کیٹیگری: مضامین

عربی زبان میں نور کا لفظی ترجمہ کریں تو اسکا مطلب ’’روشنی ‘‘ہے ۔جسطرح یہ برقی رو ہے اگر برقی رو بذات خود روشنی ہوتی تو ہمیں ٹیوب لائٹ اور بلب کی ضرورت نا ہوتی ۔نو ر کو میں توانائی کی ایک شکل سمجھتا ہوں ۔کیونکہ ہم نے حضور ؐ کو دیکھا ہے ۔آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’انا من نور اللہ ‘‘ میں اللہ کا نور ہوں۔
لیکن حضور ؐ کو دیکھنے سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ آپؐ کے اندر نور کی کوئی شعاعیں نکل رہی ہیں یا روشنی نکل رہی ہیں ، ایسا تو نہیں دیکھا ۔ تو نور ایک مثبت خدائی توانائی ہے ۔جسطرح سے یہ برقی رو ہے اس میں تاریں ہوتی ہیں ، اب تاروں کے اندر تو کوئی روشنی تو نہیں جا رہی ہے لیکن کرنٹ بہہ رہا ہے ۔

نور کی خصوصیات:

نور کی خصوصیات ہیں ایک تو نور ہے اللہ کے نام کا ،وہ نور ہماری روحوں کو بیدار کرے گا ۔ اللہ کے نام کی بار بار تکرار سے وہ اسم ذات اللہ کا نور بنتا ہے۔ اور ایک نور وہ ہے جو اللہ کے وجود سے خارج ہوتا ہے جسطرح ہم دوڑتے ہیں یا پھر محنت کا کام کرتے ہیں توہمارے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تو جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کےلئے ہمارے مساموں سے پسینہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے ۔ جیسے ہی پسینہ نکلتا ہے تو جسم کا درجہ حرارت گر جاتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی کے جسم سے نور نکلتا ہے اور ہمارے جسم سے پسینہ نکلتا ہے ۔جو نور اللہ کے جسم سے نکلتا ہے اگر تم اس کی زد میں آ جائو تو عشق ہو جائے اللہ سے ۔ کیونکہ اگر عشق کی چھوٹی سے تعریف کریں تو ’’اللہ کے وجود سے جو نور نکل رہا ہے اس کی زد میں آنا‘‘۔ جو بھی اللہ وجود کے نور کی زد میں آ جاتا ہے وہ اس کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے ۔ایک کشش ہے وہ عشق ہے۔اب وہ عام آدمی کو تو میسر نہیں ہے ۔ عام آدمی کےلئے اللہ تعالی نے زمین پر ’’ اسم ذات ‘‘ کو بھیجا ۔ جبرائیل امین نے وہ جو اسم ذات کی امانت تھی ، اپنے سینے سے آپؐ کے سینے میں منتقل کی ۔ جب غار حرا میں جبرائیل امین پہلی دفعہ گئے اور کہا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي
کہ میں نے آپ کو رب کا اسم دے دیا ہے ۔تو وہ جو اسم ذات کا نور ہے وہ ہمارے قلب کو ہماری روح کو منور کرنے کے کام آئے گا ۔پھر اللہ کے نام کی تکرار سے نور بنے گا ۔ اس نور سے ہماری روحوں کی پرورش ہو گی ، ہماری روحیں مقام بالیدگی کو پہنچ جائیں گی ۔اور جوان ہو کر اپنے اپنے عالم تک چلی جائیں گی اور ان تمام روحوں کے طاقتور ہونے کے بعد مرشد کامل انسان کے لطیفہ انا کی روح کو مقام محمود پر لے جاتا ہے وہاں پھر لطیفہ انا ّ کے آگے اللہ روبرو ہو گا ،دیدار ِ الہی ہو گا ۔اور اس وقت پھر اللہ تعالی کے وجود کی جو شعاعیں ہیں اس کی زد میں لطیفہ انا ّ آ جاتا ہے ۔ پھر اسکے بعد اسکا نقش جو ہے آپ کے قلب میں سما جائےگا ۔ اسکے بعد اللہ تعالی (360) دفعہ روزآنہ اپنے اس چہرے کو دیکھتا رہے گا جو آپ کے دل پر لگا ہے ۔جب بھی دیکھے گا تو وہ نظر ِ رحمت گرے گی ۔ اسی لئے کہتے ہیں ولی کامل پر (360) تجلیاں گرتی ہیں ۔اور ایک تجلی سے سات گناہ کبیرہ جل جاتے ہیں ۔

دلیل:

ذاتی نور کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس کی وجہ سے اللہ کی ذات تک آپ کی رسائی ہو جائے گی ۔اور جو صفاتی نور ہے ، جس صفت کا وہ نام ہے ۔ جیسے کہ ’’غفور‘‘ ہے غفور کا مطلب ہے معاف کرنے والا۔ جب آپ ’’یا غفور ‘‘ کا ورد کریں گے تو اس سے یا غفور کا صفاتی نور بنے گا ۔ وہ نور آپ کے اندر جائے گا تو آپ کے اندر معاف کرنے کی طاقت بڑھ جائے گی ۔اب چونکہ آپ کے اندر نور نہیں ہے تو آپ معاف بھی نہیں کرتے ہیں ایک دوسرے کو ۔ عام آدمیوں میں معاف کرنے کی ریت کہاں پڑی ہے۔ زبان سے کہہ دیتے ہیں I forgive you. لیکن معاف کرنے کے باوجوددل میں بغض ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ معاف کرنے کا عمل انسان زبان سے کہہ بھی دے تو نہیں ہوتا ۔یا غفور کا جو نور ہے معاف کرنے کی طاقت اُس نور میں ہے وہ جب نور آپ کے اندر ہو گا تب آپ معاف کر سکیں گے۔اور جب آپ نے اس نور سے معاف کیا تو دل سے بغض بھی نکل جائے گا اور آپ ایسے ہو جائیں گے جیسے کوئی بات تھی ہی نہیں ۔جسطرح اللہ کا ایک اور صفاتی نام ہے ’’ یا ودود‘‘ یہ ودود جو ہے محبت والا ہے ، جب آپ ’’ یا ودود ‘‘ کا ورد کرتے رہیں گے ایک خاص طریقے کے ساتھ ، تو اس سےمحبت کا جو نور ہے وہ آپ میں آنا شروع ہو جائے گا ۔جب محبت کا نور آئے گا تو سب سے محبت سے ملنے لگ جائیں گے۔لیکن وہ نور ہے میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ نور کو سو فیصد روشنی سمجھ لیا جائے ۔نور کو روشنی کی شکل میں دکھایا جا سکتا ہے لیکن فی نفسہی نور خود روشنی نہیں ہے۔ہا ں البتہ کسی بھی شکل میں اس کا اظہار ہو سکتا ہے۔نور ایک توانائی ہے جس کا اللہ کی ذات سے تعلق ہے ۔
ہمارے معاشرے میں اگر کوئی چہرہ ہم کو اچھا لگے تو ہمارے تاثرات یہ ہوتے ہیں کہ کیا نور ہے اس کے چہرے پر ۔ہم نے بہت خوبصورت لوگ دیکھے ہیں لیکن انکے دل کالے ہیں ۔اب اگر نورچہرے پر ہے تو ان کے دل کالے کیوں ہیں ۔تو ہماری قوم نے یہ سمجھا ہوا کہ کوئی اللہ کا ولی ہو گا تو بڑا حسین وجمیل ہو گا جو کہ ایک غلط تصور ہے۔ایک حدیث قدسی میں ہے

اللہ جمیل و یحب الجمال
ترجمہ : اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے (کتابوں میں موجود ترجمہ)

اردو میں ہم جمال کا مطلب خوبصورتی سمجھتے ہیں ۔ اس سے مولویوں کو شے ٔ مل گئی کہ دیکھیں اللہ بھی حسن پرست ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے ۔ لیکن جب روحانیت میں ہم اللہ کے نور کےلئے کہتے کہ یہ جلالی حیثیت رکھتا ہے اور حضور ؐ کے نور کو ہم جمالی کہتے ہیں ۔اور ہم جمالی کا مطلب ٹھنڈا سمجھتے ہیں ۔تو اس حدیث قدسی میں جو خوبصورت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ غلط ہے ۔ یہ بات کچھ جچتی نہیں ہے کہ اللہ حسین ہے اور حسینوں کو پسند کرتے ہیں ۔اب اگر یہ مولوی ترجمہ ٹھیک کر رہے ہیں تو ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگر اللہ کو حسین پسند ہے تو پھر بد صورت کیوں بنائے؟ اسکا مطلب ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہی نہیں ہے ۔
اس حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ضبط میں رہتا ہے ۔ اللہ تعالی کے پاس کتنی طاقت ہے ، جو اس کو نہیں مانتے اس کو بھی رزق دیتا ہے ۔ جو اللہ کو برا بھلا کہتے ہیںوہ اس کو بھی رزق دیتا ہے یہ ضبط ہے نا۔یہ اس حدیث کا صحیح ترجمہ ہے ’’و یحب الجمال‘‘ ضبط والے لوگوں کو پسند بھی کرتا ہے۔ یعنی جن کے پاس طاقت ہو لیکن وہ پھر بھی نارمل رہیں ۔ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ طاقت سے ہمارے رویے میں تبدیلی آ جاتی ہے اور انسان بے وقوف ہو جاتا ہے ۔ ’’اللہ جمیل‘‘ یعنی اللہ ضبط میں رہتا ہے۔ اگر ضبط میں نہ رہیں تو جو ان کو نا مانے اس کو مار دے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ مہدی سیدی یونس الگوہر کی لائیو خطاب سے لیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس