد کو خود سے دور رکھا اور فیڈر لگا دیا، بلکل اسی طرح آدم صفی اللہ کی وہ اولاد جو ان کی ران سے نکلی تھی ان کی ماں نہیں تھی اس لیے مائی حوا کی محبت ان میں نہیں تھی اس لیے وہ ان کو تنگ کرتے تھے۔ اس وقت آدم علیہ السلام نے اپنے ان بچوں کو کہا تھا کہ ماں کی عزت کیا کرو اس کے قدموں تلے جنت ہے۔ یہ آدم صفی اللہ کا قول ہے جو اب تک چلا آ رہا ہے۔

آدم کی اولاد کی آپس میں شادیاں کیسے ہوئیں؟

جو اولاد آدم صفی اللہ کی ران سے نکلی تھی اس کی شادی ان سے کروائی جو مائی حوا کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی کیونکہ ران سی نکلی ہوئی اولاد میں مائی حوا کا خون نہیں تھا اس لیے یہ فرق آ گیا تھا ۔
عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے لیکن قرآن مجید میں سب کے نام نہیں ہیں ، قرآن مجید میں صرف ان انبیاء کے نام ہیں جو آدم صفی اللہ کی اولاد میں سے تھے ، اس سے پہلے جو نبی آئے ان کے نام قرآن میں نہیں آئے، لہذا مقدمہ یہ ہے کہ پوری دنیا کے ہر خطے میں نبی آئے ہیں لیکن وہ ہزاروں سال پرانہ زمانہ تھا اس کا ہمارے پاس ریکارڈ نہیں ہے ہمارے پاس جو ریکارڈ ہے وہ وہی ہے جو آدم صفی اللہ کے آنے کے بعد کا ہے۔ سری لنکا میں اتارے جانے کے بعد وہ عربستان آ گئے یہ چھ سے سات ہزار سال کا عرصہ ہے جس میں یہ سب ہوا اور اس کا ریکارڈ ہمارے پاس ان آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 18 نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس