کیٹیگری: مضامین

کیا ہماری دعائیں رب تک پہنچتی ہیں ؟

یہ ایک حساس موضوع ہےکہ ولیوں سے مانگنا کیسا ہے ؟ یا پھر اللہ سے مانگنا چاہیےاور اس میں بہت ہی باریک ایک لائن ہے جو ایمان کو کفر سے جدا کرتی ہے ۔مثال کے طور پر اگر آپ کسی سے پیسے مانگیں اور آپ کا اعتقاد یہ ہو کہ اُس کے پاس جو پیسے ہیں یہ اُس کی اپنی قدرت ہے تو یہ شرک ہے ، اور اگر اعتقاد یہ ہو کہ میں ان کے پاس جاؤں اور یہ اللہ سے جڑے ہوئے ہیں اور اِن کے پاس جانے سے میری آواز اللہ تک پہنچ جائےاور اللہ کا مجھ پر کرم ہو جائےتو یہ تو اللہ ہی سے مانگنا ہوا ۔اب اگر کسی مزار پر جارہے ہیں اور یہ کہیں کہ خواجہ مجھےیہ دے دے ، یہاں سب سے پہلے اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ خواجہ نے سنا ہے یا نہیں؟ اگر خواجہ نے نہیں سنا ہے تو پھر وہ جو آپ کی شکایت ہے کہ اللہ تو ہم سے بہت دور ہے تو جتنا دور اللہ ہے اُتنا ہی دور خواجہ بھی ہو گئے۔خواجہ کو پکار رہے ہیں اور وہ بھی نہیں سن رہے ہیں اور اللہ کو بھی پکارا تو وہ بھی نہیں سن رہا ہے تو کوئی ایسا ڈھونڈنا پڑے گا جس کے ذریعے تمھاری آواز اللہ تک پہنچ جائے۔ یہ سارے مسائل اس لئے ہیں کہ آپ کا اللہ سے تعلق نہیں جڑا ہے اگرآپ کے دل میں بھی اللہ کانور آ جائے تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔جب آپ خود اللہ سے جڑ جائیں گے تو وسیلہ ختم ہو جائے گا، جب آپ کا دل منور ہو جائے گاتو آپ کے اپنے دل کی آواز اللہ تک پہنچے گی اور جس دن آپ کے دل کی آواز مغموم پہنچے گی اور اللہ تعالی فرشتوں کو کہے گا فوراً جاؤ اور اس کی مشکل دور کر دو اس سے پہلے کہ میرا بندہ میرے سامنے ہاتھ اُٹھائے۔جن لوگوں کا اللہ سے تعلق جڑ جاتا ہے اللہ کو یہ بھی گوراہ نہیں ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے ہاتھ اُٹھائے، وہ اُس کی مشکل پہلے ہی دور کر دیتا ہے کیونکہ ستر ماؤں سے ذیادہ پیار کرتا ہے ۔اور اگر اللہ سے تعلق جڑا ہوا نہیں ہے تو پھر بڑے مسئلے ہیں کس سے مانگیں اللہ نہیں سن رہا ہے!!

مرسلین اور اولیاءکے آنے کا مقصد رب سے جوڑنا ہے:

آج کل کا مسلمان اس بات کو فراموش کر چکا ہے کہ اللہ سے تعلق بھی جوڑنا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں اس لئے ہمارا تعلق اللہ سے جڑا ہوا ہے ۔کلمہ ہم نے پڑھ لیا ہے اس لئے ہمارا تعلق جڑ گیا ہے ۔ایسا نہیں ہے آپ کو اللہ سے تعلق جوڑنا پڑے گا، پیدائشی طور پر نہ کوئی ولی ہوتا ہے اور نہ ہی مومن ، سب کے نفس ناپاک ہوتے ہیں یہاں تک کہ قرآن مجید کی روشنی میں انبیاء کے نفوس بھی پیدائش کے وقت ناپاک ہوتے ہیں ۔جسطرح قرآن مجید میں سورة یوسف ہے جس میں لکھا ہے

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورة یوسف آیت نمبر 54
ترجمہ میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بے شک نفس امارہ تو برائی کا امر کرتا ہے مگر جس پرمیرا رب مہربانی کرے بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

اگر تیرا رب نہ بچاتا تو تم تو گناہ کر چکے ہوتے۔جب انبیاء کو بھی اپنے نفس کو پاک کرنا پڑے گاتو پھر آپ کو بھی کرنا پڑے گااور یہ جو انبیاء و اولیاء آتے ہیں ان کے آنے کا مقصد ہی انسان کا رب سے تعلق جوڑنا ہے ،تمھیں وہ صحیح تعلیم سکھا دیں ، صحیح طریقہ تمھیں سکھا دیا جائے کہ تمھارا قلب اللہ کے نام سے بیدار ہو جائے اور تعلق جڑ جائے۔انبیاء، مرسلین، اولیاءو فقرا کے آنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ وہ تمھارا اللہ سے تعلق جوڑ دیں، غوث پاک بھی اسی لئے تشریف لائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ سے تمھارا تعلق جوڑ دیں۔ایک اور جگہ پر قرآن میں ارشاد ہوا کہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ
سورة الاعلی آیت نمبر 14
ترجمہ: یقیناً وہ کامیاب ہو جائے گاجس نے اپنی آپ کو پاک کر لیا۔اور اپنے رب کے اسم کا ذکر کیااور پھر نماز قائم کی۔

اب اس آیت میں جو ترتیب اللہ نے بیان کی ہے وہ بہت قابل غور ہے کہ پہلے نفس کو پاک کر پھر اسم اللہ کے ذکر سے قلب کو پاک کر اور پھر نماز کے قابل ہو جاؤ۔ہمار ے معاشرے میں کیا ہوتا ہے کہ نفس کو کیا پاک کرنا، بس نمازیں پڑھتے رہواور گناہ بھی اسی اُمید پر کرتے ہیں کہ میں تو پانچوں وقت کا نمازی ہوں ۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی صحابی حضور نبی کریم سے نماز کی فضیلت پوچھی تو آپؐ نے پوچھا کہ اگر کوئی نہر پر جا کر پانچ دفعہ نہائے تو کیا اُس کے جسم پر کوئی گندگی رہ جائے گی ؟ صحابی نے کہا کوئی گندگی نہیں رہ جائے گی، آپؐ نے فرمایا یہی نماز ہے ۔اب یہاں سے لوگوں نے یہ تاثر لے لیا کہ فجر سے لے کر ظہر کی نماز تک جتنے بھی گناہ کیے وہ دھل جائیں گے، ظہر سے لے کر عصر تک جتنے گناہ کیے وہ دھل گئے لیکن اس طرف دھیان نہیں جاتا کہ ہماری نمازیں قبول بھی ہوئی ہیں یا نہیں ۔لوگ اس اُمید پر جی رہے ہیں کہ ہم جو بھی گناہ کر رہے ہیں وہ نماز پڑھنے سے ختم ہو جائیں گے لیکن قرآن مجید میں یہ بھی لکھا ہے کہ

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ
سورة العنکبوت آیت نمبر 45
ترجمہ : نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہےاور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔

اب جب نماز برائیوں سے روکتی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نمازیں بھی پڑھتے رہیں اور گناہوں میں بھی ملو ث رہیں ۔اسکا مطلب ہے کہ آپ کی نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ برائیوں سے نہیں روک رہی ہے ، اُن کھوکھلی نمازوں کو دُرست کرنے کے لئے ہم یہ تصوف کی تعلیم عام کر رہے ہیں کیونکہ آپؐ کا حکم ہے لا صلوة الا بحضور القلب ۔۔۔ کہ اگر تیرا قلب نماز میں حاضر نہ ہو تو وہ نماز ہو گی ہی نہیں ۔نماز کی سرکار سیدنا گوھر شاہی نے بہت خوبصورت تشریح فرمائی ہے کہ زبان تلاوت ِقرآن کرے ، جسم رکوع و سجود یعنی اعمال کرے اور دل اللہ اللہ کر کے اس کی تصدیق کرے۔زبان ذکر مفّصل میں ہے کہ کہہ دے اللہ ایک ہے اور دل ذکر مجمل میں ہے اللہ ہی اللہ ۔یہی نمازِ حقیقت ہے اور مومن کی معراج ہے ،یہ وہ نماز ہے جو برائیوں سے روکتی ہے ۔ جب تیرے دل میں نور آ جائے گاتو وہ اندر کو بدل دے گا پھر اگر شراب کو منہ بھی لگایا تو اندر سے کوئی چیز بدل جائے گی اور دل اس کو پینے پرآمادہ نہیں ہو گا، یہ ہے نماز کا روکنا۔ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ تم ڈنڈے لے کر کھڑے ہو جاؤاور لوگوں کو زبردستی نماز پڑھاؤ۔ زبردستی کسی پر نہیں کرنی چاہیے یہ قرآن کا حکم ہے۔

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ
سورة البقرة آیت نمبر 256
ترجمہ : دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔

جیسے سعودی عرب میں جب نماز کا وقت ہوتا ہے مذہبی پولیس لوگوں کو ڈنڈے مارمار کر مسجد میں بھیج رہی ہے ، یہ تو اسلام نہیں ہے قرآن تو خود کہہ رہا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اور اگر آپ زبردستی کر رہے ہیں تو دین کے خلاف جا رہے ہیں ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 17نومبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس